کامیابی کے لئےانتظام اور اتحاد کی ضرورت
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۵؍جنوری ۱۹۱۸ء )
حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو اتحاد کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا اور اسے جماعت کی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا ہے نیز بد انتظامی کے بد نتائج کا تذکرہ فرمایا۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
حضورؓ نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے پڑھنے کے بعد فرمایا:
انسانی کوششیں اور محنتیں ایک حد تک بہت سے عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیںکیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے اس کی کوششوں کو ترقیات کا اعلیٰ ذریعہ بنایا ہے۔ مگر یہ ترقی اور کامیابی اس وقت بہت بڑھ جاتی ہے جبکہ کسی انتظام کےماتحت ہو۔
ایک کام اگر بد انتظامی سے ہو تو اس کے اور نتائج نکلتے ہیں، لیکن وہی کام اگر انتظام کے ماتحت ہو تو بہت عالی شان نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
پس جہاں انسانوں کے مدِّ نظر یہ بات ہوتی ہے کہ کسی کام کے لئے محنت اور کوشش کریں وہاں یہ بھی ہونا چاہیے کہ وہ کام ایک انتظام کے ماتحت ہو۔
مسلمانوں کو جس قد رنقصان پہنچے اور ان پر جتنی تباہیاں آئی ہیں۔ ان کے اگر اکثر حصّہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی وجہ دنیاوی سامانوں میں انتظام کی کمی ہی ہے،
لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ کام جس کا خدا تعالےٰنے شریعت کے ماتحت ایسا انتظام کیا تھا کہ جس کی نظیر اور کسی شریعت میں نہیں ملتی۔ اس کی تباہی اور بربادی بدانتظامی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ شریعتِ موسوی میں یا ہندوؤں، عیسائیوں، زرتشتیوں وغیر میں شریعت کے ماتحت خاص الہام سے کوئی انتظام اور سلسلہ قائم نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالےٰ نے ان میں بھی انتظام کئے تھے مگر ایسا انتظام کہ جو خاص حکم اور وعدہ کے ماتحت ہوا ہو وہ نہیں۔ مگر باوجود اس کے ان میں ایک انتظام رہا۔ اور اس سے انہوں نے بڑے بڑے فوائد حاصل کئے۔ اپنی کمزوریوں اور تباہیوں کے وقت بھی اس سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ مگر مسلمان جن کو قرآن میں حکم دیا گیا تھا کہ ایک انتظام کے ماتحت رہیں اور خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ اور سورہ نور میں وعدہ فرمایا تھا کہ اِسی انتظام کے ماتحت تمہیں ترقی اور کامیابی حاصل ہوگی۔ وہی سب سے زیادہ انتظام کے توڑنے والے ہوئے ہیں۔ جس کا جو کچھ نتیجہ ان کے حق میں نکلا وہ دنیا جانتی ہے۔ دشمنوں نے پراگندہ کرکے تباہ وبرباد مغلوب و مقہور کردیا۔ مگر پھربھی انہیں ہوش نہ آئی اور اپنی بربادی سے آگاہ نہ ہوئے یورپ میں ایک دفعہ مذہبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور سارا یورپ اس بات کے لئے تیار ہو گیا تھا کہ اسلام کو صفحہ دنیا سے مٹا دے۔ اس کے لئے یورپ کے بڑے پوپ نے ایک اعلان عام کیا کہ لڑنے کی طاقت رکھنے والوں کافرض ہے کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور جو لڑ نہیں سکتے ان کا فرض ہے کہ لڑنے والوں کی ہر طرح سے مدد کریں۔ اس پر بڑے بڑے نوابوں اور امیروں نے اپنی جائیدادیں فروخت کرکے مدد دی۔ خود لڑنے لگے۔ اور یہاں تک کہ چونکہ انجیل میں آتا ہے کہ بچّے خدا کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں۔ (14/19)کیونکہ وہ بے گناہ ہوتے ہیں اس لیے انہوں نے کئی ہزار نابالغ بچے لڑائی میں بھیج دیے کہ قربان ہوجائیں۔اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ اپنے ارادہ کو کتنی بڑی بڑی قربانیاں کرکے پورا کرنا چاہتے تھے اور اس پر کیسے قائم اور مستحکم تھے۔ انہیں کامیابی تو کیاہونی تھی مگر ان کا یہ فعل دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے ہر ایک وہ تدبیر جو کامیابی کے لئے ان کے خیال میں آسکتی تھی اس پر عمل کیا۔ اور تمام فرقے جو آپس میں سخت عداوت اور دشمنی رکھتے تھے اور لڑتے جھگڑتے رہتے تھی ایک ہو کر مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن اس وقت مسلمانوں میں جن کو حکم تھا کہ ایک انتظام کے ماتحت رہیں۔ وہ ایک ایسی قوم کے مقابلہ میں جس نے اپنا انتظام اپنے طور پر بنایا ہوا تھا اور جو مکّہ مدینہ اور بیت المقدس کو تباہ و برباد کرنے کے لئے حملہ آور ہورہی تھی۔ مسلمانوں میں ایک سے زیادہ مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے عیسائیوں کو خطوط لکھے کہ ہم تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر چاہو تو ہم اپنا لشکر لے کر آجائیں۔پھرانہوں نے خفیہ سامان اور مال بھیجے۔ مسلمانوں کے خلاف جہاں تک ہوسکتا تھا ریشہ دوانیاں کیں۔ (تاریخ اسلام۔مرتبہ شاہ معین الدین ندوی جلد چہارم حالات صلیبی جنگیں)اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس حملہ کو تو روک دیا جو انہوں نے ایسے مذہبی جوش کی وجہ سے کیا تھا۔ جس سے ان میں عدل و انصاف مِٹ چکا تھا رحم اورخدا ترسی سے خالی ہوچکے تھے۔ جب کوئی علاقہ فتح کرتےتو اس میں رہنے والی عورتوں اور بچوں تک کو جلا دیتے۔ اور ہر ایک قسم کے مظالم کرتے تھے۔ مگر باوجود اس کے کئی مسلمان اس بات کے لئے تیار تھے کہ ان کی مدد کریں۔ اور مسلمان مقابلہ کرنے والوں کو تباہ و برباد کرنے میں حصّہ لیں۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص نصرت اور تائید سے عیسائی حملہ آوروں کو اپنے ارادہ میں ناکام رکھا۔ مگر مسلمانوں کی طاقت جو دن بدن بڑھتی جا رہی تھی نہ صرف رک گئی بلکہ پاش پاش ہوگئی۔ عیسائیوں کو تو اس لئے ناکامی ہوئی کہ انہوں نے اسلام کو مٹانے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر مسلمان چونکہ اپنی شامتِ اعمال سے اس قابل نہ رہے تھے کہ آگے ترقی کرتے اس لئےخداتعالےٰ نے ان کو چھوڑ دیاکہ جائو تباہ و برباد ہو۔ یا تووہ آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے۔ یا گھٹتے گھٹتے تباہ ہوگئے۔اور اب کیسا الٹا زمانہ آیا کہ
ایک تو وہ وقت تھا کہ مسلمان دنیا جہان کے لوگوں کو سبق دیتے پھرتے تھے۔ انہیں علوم سکھاتے تھے۔ تہذیب پھیلاتے تھے،لیکن اب یہ حال ہے کہ ہر بات میں دوسروں کے محتاج ہیں۔
دوسروں کو علم سکھانا تو الگ رہا۔ خود ہی سب کچھ بھلا چکے ہیں ہر طرح کی ذلّت اور نکبت ان پر چھائی ہوئی ہے۔ عام لوگوں کو تو جانے دو۔ ان کی جو حکومتیں ہیں ان کی حالت دیکھو۔ ایران کی حکومت جس کا ایک زمانہ میں دنیا میں ڈنکا بج چکا ہے اس نے ایک دفعہ پندرہ لاکھ روپیہ ایک دوسری حکومت سے قرض مانگا۔ تو اسے کہا گیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ روپیہ ادا کردیا جائیگا۔ حالانکہ ہندوستان کے شہروں میں کئی ایسے سوداگر ہیں کہ اگر وہ کروڑ روپیہ بھی قرض لینا چاہیں تو آسانی سے لے سکتے ہیں، لیکن ایک حکومت کو پندرہ لاکھ روپیہ بھی قرض نہیں مل سکتا۔ یہ انجام ہے بد انتظامی کا۔
ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ نے اتحاد اور اتفاق قائم کیاہے اور پھر اس ترقی کی امید دلائی ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو حاصل ہوسکتی ہے۔
چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ ہماری جماعت کے ذریعہ اسلام دنیا میں پھیلائے، لیکن بجائے اس کے کہ حملہ آوروں کو تلوار سے روکا اور اپنے آگے جھکایا جائے۔اب منشاء الٰہی یہ ہے کہ دلائل اور براہین کے ساتھ مقابلہ کیا جائے اور اسی طرح اسلام ترقی کرے، مگر
باوجود اس کے کہ اِس زمانہ میں مقابلہ کا رنگ بدل گیا ہے اور تلوار کی بجائے براہین سے شوکتِ اسلام ظاہر ہوگی۔وہ بات اسی طرح قائم ہے کہ تمام کامیابیاں اسی وقت حاصل ہوسکیں گی جبکہ ہم ایک انتظا م کے ماتحت ہر ایک قربانی کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ ہر ایک قربانی خدا کے فضل سے کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ مگر خدا کا فضل جذب کرنے کے لئے بھی کچھ سامان ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا مہیّا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور وہ اتحاد و اتفاق اور ایک انتظام کے ماتحت کام کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بات بڑی حد تک ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے مگر ہم اسکو کافی نہیں کہہ سکتے۔ ابھی اس کی بہت ضرورت ہے۔
