بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۶۰)
سوال:ایک سیرین دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ حجامت(پچھنے لگانے) کے بارے میں جماعتی موقف کیا ہے۔لوگ اسے سنت رسولؐ سمجھتے ہیں۔ اگر جماعت اسے درست سمجھتی ہے تو اس کےبارے میں کیا تفاصیل ہیں ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍جولائی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔حضور نے فرمایا:
جواب:حجامت یعنی پچھنے لگوانا پرانے زمانہ میں ایک طریق علاج تھا۔ اور چونکہ آنحضورﷺ کے زمانہ میں بھی یہ طریق علاج رائج تھا اس لیے حضور ﷺ نے اور صحابہ نے بوقت ضرورت اس سے استفادہ کیا۔ لیکن یہ کوئی ایسا شرعی مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ چونکہ حضور ﷺ نے اسے اپنایا ہےاس لیے اب ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ زمانہ کے جدید علاج کے طریقوں کو چھوڑ کر لازمی طور پر حجامت کے طریق کو اختیار کرے۔
ہاں اگر کوئی شخص اس زمانہ میں بھی کسی تکلیف کے علاج کے طورپر اس سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی اس نیت سے کہ چونکہ حضورﷺ نے اس طریق علاج کو اپنایا تھا، اس لیے میں بھی کسی بیماری کے علاج کے طور پر حضور ﷺ کی سنت کو پورا کرنے کے لیے اس طریق علاج کو اپناؤں تو حضور ﷺ کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کے تحت ایسے عمل کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔
باقی جہاں تک پچھنے لگوانے کی تفصیل کا تعلق ہے تو احادیث کی مستند کتب میں ایسی روایات بیان ہوئی ہیں کہ حضورﷺ نے بیماری اور تکلیف کے علاج کے طور پرسفر و حضر میں،احرام کی حالت میں، روزہ کی حالت میں جہاں ضرورت پڑی پچھنے لگوائے۔پچھنے لگوانے کے اس عمل کو حضور ﷺ نے اپنے سر پر کروایا۔ نیز پچھنے لگانے والے کو اُس کے اِس کام کی اجرت بھی حضور ﷺ نے ادا فرمائی۔(صحیح بخاری کتاب الطب، کتاب الحج، کتاب الصوم)
سوال:ہالینڈ سے ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ صحیح احادیث کے مطابق ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے جانے والے اعمال اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں۔ ذوالحجہ کے یہ پہلے دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے کیا تعلق رکھتے ہیں؟اور ان دنوں میں عبادت میں اضافہ کا حکم صرف ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں حج کی سعادت ملی ہویا اس حکم کا اطلاق تمام مسلمانوں پر ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۰۷؍جولائی ۲۰۲۲ء میں اس مسئلہ کےبارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب:قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ میں ذوالحجہ اور رمضان المبارک کے ان دنوں کی فضیلت کا کوئی باہمی تقابلی جائزہ تو بیان نہیں ہوا۔ البتہ دونوں مہینوں اور ان میں ہونے والی عبادات کے کثرت سے فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں۔چنانچہ قرآن کریم میں ماہ رمضان کے مومنوں کے لیے فرض ہونے، ا س مہینہ میں قرآن کریم کے نازل ہونے، اس ماہ کے روزے رکھنے، اس میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے جیسے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ (سورۃ البقرہ:۱۸۴تا۱۸۷)نیز اس مہینہ میں ایک ایسی رات کے آنے کی بھی بشارت دی گئی ہے جس میں خداتعالیٰ کے فرشتوں اور روح القدس کا نزول ہوتا ہے اور یہ رات ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اور اس رات کے ختم ہونے تک سلامتی کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ (سورۃ القدر:۴تا۶)
پھر احادیث میں بھی رمضان المبارک کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کاہے، دوسرا مغفرت کااور تیسرا جہنم سے آزادی کا قرار دیا گیا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی، فضائل شہر رمضان، أظلكم شهر عظيم۔ حدیث نمبر۳۴۵۵) اور اسی آخری عشرہ میں آنحضورﷺ کے باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف کرنے کی سنت نیز آپؐ کے عبادات میں غیر معمولی مجاہدہ کرنے کے بارے میں کثرت سے احادیث مروی ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف بَاب الِاعْتِكَافِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ)(صحیح مسلم کتاب الاعتکاف بَاب الِاجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)
