عبیداللہ علیمؔ کی مزاحمتی شاعری (از چاند چہرہ ستارہ آنکھیں)
جدید غزل کے نامور شعراء میں ایک نام عبیداللہ علیمؔ کا ہے۔ ۱۲؍جون۱۹۳۹ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔ایام طفولیت سے ہی انہیں عمدہ شعر یاد کرنے اور پڑھنے سے لگاؤ تھا۔۱۹۵۲ء میں والدین کے ہمراہ پاکستان آگئے۔۱۹۵۹ء میں باقاعدہ شعر کہنے شروع کیے۔۱۹۶۹ء میں جامعہ کراچی (University of Karachi)سے ایم اے اردو کا امتحان پاس کیااور ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔پھر کچھ عرصہ ٹی وی میں پروڈیوسر کے طور پر کام کیا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر۱۹۷۸ء میں انہوں نے ملازمت کو خیر آباد کہہ دیا۔ان کی شاعری کا اول مجموعہ ’’چاندچہرہ ستارہ آنکھیں‘‘ جنوری ۱۹۷۴ء میں منظرِعام پر آیاجس نے اردو ادب کا مستند آدم جی ایوارڈ اپنے نام کیا۔یادرہے یہ ایوارڈ ایک وقت میں ایشیا کے بڑے ادبی ایوارڈز میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری فن پاروں میں ’’ویران سرائے کادیا‘‘(جولائی ۱۹۸۶ء)اور ’’نگارِ صبح کی امید میں‘‘(مارچ ۲۰۰۰ء) شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ان کے کلیات ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے یکجا صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔
۱۸؍مئی ۱۹۹۸ء کو کراچی میں عبیداللہ علیمؔ کا انتقال ہوا۔ اور اسٹیل مل کے نزدیک رزاق آباد میں باغِ احمد احمدیہ قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
ان کی شاعری پر بات کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ مزاحمت سے کیا مراد ہے ؟مزاحمت کے لغوی معنوں پر نظر ڈالیں تو کسی قدر اشتراک کے ساتھ مختلف لغات میں مزاحمت کے معانی درج ہیں۔ مثلاًعلمی اردو لغت (جامع) میں مزاحمت کے معنی روک،ممانعت اور تعرض۔فرہنگِ عامرہ میں کسی پر تنگی کرنا۔ فرہنگِ آصفیہ میں مزاحمت کے لفظی معنی کچھ یوں بیان ہوئے ہیں’’روک، تعرض،اٹکاؤ،ممانعت اور روک ٹوک۔ جبکہ انگریزی میں مزاحمت کو resistenceکہا جاتا ہے۔ ادبی اصطلاح میں مزاحمت سے مراد ایسی روش ہے جس کے ذریعہ قلمکار نثری یا شعری اصناف میں معاشرتی،سماجی ناانصافی جبرو استبداداور مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہےاور سچ کا ساتھ دیتے ہوئے جھوٹ کے خلاف علم بغاوت بلند کرتاہے۔عبیداللہ علیمؔ کا یہ شعر اسی بات کی ترجمانی کرتاہے:
بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات
(کلیات،یہ زندگی ہے ہماری صفحہ:۱۵۹)
ادب کی تخلیق بعض اوقات مزاحمتی روش بن جاتی ہے ہےکیونکہ اگر ادیب اپنے گردو پیش وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات سے مطمئن نہ ہو تو اس اس کا تخلیق کردہ ادب اس کشمکش کا عکاس بن جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ایسا ادب مزاحمتی اور ایسا ادیب ’باغی‘ کہلاتا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد کے مطابق مزاحمت کی تاریخ اتنی قدیم ہے جتنی ادب کی تاریخ پرانی ہے۔ اردو ادب کے خمیر میں مزاحمت رچی بسی ہے۔ جس دور میں اردو ادب کا آغاز ہوا وہ سیاسی دیوالیہ پن،سماجی و تہذیبی زوال کا عہد تھا۔شاہانِ وقت کارِ سلطنت کی مصروفیات کو پس ِپشت ڈال کر رنگ رلیوں میں مصروف رہے جس کے نتیجہ میں دلی کو بار بار تہس نہس کیا گیا۔ بالآخر انگریز سامراج نے اس کی زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس دور کے شعراء نے ان دردناک حقائق کو محسوس کیا اور اپنے احتجاج کو ضبط ِتحریر میں لائے۔
چمن خراب کیا، ہو خزاں کا خانہ خراب
نہ گل رہا نہ بلبل ہے باغباں تنہا
(حاتمؔ)
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
(سوداؔ)
