ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ اوّل)
لندن ڈائری، ایک تعارف
گذشتہ چند سالوں میں مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں سفر کرنے کی سعادت ملی ہے اور میں نے آپ کے حالیہ دوروں پر مبنی چند ڈائریاں بھی لکھی ہیں جن میں خاکسار کو خلافت احمدیہ کی ایسی برکات بیان کرنے کا موقع ملا جن کا خاکسار عینی شاہدہے۔ گذشتہ چند سالوں میں بعض لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی یوکےمیں مصروفیات یا کم از کم جلسہ سالانہ یوکے،کے ایام کے متعلق بھی ڈائری لکھوں۔ تاہم دو وجوہات کی بنا پر میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔
پہلی تو یہ کہ جلسہ سالانہ یوکے، کے موقع پر مرکزی پریس اور میڈیا ٹیم،جس میں مجھے خدمت کا موقع ملتا ہے،کے ذمہ یہ کام ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ میڈیا کے احباب کو جلسے پر لا کر جلسے کی کارروائی دکھائی جائے۔ اس کے لیے ایک مہم کی صورت میں جلسہ سے کئی ہفتہ قبل کام شروع ہو جاتا ہے جوجلسے کے دنوں میں اور اس کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اس لیے مجھے فکر تھی کہ اگر میں ڈائری لکھنے میں مصروف ہو گیا تو میں اپنے جلسہ کے فرائض پوری طرح ادا نہ کر سکوں گا جو حضور انور نےہمارے دفتر کے ذمہ تفویض فرمائے ہیں۔
دوسرا یہ کہ اگر حضور انور کی خواہش ہو کہ میں یو کے،کے حوالے سے ڈائری لکھوں تو آپ خود مجھے یہ ڈائری لکھنے کے حوالے سے ہدایت فرمائیں گے۔
حضور انور کے مئی میں Scandinavia کے دورے کے اختتام پر خاکسار نے اس دورہ کے بارے میں ایک ڈائری لکھی تھی جس کے پڑھنے کے بعد مکرم فہیم انور صاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ یو کےنے خاکسار سے رابطہ کیا اور کہنے لگے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ میں عنقریب منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ یو کےکے بارے میں بھی ڈائری لکھوںگا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ اسی روز جب خاکسار کی حضور انور کے ساتھ ملاقات ہوئی تو آپ نے استفسار فرمایا کہ مجھے دورے کے متعلق ڈائریوں پر کیا تاثرات ملے ہیں؟ جس پر خاکسار نے مکرم فہیم صاحب کی رائے بھی عرض کر دی۔
حضور انور نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرماتے ہوئے نظر اٹھائی اور فرمایاکہ اس سال تم جلسہ سے ایک ہفتہ قبل اور ایک ہفتہ بعد تک میرے ساتھ رہو۔یوں تم جلسہ سالانہ یوکے، کے بارے میں بھی ڈائری لکھ سکتے ہو۔ بعدازاں مسکراتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ تم لکھ سکتے ہو کہ تم یہ لندن ڈائری زیادہ بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے لکھ رہے ہو۔
خاکسار اس ہدایت کے ملنے پر بے حد خوش تھا کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ مزید وقت گزارنے کی سعادت کو محض خدا تعالیٰ کا فضل اور سعادت عظمیٰ ہی گردانا جا سکتا ہے۔
Twitter پر بات چیت
اپنی روزمرہ مصروفیت کے ساتھ ساتھ حضور انور نے اس ہفتے کا زیادہ تر وقت جلسہ سالانہ کی تیاری میں صَرف فرمایا۔ یقینی طور پر ہر جلسہ میں جہاں حضور انور بنفسِ نفیس شمولیت اختیار فرماتے ہیں آپ بے حد مصروف ہوتے ہیں لیکن جلسہ سالانہ یوکے پر آپ کی مصروفیات اور ذمہ داریاں خاص طور پر بہت بڑھ جاتی ہیں۔
