حضرت نوحؑ کی کہانی
باہر شدید بارش ہو رہی تھی اور احمد کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ سارا دن بارش میں کھیلتا رہا تھا اور اب اسے تیز بخار چڑھا ہوا تھا۔
دادی جان ! لگتا ہے آج احمد بھائی کو اللہ میاں نے بارش میں نہانے کی سزا دی ہے کیونکہ انہوں نے امی کا کہنا نہیں مانا اور بارش میں نہاتے رہے۔ محمود نے دادی جان سے کہا۔
دادی جان یہ محمود کیا صحیح کہہ رہاہے؟ بارش تو اللہ میاں کی رحمت ہوتی ہے۔ تو بارش تو سزا نہیں بن سکتی ناں دادی جان؟ احمد نے چادر سے منہ باہر نکال کر دادی جان کو دیکھا۔
اس سے پہلے کہ دادی جان کچھ کہتیں، گڑیا نے کہا: بارش سزا بھی بن سکتی ہے۔ ہماری ٹیچر نے بتایا تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر بارش اور طوفان آیا تھا اور وہ ہلاک ہوگئی تھی۔
دادی جان: میں سب بچوں کو باری باری جواب دیتی ہوں۔ محمود بیٹا آپ نے کہا کہ احمد بھائی کو اللہ میاں نے سزا دی ہےتو دراصل اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں انسان کے فائدہ کے لیے بنائی ہیں۔ لیکن ان کا بے جا استعمال نقصان پہنچا سکتاہے۔ جیسے احمد بھائی کو امی جان نے بارش میں نہانے کی اجازت دی تھی اور کچھ دیر بعد انہیں واپس بلایا کیونکہ بارش میں زیادہ نہانا بیمار بھی کر دیتا ہےتو احمد بھائی نے امی کا کہنا نہیں مانا اور کچھ دیر مزید بارش میں نہاتے رہے جس سے انہیں ٹھنڈ لگ گئی۔
جی دادی جان! وہ دراصل مَیں نے سوچا کہ اتنا مزا آرہا ہے، بس تھوڑی دیر اَور نہا لوں۔ لیکن آئندہ میں امی جان کی بات فوری مانوں گا، احمد نے کہا۔
دادی جان : بیٹا جب کوئی اچھا ارادہ کریں تو ساتھ اِن شاء اللہ بھی بولتے ہیں۔ یعنی اگر اللہ میاں چاہے تو یہ ہو سکتا ہے۔ اس میں دعا بھی ہوتی ہے کہ اللہ یہ کرنے کی توفیق دے۔
اِن شاء اللہ دادی جان۔ محمود اور احمد بیک زبان بولے۔
دادی جان: اور جیسا کہ گڑیا نے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا، میں آپ کو ان کی پوری کہانی سناتی ہوں۔
حضرت نوح ؑاللہ تعالیٰ کے پیارے نبی تھے اور عراق کے رہنے والے تھے۔ آپؑ کی قوم نے وُد، سُوَاع، یَغُوث اور نَسْر نامی چار بُت بنا رکھے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر اپنی قوم کو بہت محنت اور محبت سے پیغام پہنچایا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی سزا اور عذاب سے بھی ڈرایا۔ آپ کی قوم بہت سخت دل تھی۔ جب حضرت نوحؑ ان کو تبلیغ کرتے تو وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے اور انہیں دیکھ کر اپنے اوپر چادر لپیٹ لیتے تا کہ حضرت نوحؑ تبلیغ کرنی شروع نہ کردیں۔ لوگ حضرت نوحؑ سے بہت بحث و تمحیص کرتے اور جب وہ ان کے دلائل کا جواب نہ دے پاتے تو کہتے کہ اے نوحؑ! تُو بہت بحث مباحثہ کرتا ہے۔ اگر تُو سچا ہے تو وہ عذاب لےآ جس سے تُو ہمیں ڈراتا ہے۔یہ ان کے تکبر کی علامت تھی۔ آپؑ ان کے لیے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کرتے رہتے۔
دادی جان دَم بھر رکیں اور پھر بولیں: پھر آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک کشتی تیار کرنی شروع کی۔ اس علاقے میں کوئی بڑا دریا اور سمندر وغیرہ نہیں تھے اس لیے ان کی قوم ان کا مزید مذاق اڑاتی کہ بلاوجہ کَشتی بنا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت نوحؑ کوتسلی دی کہ اب جس نے ایمان لانا تھا وہ لا چکا، ان کے لیے مزید پریشان نہ ہو۔ حضرت نوح ؑنے بھی بالآخر اللہ تعالیٰ سے نبی کی تکذیب کرنے والے لوگوں پر عذاب کی دعا کی کیونکہ اگر ان کو چھوڑ دیا گیا تو وہ مزید لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر طوفانی بارش آئی اور زمین سے بھی چشمے اُبل پڑے۔ معلوم تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ وہ پہلے نبی تھے جن کی قوم کو عذاب دیا گیا۔
تو دادی جان کیا اس طوفان سے ساری دنیا ڈوب گئی تھی؟ محمود نے جو پلک جھپکائے بغیر غور سے بات سن رہا تھا سوال کیا۔
دادی جان: اللہ چاہتا تو ایسا ہو سکتا تھالیکن حضرت نوحؑ صرف ایک قوم کے نبی تھے۔ باقی دنیا کو کیوں عذاب ملتا اور قرآن کریم نے بھی بار بار ان کی قوم کا ذکر کیا ہے۔ لگتا ہے کہ ان کا علاقہ کسی نشیبی جگہ یعنی پہاڑوں کے درمیان تھا جہاں بارش اور چشموں کا پانی اکٹھا ہو گیا تھا۔ قرآن کریم میں ان کے ایک بیٹے کے متعلق آیاہے کہ اس نے سمجھا تھا کہ کسی اونچی جگہ چڑھ کر اپنی جان بچا لے گا۔ لیکن وہ بھی خدا کی تقدیر سے بچ نہ سکا اور ڈوب گیا۔ لیکن احمد بیٹا بارش عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہوتی ہے۔ اسی کی وجہ سے پھل، پھول اور سبزیاں اُگتی ہیں ماحول صاف ہوتا ہے۔ اور ہمیں پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر آتا ہے۔
گڑیا جو اَب تک خاموش تھی فوراً بولی: کشتیٔ نوح! میں یہ نام یاد کر رہی تھی۔ پچھلے دنوں کسی ملاقات میں حضور انورایّدہ اللہ نے احمدی بچوں کو یہ کتاب پڑھنے کی تلقین بھی کی ہے۔ دادی جان کیا یہ کتاب اسی کہانی کے متعلق ہے؟
دادی جان: اِس میں اس کہانی کا ذکر تو نہیں لیکن اِس زمانے میں بھی بدیوں اور برائیوں کا سیلاب اور طوفان آیا ہوا ہے۔ جس سے بچانے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کے لیے ایک کتاب تصنیف فرمائی اوراس کا نام استعارے کے طور پر رکھا کشتیٔ نوح۔ آپؑ نے اس میں اسلامی تعلیم کا خلاصہ درج کیا جس پر چل کر ہم اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں اور ان برائیوں کے طوفان سے بچ سکتے ہیں۔
چلیں اب بہت وقت ہوگیا ہے۔ موسم پھر سے ٹھنڈا ہورہا ہے اس لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔ احمد بیٹا آپ نے دوا لے لی ہے؟ سب بچے سونے کی دعا پڑھیں اور سونے جائیں۔
(درثمین احمد۔جرمنی)