میرؔ و سوداؔ کے بعد غالبؔ و حالیؔ نے بھی مزاحمت کی روش کو ایک حد تک اپنائے رکھا اور ان کے دور میں مزاحمتی شاعری کو نیا عروج ملا۔جوش ملیح آبادی کو مزاحمتی شاعری میںاس حوالے سے بڑا مقام حاصل ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد معاشرتی بدحالی، مارشل لا،سقوطِ ڈھاکہ، بدامنی و بے سکونی،بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں ناکامیوں سے غمناک ہو کر بہت سے شعراء نے اپنے اپنے دلوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کی جن میں حبیب جالبؔ، فیضؔ، فرازؔ،منیرؔنیازی،افتخار عارف، جون ایلیاؔاور علیمؔ اس صنف کے نمائندہ شعراء ہیں۔
علیمؔ کی کتاب’’ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘‘میں متعدد اشعار مزاحمتی پہلو لیے ہوئے ہیں جن میں ان کی سماجی ناانصافیوں،معاشرتی بے حسی،قتل و غارت،دہشت گردی اور ظالم کے مقابل پر آواز اٹھائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان عوامل پر نوحہ کناں ہیں اور مظلوم کی داد رسی بھی کرتے ہیں۔
جون ایلیا نے ۱۹۸۶ءمیں علیمؔ کے دوسرے شعری مجموعہ کی تقریب رونمائی کے موقع پر ان الفاظ میں عبیداللہ علیمؔ کی شاعری اور شخصیت کے باغیانہ اور سر شور رویّے کی عکاسی کی ہے:’’علیمؔ ایک سرکش،سر شور،پیکار طلب اور مردم آزار روح کا نام ہےجو انسانوں سے الجھتی پھرتی ہے۔ اس کی زبان میں زہر ہے اور جب وہ اپنی زبان کا زہر دوسروں کی سماعت میں گھول نہیں پاتا تو اس کی کنپٹی میں درد ہوتا ہےایسا درد کہ جان کے لالے پڑ جائیں… شاعروں میں میرا سب سے محبوب آدمی علیمؔ ہے جو مجھ سے جونیئر ہے لیکن میری شاعرانہ ذات کی توثیق میں سب سے بڑا کردار علیمؔ نے ادا کیا ہے۔‘‘
عبیداللہ علیمؔ کی طبیعت کی بغاوت نے اس کی آزادی کی راہ میں روک بننے والی ہر زنجیر کو کاٹنا چاہا اور ان کی شاعری میں یہ عنصر بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔
نظیر صدیقی نے ان کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ موضوع کے حوالے سے فرسودگی اور پسماندگی عبیداللہ علیمؔ کی شاعری میں قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ اس کے ہاں تازگی اور جدّت بے پناہ ہے اور محض کھوکھلا دکھ اس کے ہاں نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:’’تین چار سال ہوگئے علیمؔ کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘‘شائع ہو چکا ہے… اس کی غزل کے اشعار میں ایک دل زدہ انسان کا دکھ بھی ہے اور ایک غمزدہ انسان کا غمناک لہجہ بھی۔ دل زدگی یا غم زدگی کوئی نیا موضوعِ سخن نہیں لیکن علیمؔ کے ہاں اس موضوع کی فرسودگی کے باوجود شعر میں تازگی محسوس ہوتی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ تازگی ہے لیکن تازہ کاری کی کاوش نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ دل کی آگ کو لفظوں میں اور لہوکی حدت کو روشنائی میں منتقل کرنے کی صلاحیت قدرت سے لے کر آئے ہیں‘‘۔
عبیداللہ علیمؔ کی شاعری میں دل کی آواز گونجتی ہے اور ان کے دل میں جو ظلم کے خلاف آتش ِانتقام بھڑکی اس نے اشعار کا رنگ اختیار کرلیا۔ بقول علیمؔ
ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے
(کلیات،صفحہ:۲۵)
علیمؔ کی مزاحمتی شاعری فرد کی محرومیوں معاشرتی اور سماجی مظالم پر نوحہ کناں نظر آتی ہے:
کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ
(کلیات،صفحہ:۱۱۵)
جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے
مگر دنیا کی رونق کم نہیں ہے
(کلیات،صفحہ:۱۰۳)
علیمؔ کی شاعری بلا شبہ حقیقت پر مبنی واردات کہلانے کی مستحق ہے اور ان حقائق کی تلخی ان کے اشعار کے حرف حرف سے عیاں ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل غزل میں وطنِ عزیز میں پیش آمدہ حالات پر دکھ اور افسوس کے جذبات کے اظہار کا خوبصورت نمونہ موجود ہے:
