احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
شاہی کیمپ اورڈپٹی شنکرداس کامکان
مسجداقصیٰ کوجانے کے لیے اب ہم جب حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کے مکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے بائیں ہاتھ مسجداقصیٰ کی دوسری تیسری منزل پرجانے کے لیے لفٹ لگی ہوئی نظرآتی ہے۔اس کے ساتھ ہی بڑے بڑے شیشوں والے دروازے اور شیشوں کی ہی دیواروں والی مسجداقصیٰ کی نئی توسیع کا گراؤنڈفلورنظرآتاہے۔اوراسی کے اوپردومنزلہ عمارت اسی مسجدکی توسیع کاایک خوبصورت حصہ بناہوانظرآتاہے۔ اس کی درمیانی منزل میں خاص طورپرپہلی صف میں کھڑے ہو کر نمازپڑھیں تو مسجدکی اور قادیان کی تھوڑی سی تاریخ جاننے والے پرایک عجیب روحانی جذب کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔بڑے بڑے شیشوں کی غربی دیوارسے مسجداقصیٰ کاصحن،منارۃ المسیح،حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کامزار اور مسجداقصیٰ کاقدیمی حصہ یہ سب نظارے مسجدکے اس نئے توسیع شدہ حصہ میں کھڑے ہونے والے پرایک وجدطاری کردیتے ہیں۔کیونکہ ابھی چندسال قبل تک عین اس جگہ ایک تین منزلہ اونچی پرانی حویلی ہواکرتی تھی۔جوڈپٹی شنکرداس کی حویلی کہلاتی تھی۔ وہی ڈپٹی شنکرداس کہ جس نے اپنے عہدے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پربڑی دھونس کے ساتھ عین حضرت اقدسؑ کے گھروں کے سامنے ناجائزقابض بنتے ہوئے مسجداقصیٰ کی طرف جانے والی اس گلی اورراستہ کے سامنے اس جگہ پرتعمیرشروع کی اورتین منزلہ بلندوبالاحویلی نما مکان کھڑا کر لیا۔ اور پھرمسجدکی طر ف جانے والے معصوم و مظلوم احمدیوں نے یہ تکلیف دہ نظارے بھی دیکھے کہ جب وہ نمازکے لیے مسجدکوجاتے تویہ ڈپٹی اپنے گھرکے دروازے کے سامنے بیٹھ کران آنے جانے والوں کوگالیاں دیتا۔طرح طرح سے دکھ اور ایذادہی کے طریق اختیارکرتا۔ اس کے دکھوں کے ستائے ہوئے اوراس کی گندی اور زخمی کردینے والی زبان کے تیروں سے چھلنی دلوں کے ساتھ جب اپنے آقا کے حضورشکایت لے کرپہنچتے تو وہ بڑے عزم اور جلال کے ساتھ ان کوحوصلہ دیتے ہوئے فرماتے کہ صبرکریں شاہی کیمپ کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکتااورپھردیکھنے والوں نے دیکھا اور سننے والوں نے سنااور پڑھنے والوں نے پڑھا کہ اس کاہنستابستا گھراجڑنے لگا۔اس کی جوان بیٹی طاعون کاشکار ہوکرلقمۂ اجل بنی اور ساراگھرخالی ہونے کے بعد خود وہ نیم دیوانہ ساہوکرچاروناچاراس گھرکوچھوڑکرنہ جانے کہاں چلاگیااورآج اسی گھرکی جگہ دن میں پانچ وقت یہ صدابلندہوتی ہے کہ اللہ اکبراللہ اکبر، اللہ سب سے بڑاہے۔اللہ سب سے بڑاہے۔اوروہ شخص جوکل بڑی رعونت سے اپنے گھر کے سامنے سے مسجدکی طرف جانے والے کسی نمازی کوگزرنے بھی نہیں دیتاتھا آج خداکی تقدیرنے اس کے نام ونشان کومٹاتے ہوئے سارے گھرکومسجدبنادیا کہ اب جوبھی چاہے دن اور رات میں جب چاہے اس جگہ آتاہے اوراللہ اکبر! اللہ ہی سب سے بڑاہے !! کہہ کرخداکے حضورکھڑاہوجاتاہے اور جب یہ سارے مناظرایک ایک کرکے دل کی آنکھوں کے سامنے گزرتے ہیں تو کبھی بے اختیارہوکر ایک دم سجدے میں گرجانے کودل چاہتا ہے۔شکرکاسجدہ،اس کی قدرتوں اور عظمتوں کوسلام کاسجدہ! اس اقراروتسلیم کاسجدہ کہ؛
تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا
اس اقرار و اظہار کا سجدہ کہ اے بارِ خدایاتو مَالِكَ الْمُلْكِہے تُوبادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ تُوجس کوچاہے جاہ وحشمت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے سب کچھ ہی چھین لیتاہے۔ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ عزت وذلت یہ تیرے حکم پرموقوف ہے !اورتوایساقادرہے کہ جب چاہے نیست سے ہست کردے اور ہست کونیست ونابودکردے۔
ڈپٹی شنکرداس ریاست جموں میں سرکاری عہدے پرفائز رہاتھا۔قادیان میں اس نے مسجداقصیٰ کی شرقی جانب ایک افتادہ زمین پرقبضہ کیا اور مکان بنالیا۔
قیاس ہے کہ یہ ۱۸۸۵ء کے لگ بھگ کی بات ہوگی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی راستبازی اور سچی گواہی کونہ چھپانے کے خُلق کے ضمن میں ایک واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے وہ بھی اسی مکان کے سلسلہ میں تھا۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :’’ کِتْمَانِ شَہَادَتِ حَقَّہ کوآپ معصیت یقین کرتے تھے۔آپ کی راستبازی اورصداقت شعاری پرمخالفین کوبھی پورابھروسہ تھااور اکثرایساہواہے کہ آپ کوایسے مقدمات میں شہادت کے لیے جاناپڑا جہاں کسی نہ کسی رنگ میں اس شہادت کااثرآپ پرپڑتاتھاخواہ مالی حیثیت سے یاکسی اورحیثیت سے۔مثلاً ایک مرتبہ مرزاسلطان احمدصاحب نے ایک افتادہ اراضی کے متعلق دعویٰ کیاجوحضرت صاحب کی تھی اورپنڈت شنکرداس نے مکان بنالیاتھامرزاسلطان احمدصاحب نے دعویٰ کیا۔ اور مسماری مکان کادعویٰ تھامگرترتیب مقدمہ میں ایک امرخلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت میں وہ مقدمہ ڈسمس ہوتا اور نہ صرف مرزاسلطان احمدصاحب کوبلکہ خود حضرت کوبھی نقصان پہنچتاکیونکہ حقوق مالکانہ اس زمین کے جاتے تھے۔فریق مخالف نے اس سے فائدہ اٹھاکرحضرت کوشہادت میں طلب کرادیا۔مرزاسلطان احمدصاحب کے وکیل نے جب آپ سے دریافت کیا کہ آپ کیابیان کریں گے توآپ نے فرمایاکہ وہ اظہار کروں گا جوواقعی امراور سچ ہے۔ تب اس نے [وکیل نے] کہاکہ پھرآپ کے کچہری جانے کی کیاضرورت ہے میں جاتاہوں تامقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں۔‘‘(حیات احمدؑ جلددوم حصہ اول صفحہ۱۰۲-۱۰۳)
ایک اور جگہ حضرت عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :’’ جہاں تک میری تحقیقات ہے آپ کوتین مرتبہ شہادت کے لئے طلب کیا گیا سب سے پہلے حضرت مرزاسلطان احمدصاحب نے جومقدمہ ڈپٹی شنکرداس وغیرہ پر اس اراضی کے متعلق کیاہواتھاجہاں صدرانجمن احمدیہ کے دفاترہیں توفریق مخالف نے محض قبضہ کی تنقیح کے سلسلہ میں آپ کوطلب کیا۔قبضہ انہیں کاتھا۔(قانونی قبضہ یا مخالفانہ قبضہ) زمین ان کی مملوکہ نہ تھی۔وہ قانون کے اس نکتہ سے فائدہ اٹھاناچاہتے تھے باوجوددشمن ہونے کے انہیں یقین تھا کہ آپ سچی شہادت دیں گے۔حضرت مرزاسلطان احمدصاحب کوجب معلوم ہواتو انہوں نے مقدمہ واپس لے لیااورزمین فریق ثانی کومل گئی۔اس پرعمارت تعمیرہوگئی۔