آنحضور ﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے بھی ماہ رمضان کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔(البقرہ:۱۸۶)یہی ایک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لیے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم (روزہ) تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے اور تجلی قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے۔ پس اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ میں یہی اشارہ ہے۔(البدر نمبر۷، جلد ۱، مورخہ ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۵۲)
اس کے ساتھ ساتھ ذوالحجہ کے فضائل کا بھی احادیث میں کثرت سے ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے ذوالحجہ میں کیے گئے اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ محبوب قرار دیا۔ سوائے اس مجاہد کے اعمال کے جو اپنا مال اور جان لے کر نکلے اور پھر اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ)۔ نیز فرمایا اس (ذی الحجہ کے عشرہ)کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ اور اس میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ)۔اسی طرح یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کے نتیجہ میں گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ (سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اسلام نے…محبت کی حالت کے اظہار کے لیے حج رکھا ہے… حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے، کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا…غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے، سر منڈایا جاتا ہے، دوڑتے ہیں، محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے، پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے۔(الحکم نمبر۲۶، جلد ۶، مورخہ۲۴؍جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ۳)
پھر یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ ذوالحجہ اور رمضان کے مہینوں کے یہ فضائل عمومی رنگ میں بھی بیان ہوئے ہیں اوربعض اوقات حضور ﷺ نے کسی سوال پوچھنے والے کے حالات کے پیش نظر اور بعض اوقات موقع محل کے لحاظ سے بھی انہیں بیان فرمایا ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح حضور ﷺ نے کسی شخص کے سوال پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کو بہترین عمل قرار دیا۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب فَضْلِ الْحَجِّ الْمَبْرُورِ)، ایک اور جگہ فرمایا مستقل کی جانے والی نیکی خواہ تھوڑی ہو بہترین عمل ہے۔(صحیح بخاری کتاب الرقاق بَاب الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ)،ایک اور شخص کے لیے نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو بہترین عمل قرار دیا۔(صحیح بخاری کتاب التوحید بَاب وَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ عَمَلًا)،کسی کے لیے نماز میں لمبے قیام کو بہترین عمل قرار دیا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ بَاب افْتِتَاحِ صَلَاةِ اللَّيْلِ بِرَكْعَتَيْنِ)، کسی کے لیے ایسے ایمان کو جس میں کسی قسم کا شک نہ ہو اور ایسے جہاد کو جس میں کسی قسم کی خیانت نہ ہو اور ایسے حج کو جو نیکیوں سے بھرپور ہو بہترین عمل قرار دیا۔ (سنن نسائی کتاب الزکوٰۃ باب جُهْدُ الْمُقِلِّ) اور کسی کے لیے الْعَجُّ وَالثَّجُّ یعنی ایسی نیکی جس میں کثرت سے تلبیہ ہو اور قربانی ہو بہترین عمل قرار دیا۔(سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَاب رَفْعِ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ)پس قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات میں ذوالحجہ اور رمضان کے مہینوں کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں، ان کے اعتبار سے ان کی الگ الگ اہمیت اور ان کا الگ الگ مقام و مرتبہ ہے۔ بعض اعتبار سے رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادتیں اور اس میں نازل ہونے والے احکام الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے افضال و برکات بظاہر زیادہ فضیلت رکھتے ہیں اور بعض لحاظ سے ذوالحجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کیے جانے والے مجاہدات اور ان کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات زیادہ افضل قرار پاتے ہیں۔ اسی لیے ایک موقعہ پر حضور ﷺ نے فرمایا:سَيِّدُ الشُّهُوْرِ شَهْرُ رَمَضَانَ وَأَعْظَمُهَا حُرْمَةً ذُو الْحِجَّةِ۔(شعب الایمان للبیھقی، تخصيص أيام العشر من ذي الحجة،باب سيد الشهور شهر رمضان وأعظمها حرمة ذو الحجة۔ حدیث نمبر ۳۵۹۷)یعنی تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور ان میں سے حرمت کے اعتبار سے سب سے عظیم ذوالحجہ کا مہینہ ہے۔