ان دنوں میں خاکسار نے Twitter پر ایک گفتگو دیکھی جس میں یہ معاملہ (جلسہ سالانہ) زیر بحث تھا۔ ایک احمدی خاتون نے لکھا تھا کہ وہ یوکے جلسہ کی منتظر ہیں کیونکہ حضور انور ان شاءاللہ چار خطابات سے نوازیں گے۔ ان کے پیغام کے جواب میں کسی نے تبصرہ کیا کہ دراصل یہ پانچ خطابات ہیں کیونکہ خطبہ جمعہ بھی اسی کا حصہ ہے۔ بعد ازاں ایک دوسرے دوست نے لکھا کہ ان کے نزدیک حضور انور جلسہ سالانہ یوکے، کے موقع پر سات تقاریر فرماتے ہیں کیونکہ آپ کے خطبات جمعہ جو جلسہ سے قبل اور معاً بعد ہوتے ہیں ان میں بھی بالعموم جلسہ سالانہ کا ہی ذکر ہوتا ہے۔
ایک دوست نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ وہ عالمی بیعت کو بھی ایک خطاب ہی سمجھتے ہیں یوں ان کے نزدیک حضور انور جلسہ پر آٹھ خطابات سے نوازتے ہیں۔ اسی دن بعد میں خاکسار نے حضور انور سے Twitter پر ہونے والی اس گفتگو کے بارے میں عرض کیا جسے سماعت فرمانے پر حضور انور خوب مسکرائے۔ بہرحال اگلے دنوں میں مجھے احساس ہوا کہ حضور انور کے خطابات تو ان بے انتہا مصروفیات میں سے ایک نمایاں پہلو ہیں جن سے بہت سے لوگ بے خبر ہوتے ہیں۔
ایک لمبی سیر
اس صبح میری ملاقات ایک نوجوان خادم سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی اہلیہ امید سے ہیں اور اس بات کا اظہار کیا کہ ہر روز وہ اس فکر اور پریشانی میں گزارتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک رہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرے تجربے کے مطابق یہ پریشانی کیا پورے نو ماہ تک رہے گی یا وقت کے ساتھ ساتھ کچھ کم ہو جائے گی؟ میں نے اسے بتایا کہ جب دونوں مرتبہ میری اہلیہ مالا امید سے تھیں تو ہم بھی فکرمند تھے اور حضور انور نے فرمایا تھا کہ حمل کے نو ماہ مستقل دعا اور صدقہ کا وقت ہوتا ہے۔ میں نے اس کو ۲۰۱۳ء کی بات بھی بتائی جب (میری اہلیہ) مالا ہمارے پہلے بیٹے ماہد کی مرتبہ حمل سے تھیں۔ ۲۷؍ اپریل کو پیدائش متوقع تھی اور حضور انور امریکہ اور کینیڈا کے دورہ کے لیے ۴؍ مئی کو روانہ ہونے والے تھے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت خاکسار کو بھی قافلہ میں شامل فرمایا۔ اس لیے میں اس بچہ کے بروقت آنے کا بیتابی سے انتظار کر رہا تھا۔ تاہم وہ اپنی ہی رفتار سے آیا اور مالا کو چند مزید دن پورے کرنے پڑے اور دوسری طرف حضور انور کا دورہ قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ دورے کا وقت آن پہنچا۔
جب مقررہ وقت سے کچھ دن زائد گزر گئے تو حضور انور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ مالا کو سیر کے لیے لے جاؤکیونکہ ایسا کرنا پیدائش کے مراحل کو آسان کرنے میں ممد ثابت ہوتاہے۔ یوں اگلے روز ہم گھر سے نکلے اور تین گھنٹے سے زائد سیر کی۔ اس شام جب میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو جو پہلی بات میں نے حضور انور سے نہایت اعتماد اور فخر سے عرض کی وہ یہ تھی کہ حضور! آج میں نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا ہے اور مالا کو لے کر تین گھنٹے کی سیر کی ہے۔
یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے میری طرف حیرانگی اور پریشانی سے دیکھا، جس کا احساس آج بھی مجھے محسوس ہوتا ہے۔ حضور انور نے فرمایاکہ اللہ رحم کرے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تم اس کو(یعنی اپنی اہلیہ کو) دس منٹ کی سیر پر لے جاؤ اور پھر کچھ توقف کرو اور پھر کچھ وقت کے بعد دس منٹ کی سیر کرو۔
مجھے یاد ہے کہ میرا ابتدائی فخر اور اعتماد فوراً ہی شرمندگی اور خوف سے بدل گیا۔ حتیٰ کہ اب کئی سالوں کے بعد بھی بسااوقات مالا مجھے یاد کرواتی ہیں کہ میں ان کو لے کر تین گھنٹے کی سیر پر گیا تھا جب ماہد کی پیدائش متوقع تھی۔
چنانچہ ایسا ہوا کہ ماہد جمعہ کے روز ۳؍مئی ۲۰۱۳ء کو پیدا ہوا اور حضور انور کی روانگی اگلے روز صبح کے وقت تھی۔ جب میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو حضور انور نے فرمایا کہ اب تمہیں کچھ دن لندن میں قیام کرنا چاہیے جب تک مالا اور نومولود بچہ کچھ سنبھل جائیں تو پھر امریکہ آ کر میرے ساتھ شامل ہو جانا۔
یہ حضور انور کی محبت اور شفقت کی ایک مثال تھی جو فیملی ممبران اور ان کے حقوق کے حوالے سے تھی۔ اگرچہ جب ماہد کی پیدائش ہوئی تو میں (سفر کے لیے) تیار تھا اور اگلے دن حضور انور کے ساتھ امریکہ جانے کے لیے پُرامید تھا تاہم آپ نے فیصلہ فرمایا کہ مجھے آپ کے ساتھ شامل ہونے سے قبل کچھ دن اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے چاہئیں۔
جب میں نے اس خادم کو یہ تین گھنٹے کی سیر کا واقعہ سنایا تو وہ اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکا۔ اس کو یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ حمل کے دوران پریشانی اور اعصابی کھنچاؤ آخری منٹ تک ہی رہتا ہے۔
جملہ تفاصیل پر حضور انور کی توجہ
جس دوران میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بیٹھا تھا، میں نے دیکھا کہ مکرم محمد غالب جاوید صاحب مربی سلسلہ ہیں جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں خدمت بجا لا رہے ہیں، چند کاغذات کی فوٹو کاپی کر ر ہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ جن کاغذات کی وہ فوٹو کاپی کر رہے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف نظمیں تھیں۔ چند اشعار کے سامنے ٹِک کا نشان تھا اور ان کی تحریر کے انداز سے میں بتا سکتا تھا کہ حضور انور نے ان پر ٹِک کا نشان لگایا تھا۔
مکرم غالب صاحب نے مجھے بتایا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھی جانے والی ہر آیت ِقرآنی اور نظم کا ہر شعر حضور انور ذاتی طور پر منتخب فرماتے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی کہ حضورانور بذات خود فیصلہ فرماتے ہیں کہ ہر سیشن میں تلاوت کون کرے گا۔ نیز آپ ہی تقاریر کے عناوین اور مقررین کی منظوری مرحمت فرماتے ہیں۔ عام طور پر افسر جلسہ گاہ مختلف احباب کی تلاوتِ قرآن اور نظموں کی سی ڈیز بھجواتے ہیں جن کو حضور انور خود سماعت فرماتے ہیں اور پھر فیصلہ فرماتے ہیں۔ یہ سننے پر مجھے خیال آیا کہ کس طرح حضور انور جلسے کے ہر پہلو پر گہری نظررکھتے ہیں۔
(مترجم:’’ابو سلطان‘‘ معاونت :مظفرہ ثروت)