آپ لوگوں کو یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیے کہ جس جماعت میں اتفاق اور اتحاد نہیں ہوتا۔ اس کی تمام کوششیں خدا کے دین کی ترقی کے لیے صرف نہیں ہوتیں۔ وہ خدا کے انعام کی مستحق نہیں ہوسکتی۔
بیشک ترقی کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں، مگر وہ دنیاوی ہیں، لیکن خدا کی راہ میں ترقی وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ایسے اعمال کریں جو خدا کے فضل کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس دنیاوی سامان تو ہیں نہیں۔ اس لیے جب تک ہم خدا کا خاص فضل جذب کرنے والے اعمال نہ کریں اس وقت تک ترقی کس طرح کر سکتے ہیں۔ پس اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر جگہ کے لوگ آپس میں خاص طور پر اتحاد و اتفاق کرکے دکھلائیں۔ بعض اوقات بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہو جاتی ہے۔ نا اتفاقی اور تفرقہ کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ نمازیں الگ پڑھنی شروع کر دی جاتی ہیں۔ معاملات میں قطع تعلق کر لیا جاتا ہے حالانکہ تفرقہ اور نا اتفاقی کی اگر وجہ کو دیکھا جائے تو بہت معمولی اور ردی ہوتی ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ افراد کی لڑائیاں اور نا اتفاقیاں ہیں۔ حالانکہ افراد سے جماعت بنتی ہے اور جب افراد میں لڑائی ہوئی تو جماعت میں ہی ہوئی۔ تو مَیں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک مقام پر وہ اتفاق اور اتحاد بھی پیدا نہیں ہو اجو خدا کے خاص فضل حاصل کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں سے بہت زیادہ اتفاق اور اتحاد ہوتا ہے جن سے لوگ نکل کر ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ مگر اتنا کافی نہیں ہو سکتا۔ اس سے بہت زیادہ کی ضرورت ہے اور
ہمارے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے کہ دوسروں سے زیادہ ہم میں اتفاق ہے۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا جتنے اتفاق کی ہم کو ضرورت ہے وہ ہے یا نہیں۔
اگر اتنا نہیں تو پھر اس فائدہ کے حاصل ہونے کا موجب نہیں ہو سکتاجس کی ہمیں ضرورت ہے پس
ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ اس اتحاد کے پیدا کرنے کے لیے خاص قربانی کرنا سیکھیں اور نااتفاقی کے خیالات کو ترک کرنا اختیار کریں تاکہ خداکے فضل حاصل ہوں۔
اگر کسی وجہ سے جماعت کے اتحاد اور اتفاق میں فرق آنے کا خوف ہو تو چاہیے کہ اپنے ذاتی اغراض اور فوائد کو قربان کر دیا جائے کیونکہ جماعت کی تباہی لوگوں کی اپنی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ کیا ایساہو سکتا ہے کہ ایک شخص مکان کے اندر کھڑا ہو کر اپنے سر پر ہاتھ رکھ لے اور چھت کو اس لئے گرانا شروع کردے کہ مَیں توبچ جائوںگا اور دوسرےہلاک ہو جائیں گے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو وہ نادان اور بیوقوف ہوگا کیونکہ اگر چھت گری تو وہ خود بھی ہلاک ہوجائےگا۔ یہی حال جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنےکا ہوتا ہے کہ فساد پیدا کرنےوالا خود بھی ہلاک اورتباہ ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ جماعت کی تباہی ان کی اپنی تباہی ہوگی اور وہ اس بات کےلئے تیار ہوجائیں کہ اپنے ذاتی فوائد کو جماعت کے اغراض کے مقابلہ میں قربا ن کرنے میں ذرا پس و پیش نہ کریں خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ عدل و انصاف اور ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جماعت کے فوائد کے مقابلہ میں ذاتی فوائد کو قربان کر دیں۔
(الفضل ۸؍فروری ۱۹۱۸ء)