باقی جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ حج کی توفیق عطا فرمائے انہیں حج کے مناسک کے اعتبار سے مقامات مقدسہ میں تمام فرضی اور طوعی عبادات بجالانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور جو لوگ حج پر نہ جاسکیں، انہیں بھی حسب استطاعت ذوالحجہ سے تعلق رکھنے والی عبادات کو اسی طرح بجالانے کی کوشش کرنی چاہیے جس طرح آنحضور ﷺ اس مہینہ کی عبادات کو حج پر تشریف نہ لے جانے کی صورت میں بجالاتے تھے۔
سوال:کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا مخصوص ایام میں قرآنی دعائیں زبانی دل میں پڑھنی جائز ہیں؟نیزاگر دوران حج ایسے ایام شروع ہو جائیں تو کیا طواف سے رخصت ہو جاتی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍ جولائی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:عورت اپنے مخصوص ایام میں قرآنی دعاؤں کو زبانی دل میں دہرا سکتی ہیں، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ میں نے پہلے بھی کئی مواقع پر اس بارے میں بڑی وضاحت سے جواب دیےہوئے ہیں کہ عورت کوقرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو، وہ اسےایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہرا سکتی ہے۔ نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کے لیے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لیے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی۔اسی طرح ان ایام میں عورت کوکمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا باقاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کے لیے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کے لیے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورہ مریم کی تفسیر میں اس مسئلہ کے بارے میں فرماتے ہیں:اس (یعنی آیت فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا…الآیۃ )(مریم:۲۷) سےیہ بھی پتا لگ گیا کہ نفاس اور حیض کی حالت میں ذکر الٰہی منع نہیں۔لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل میں بھی ذکر الٰہی نہیں کیا جاسکتا۔حالا نکہ اگر ذکر الٰہی منع ہو جائے تو روحانیت بالکل مر جائے۔بلکہ بعض لوگ تو منہ سے بھی ذکر الٰہی کر نا جائز سمجھتے ہیں۔(تفسیر کبیرجلد پنجم۔تفسیر سورہ مریم صفحہ ۱۸۷)اسی طرح قیام ربوہ کے بعد۵؍اپریل ۱۹۴۹ء کو سر زمین ربوہ پر منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے افتتاحی خطاب کے دوران بعض قرآنی دعاؤں کو بلند آواز میں پڑھا اور شاملین جلسہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ بھی حضور کی اقتدا میں ان دعاؤں کو ساتھ ساتھ دہراتے جائیں۔ شاملین جلسہ میں چونکہ مستورات بھی موجود تھیں، اس لیے حضور نے ایسی عورتوں کو جو اپنے مخصوص ایام میں تھیں، انہیں ان قرآنی دعاؤں کے پڑھنے کے بارے میں درج ذیل ہدایت فرمائی:عورتوں میں سے جو عورتیں ایسی ہیں کہ ان پر ان ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔ اور جن عورتوں کے لئے ان ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی ان آیتوں کو دہرائیں۔ بہرحال جن عورتوں کے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں ان آیتوں کو دہراتی رہیں۔ کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوت قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ دل میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں۔ یا دل میں بھی نہ دہرائیں بلکہ صرف اتنا حکم ہے کہ زبان سے نہ دہرائیں۔ بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اسی پر عمل کیا جائے۔ پس بجائے زبان سے دہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔(روزنامہ الفضل ربوہ نمبر ۲۹۸، جلد ۱۴/۴۹، مورخہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۵)