میں یہ کس کے نام لکھوں، جو اَلم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اِسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں
کوئی اَور تو نہیں ہے، پسِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں
(کلیات،صفحہ:۷۹)
یہ اشعار مزاحمتی شاعری کے بانکپن کا نقطہ عروج کہلانے کے مستحق ہیں جو شہروں کی بربادی،قتل و غارت، بےسکونی،مظالم اور اندرونی سازشوں کے خلاف انتہائی عمدہ فن پارہ ہیں۔
مذکورہ بالا غزل میں حقیقت پر مبنی واردات کا بیان ہے اور ہمارے ارد گرد ہونے والی کارروائیوں پر خوبصورت انداز میں مزاحمت کا اظہار کیا گیا ہے۔
علیمؔ کے ہم عصر، ان کے دوست اوران کے ساتھ ریڈیو اور ٹی وی میں کام کرنے والے افتخار عارف نے علیمؔ کی شاعری کے حوالے سے ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے انٹرویو میں بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ اس میں سے کچھ حصہ پیش ہے:’’اپنی بات پر اصرار اور تکرار اس کا شیوہ تھی۔ علیمؔ دل کی طاقت سے شعر لکھتا تھا۔ اس کا ہر مصرع اس کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا تھا۔ اپنے مسائل پر حالات کی تلخیوں پر شعر اس نے لکھےمگر غزل کے پیرائے میں لکھے۔غزل علیمؔ کا دل تھی۔
اے شہسوارِ حسن یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سرزمیں ہے قدم ناز سے اٹھا
میں پوچھ لوں کہ کیا ہے مرا جبرو اختیار
یارب یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا
(کلیات،صفحہ:۷۱)
میں نے جب کربلا کا موضوع لکھنا شروع کیا علیمؔ کا ایک شعر یاد آیا:
اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن
اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا
دو چار کے سوا یہاں لکھتا غزل ہے کون
یہ کون ہیں یہ کس کے طرف دار دیکھنا
(کلیات،صفحہ:۱۱۵)
علیمؔ کی بے شمار غزلوں کا پہلا سامع ہونے کا مجھے موقع میسر آتا تھامیں اول وقت دفتر آجاتا تھا۔ علیمؔ نے اگر صرف مطلع بھی کہا ہوتا تو اس کی خواہش ہوتی کہ وہ احباب تک پہنچائے۔شعر علیمؔ کی زندگی تھی۔ہمہ وقت کا کام سچے جذبے سرشاری کے ساتھ نظم کہتا تھا… اب میں جب آپ سے باتیں کررہا ہوں بار بار مجھے دو تین نظمیں سنائی دے رہی ہیں…
مِرے خدایا !میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں
بجھے ہوئے سے چراغ جیسے
جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
(کلیات،صفحہ:۳۱)
یہ لفظ سقراط، لفظ عیسیٰ
میں ان کا خالق، یہ میرے خالق
(کلیات،صفحہ:۱۸۲)
اور غزلوں کا ایک سلسلہ ہے کہ اس جیسی بے مثال غزلیں ایک تسلسل کے ساتھ بہت کم لکھی گئیں۔‘‘
علیمؔ کی شاعری میں ظالم کے خلاف آواز بھی اٹھائی گئی۔ اپنی ایک نظم میں دکھے ہوئے دلوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دکھے ہوئے دل ہیں میرا مذہب مرا عقیدہ
دکھے ہوئے دل
مرا حرم ہیں، مرے کلیسا، مرے شوالے
دکھے ہوئے دل
چراغ میرے، گلاب میرے
دکھے ہوئے دل
کہ روشنی بھی ہیں اور خوشبو بھی زندگی کی،
دکھے ہوئے دل
کہ زندگی کا عظیم سچ ہیں
دکھے ہوئے دل
دکھے ہوئے دل جہاں کہیں ہیں
دکھے ہوئے دل مرا ہی دل ہیں
دکھے دلوں کو سلام میرا
(کلیات،صفحہ:۵۷)
علیمؔ نے جہاں محبت کے جذبے کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا وہاں وہ اس کی بھول بھلیوں میں اپنے اردگرد ہونے والے واقعات سے بے خبر نہیں رہے بلکہ غمِ دوراں کا مزاحمتی انداز بھی ان کی شاعری کا خاصہ رہا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انور صابر لکھتے ہیں:’’ان کے مجموعۂ کلام’’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں ‘‘میں شامل غزلو ں سے ایک خاص قسم کی بے ساختگی، تازگی اور بانکپن کا احساس ابھرتا ہے۔ محبت کے شدید جذبے کے باوجود علیم نے اپنے گردو پیش میں پھیلی ہوئی ہمہ رنگ زندگی اور اس کے الجھتے،بکھرتے مسائل سے منہ نہیں موڑا اور عہدِ حاضر کے انسانی رویّوں کو بھرپور انداز میں اپنی غزل میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔‘‘
