دعا اور اس کی قبولیت کے درمیان ابتلاء آنے میں ایک حکمت
دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔ یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے۔ اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے۔ لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۴٩٢، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آ جاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعیدالفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِرّیہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے۔ اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہو گی یا نہیں ہوتی، ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ۷۰۷-۷۰۸، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
اس درگاہ بلند میں آساں نہیں دُعا
جو منگےسو مر رہے مرے سو منگن جا
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۸۷)