‘‘ (حیاتِ احمدجلدسوم صفحہ۹۱)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے انتہائی مشکل وقت میں بھی راستبازی کے خلق پرقائم رہنے کی دلیل کے طورپراپنے ایک خط میں ذکرفرمایاہے۔ یہ خط آپؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں بھی شائع فرمایا۔چنانچہ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کومخاطب کرتے ہوئے اس میں لکھتے ہیں ’’میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا۔ تب فریق مخالف نے موقعہ پاکر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا۔ اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے۔ میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغاءً لمرضات اللّٰہ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا… واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کر چکا ہوں جو اب شاید لدھیانہ میں بدل گیا ہے۔ غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گذرا ہوگا ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۹۹۔۳۰۰،روحانی خزائن جلد۵صفحہ۲۹۹-۳۰۰)
ان مذکورہ بالاواقعات سے یہ واضح ہوتاہے کہ ڈپٹی شنکرداس نے مخالفانہ قبضہ اس جگہ پرکیاہواتھا۔اوریہ بھی قیاس ہے کہ یہ واقعہ ۱۸۸۳ء کے بعدکاہوگا اوراس کاقرینہ یہ ہے کہ مرزاغلام قادرصاحب کی زندگی میں ان کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے کسی کوجرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ ایساقدم اٹھاسکتا۔ان کی ہیبت اور رعب کاتویہ عالم تھا کہ عدالت عالیہ سے موروثی جائیدادکے مقدمات ہارنے کے باوجوداعظم بیگ جیسے شخص کوقبضہ نہیں لینے دیا۔اورنہ ہی ان میں سے کسی کی جرأت ہوئی کہ قبضہ لے سکے۔جولائی ۱۸۸۳ء میں ان کی وفات کے بعد ہی اس طرح کے لوگوں کوکچھ حوصلہ ہواہوگا۔اوراس کاایک اور قرینہ یہ بھی ہے کہ حضرت اقدسؑ کی تحریراور حضرت عرفانی صاحبؓ کے بیانات میں بھی ہے کہ یہ مقدمہ مرزاسلطان احمدصاحب نے کیاتھااور ظاہرہے کہ مرزاغلام قادرصاحب کے حین حیات مدعی مرزاغلام قادرصاحب خودہوتے نہ کہ مرزاسلطان صاحب،پھرایک اورقرینہ حضرت اقدس ؑ کےمکتوب میں یہ فقرہ ہے کہ جس میں آپؑ فرماتے ہیں ’’ غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گذرا ہوگا‘‘یہ مکتوب دسمبر۱۸۹۲ء کے آخرکاہوگا۔جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ۱۸۸۵ء کے لگ بھگ کی یہ بات ہوگی۔
یہ مکان بعدمیں حضرت مصلح موعودؓ کے عہدخلافت میں حضرت عرفانی صاحب ؓ کے ذریعہ بذریعہ خریدسلسلہ احمدیہ کی ملکیت میں آگیا۔حیات احمدجلددوم حصہ اول صفحہ ۱۰۳ اور جلدچہارم صفحہ۵۳۰ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عرفانی صاحبؓ نے پسران شنکرداس سے یہ مکان خریدلیاتھا اور اس کا۳/۱ حصہ سلسلہ احمدیہ کے نام ہبہ کردیاتھااور بعد میں یہ سارامکان ہی جماعت کے مصرف میں آگیا۔۱۹۳۲ء میں اس حویلی میں صدرانجمن احمدیہ کے دفاترقائم کردیے گئے۔اس کے باقاعدہ افتتاح میں حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس تشریف لائے۔ چنانچہ اس کی روداد جواخبارمیں شائع ہوئی اس کے مطابق حضورانوررضی اللہ عنہ کی خدمت میں صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے جوایڈریس پیش کیاگیاوہ یہ تھا۔