علیمؔ کے شعروں میں زندگی کے تلخ حقائق اور انسانی مجبوریوں کا جابجا تذکرہ ہے اور ان کی غزل میں مزاحمتی روش نے قاری کی توجہ کو حاصل کیا ہے۔
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا
میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ہوں
اُن لوگوں پر جن لوگوں نے مرے لوگوں کو آزار دیا
(کلیات،صفحہ:۲۰،۱۹)
علیمؔ نے محض شاعری نہیں کی بلکہ وہ ایک باشعور انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی،حال اور مستقبل کے حالات و واقعات کا ادراک رکھنے والے، ایک دردمند دل کے حامل شاعر ہیں جو لوگوں پردکھ اور سکھ کی حقیقت آشکار کرتا ہے۔اس حوالے سے شمیم نویداپنے ایک مضمون جو ادبی مجلہ ’’فنون‘‘ میں شائع ہوا لکھتے ہیں:’’عبیداللہ علیمؔ کے یہاں ایک ایسا گہرا تنقیدی شعور ملتا ہےجو آج کے بہت کم شعراء کو نصیب ہے۔ اس کے یہاں ماضی کا مطالعہ، حال کا مشاہدہ اور مستقبل کا تصور اتنے نکھر کر سامنے آتے ہیں کہ ان تینوں اجزاء کے امتزاج کو دیکھ کر ہم اس کی تاریخی بصیرت کی طرف واضح نشاندہی کر سکتے ہیں۔ عبیداللہ علیم کی شاعری حقیقت اور واقعیت کی نری تصویر نہیں بلکہ ان کی فنی تعبیر ہے۔ اس کے احساسات،جذبات، تخیلات و واردات شعور و ادراک، زندگی کے عوامی ردعمل سے زیادہ بالیدہ مرکب اور منفرد ہوتے ہیں۔‘‘
علیمؔ کی شاعری کے اسی بانکپن اور حقیقت نگاری کے عناصر سے ان کی مزاحمتی شاعری کے پہلو اجاگر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی غزلوں میں اضطرار اور بے قراری کا عنصر بھی ابھرتا ہے۔ ڈاکٹر وقار رضوی نے علیم کی شاعری کا تجزیہ کچھ یوں کیا ہے:’’ان کی غزلوں میں جدید عہد کی زندگی کا فشار و اضطرار اور احساس محرومی ہے انسان کی عصر ی تنہائی، ذات کا ادراک روایتی اقدار سے بغاوت محبت،بے اطمینانی،وقت کی ہلاکت آفرینیاں اور تباہ کاریاں حقائق و عقائد کی کشمکش یہ وہ موضوعات ہیں جو ان کی غزلوں میں ملتے ہیں۔ اس طرح کی غزل میں ماحول کی شعوری عکاسی ہے وہ جذبات جو بیسویں صدی میں رہنے والے انسان کے سینے میں ابھر سکتے ہیں وہ ان کاموضوع سخن ہیں۔‘‘
عبیداللہ علیمؔ کی شاعری میں رنج کی واردات کا ایک خاص انداز ہے جس میں مزاحمت مضمر ہے۔ کیونکہ معاشرتی مظالم،ناانصافیوں اور جبرو استبداد نے ان کے دل کو دکھایا تھااور ان کے ہاں داخلیت کی آگ اپنے زوروں پر لگی ہوئی ہے۔ وہ دکھ اور رنج کی گہرائی کو مزاحمتی انداز سے بیان کرنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر وقار رضوی مزید بیان کرتے ہیں:’’ہر غزل کا اپنا ایک لہجہ ہوتا ہے علیمؔ کی غزل کا بھی ایک لہجہ ہوتا ہے یہ لہجہ عبارت ہے جذبہ و خیال کی آمیزش سے۔ موجودہ دور میں شخصی انانیت بہت مجروح ہوئی ہے۔ علیمؔ کا دل بھی مجروح ہے۔ دنیا نے ان کے دل کو دکھایا ہے۔ اس دکھے ہوئےدل کی صدا ان کی غزلوں میں ہے اور لہجہ دردناک ہے جس میں لہو کی آگ،بے ساختگی تجربے کی واقعیت اور اظہار کی سچائی شامل ہے۔‘‘
غرضیکہ علیمؔ کی کثیرالجہات شاعری عمدہ مزاحمت بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ علیمؔ نے سماجی معاشرتی ناانصافیوں اور مظالم کے خلاف ایک مؤثر آواز اٹھائی اور روایات کی فرسودگی اور کھوکھلے نظام کی ظاہری چکاچوند کی اندرونی تاریکیوں اور عمومی بدحالی کے خلاف علم ِبغاوت بلند کیاجو ان کی سرشت کا خاصہ تھا اور عبیداللہ علیمؔ کے ادراک اور شعور کی لہریں دنیا کے پردے سےٹکرا کر سارے عالم کو اپنے ہونے کا احساس دلانے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