باقی جہاں تک دوران حج عورتوں کے ایام خاص شروع ہوجانے کی بات ہے تو ایسی صورت میں وہ طواف تو نہیں کر سکتی لیکن منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں ہونے والے دیگر مناسک حج میں وہ شامل ہو گی اور حیض کے ختم ہونے پر طواف کر کے اپنے حج کو مکمل کر سکتی ہے۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلے اور جب ہم سرف مقام پر پہنچے تو میرے خاص ایام شروع ہو گئے۔ حضور ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپﷺ نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ کاش میں اس سال حج کے لیے نہ آئی ہوتی۔ حضور ﷺ نے فرمایا شاید تمہارے خاص ایام شروع ہو گئے ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا یہ تو ایک ایسی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔ اس لیے جو کام حاجی کرتا ہے وہ تم کرو، سوائے بیت اللہ کے طواف کے، وہ نہ کرنا تا وقتیکہ تمہارے یہ ایام ختم ہو جائیں۔ (صحیح بخاری کتاب الحیض بَاب تَقْضِي الْحَائِضُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ)
سوال:انڈیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ تمام احادیث میں معیار زکوٰۃ چاندی کو مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی ہو وہ زکوٰۃ ادا کرے۔ آجکل ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت ۳۴۰۰۰ روپے کے قریب ہے اور ایک تولہ سونے کی قیمت ۵۸۰۰۰ روپے کے قریب ہے۔ اس لحاظ سے جس کے پاس ایک تولہ سونا ہو وہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لائق ہے۔ لیکن مرکز سے جو سرکلر آیا ہے اس میں جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہے اسے زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے تا کہ افراد جماعت زکوٰۃ ادا کرنے سے محروم نہ رہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍جولائی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب:اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے وہاں چاندی اور سونے کو الگ الگ بیان کر کے اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا۔ جیساکہ فرمایا وَالَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّھَبَ وَالۡفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡھُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ۔(سورۃ التوبہ:۳۴)یعنی جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اُنہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیدے۔
اسی طرح احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضورﷺکے عہد مبارک سے ہی چاندی اور سونے کا الگ الگ نصاب اور شرح مقرر تھی اور اسی کے مطابق حضورﷺزکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺنے فرمایا کہ جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان پر پانچ درہم زکوٰۃ ہے اور سونے پر اس وقت تک زکوٰۃ نہیں جب تک کہ تمہارے پاس بیس دینار سونا جمع نہ ہو۔ پس جب تمہارے پاس بیس دینار سونا جمع ہو جائے اور اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے تو اس پر نصف دینا ر زکوٰۃ عائد ہو گی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الزکوٰۃ باب فی زکوٰۃ السائمۃ)اسی طرح حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ ہر بیس اور اس سے زائد دینار پر نصف دینار اور ہر چالیس دینار پر ایک دینار زکوٰۃ لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزکوٰۃ باب زکوٰۃ الورق والذھب)
پس آپ کی یہ بات درست نہیں کہ تمام احادیث میں معیار زکوٰۃ چاندی کو مقرر کیا گیاہے۔ بلکہ سونے اور چاندی کا الگ الگ نصاب اور الگ الگ شرح مقرر ہے اور اسی کے مطابق جماعت احمدیہ میں زکوٰۃ کا نظام رائج ہے، جو بالکل ٹھیک اور آنحضورﷺکی سنت کے عین مطابق ہے۔ اس لیے جس کے پاس چاندی ہو اس سے چاندی کے نصاب اور شرح کے مطابق زکوٰۃ لی جاتی ہے اور جس کے پاس سونا ہو اس سے سونے کے نصاب اور شرح کے مطابق زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے۔
آپ کی رائے کے مطابق اگر سونے کی زکوٰۃ کے لیے بھی چاندی کو ہی معیاررکھ لیا جائے تو غریبوں اور کم تنخواہ پانے والوں، یہاں تک کہ سرکاری دفاتر سے معمولی سی تنخواہ لینے والے ملازمین پر بھی زکوٰۃ واجب ہو جائے گی جو زکوٰۃ کی روح کے خلاف ہے کیونکہ زکوٰۃ کا بنیادی فلسفہ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ۔ (صحیح بخاری کتاب الزکاۃ بَاب وُجُوبِ الزَّكَاةِ)ہے۔یعنی امیر لوگوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اور غریبوں میں تقسیم کی جائے۔
باقی جہاں تک نقد روپے پر زکوٰۃ واجب ہونے کی بات ہے تو اس وقت چونکہ دنیا کی اکثریت سونے کو ہی معیار زر اپنائے ہوئے ہے اس لیے نقد روپے کی زکوٰۃ میں بھی سونے کو ہی معیار سمجھا جائے گا۔ ہاں اگر آئندہ زمانہ میں کبھی دنیا میں معیار زر میں تبدیلی ہوتی ہے اور سونے کو چھوڑ کر کسی اور چیز کو دنیا معیار زر ٹھہراتی ہے تو نقد روپے کی زکوٰۃ کے لیے اس وقت اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