نومولود کا نام رکھنے کے زرّیں اصول
دنیا میں کسی بھی چیز کی پہچان کے لیے اول ذریعہ اسم (نام)ہے۔ کسی بھی چیز کا جب نام لیا جائے تو ایک تصویریا خاکہ انسان کے ذہن میں آجاتا ہےیعنی اگر یہ کہا جائے کہ ’’اول اصول آشنا کاذریعہ اسم ہے‘‘ تو غلط نہ ہوگا۔ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات قراردیا ہے وہ اس چیز کی سب سے زیادہ مستحق ہے کہ ان کے اسماء بھی اشرف الاسماء ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یہی اصول اپنی ذات کے لیے پسند فرمایا ہے۔چنانچہ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۱۸۱میں فرماتا ہے:وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہٗ بِھَا۔ترجمہ: اور اللہ کے سب نام ہی خوبصورت ہیں پس اُسے ان ناموں سے پکارو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمیں اس کی نصیحت فرمائی ہے۔
حضرت ابوسیرہؓ سےمروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور آپؐ نے ان سے پوچھاتیرے بچوں کے نام کیا کیا ہیں؟ انہوں نے کہا فلاں فلاں اور عبدالعزیٰ (العزیٰ عرب کے مشہور بتوں میں سے ایک بت کا نام)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ عبدالرحمٰن ہے نہ کہ عبدالعزیٰ۔ اگر تم نام رکھنا چاہو تو سب سے بہتر نام عبداللہ، عبدالرحمٰن اور حارث ہیں۔(مسند احمد بن حنبل)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن تھے۔ (مسند احمدبن حنبل)
اسی طرح ناموں کا اثر شخصیت اور ماحول پر پڑتا ہےاور اس بات کو ماہر نفسیات بھی مانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اپنے عمل سے اس طرف توجہ دلائی۔ چنانچہ کئی نام جو معنوں کے لحاظ سے بہتر نہ تھے ان کو تبدیل کیا جیساکہ عاصیہ کو جمیلہ سے بدل دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاصیہ کا نام تبدیل کرکے جمیلہ رکھا۔(مسند احمدبن حنبل)
پھر ابن مسیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے دادا سے فرمایا تیرا نام کیا ہے؟انہوں نے کہا حزن(جس کا مطلب غم ہے )۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تو سہل ہے اس پر انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے میرا جو نام رکھا ہے میں اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔ ابن مسیب بیان کرتے ہیں پس ہمیشہ ہمارے خاندان میں سختی اور اکھڑ مزاجی رہی۔ (مسند احمد بن حنبل)
اسی طرح حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کا نام شہاب سے تبدیل کرکے ہشام رکھا۔(مسند احمد بن حنبل)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض ناموں کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورؐنےفرمایا:قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہو گا جو اپنا نام ملک الاملاک (شہنشاہ) رکھے۔
اسی طرح بشیر بن خصامیہ ؓکی بیوی لیلیٰ ؓاپنے خاوند سے بیان کرتی ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے جبکہ ان کا اصل نام زحم تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام بشیر رکھا۔(مسند احمد بن حنبل)
کیا کوئی اسماء ممنوعہ بھی ہیں؟
بعض اسماء کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو رکھنے سے منع فرمایا۔مثلاً حضرت سمرۃ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاافلح، نجیح، سیار اور رباح (نام)نہ رکھو۔کیونکہ جب کوئی پوچھے گا کہ فلاں فلاں ہے تو اس کے موجود نہ ہونے کی صورت میں لوگ یہی کہیں گےکہ نہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)
حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں:’’کسی لڑکی کا نام جنت تھا۔ کسی شخص نے کہا کہ یہ نام اچھا نہیں کیونکہ بعض اوقات انسان آواز مارتا ہے کہ جنت گھر میں ہے اور اگر وہ نہ ہو تو گویا اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ ہی ہے یا کسی کا نام برکت ہو اور یہ کہاجائے کہ گھرمیں برکت نہیں تو گویا نحوست ہوئی۔ فرمایا:یہ بات نہیں ہے۔ نام رکھنے سے کوئی ہرج نہیں ہوتا اور اگر کوئی کہے کہ برکت اندر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اندر نہیں ہے نہ یہ کہ برکت نہیں۔ یا اگر کہے کہ جنت نہیں۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنت نہیں اور دوزخ ہے۔ بلکہ یہ کہ وہ انسان اندر نہیں جس کا نام جنت ہے۔ کسی اور نے کہا کہ حدیث میں بھی حرمت آئی ہے۔ فرمایا کہ میں ایسی حدیثوں کو ٹھیک نہیں جانتا اور ایسی حدیثوں سے اسلام پر اعتراض ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بتائے ہوئے نام عبداللہ، عبدالرحیم، عبدالرحمٰن جو ہیں ان پر یہی بات لگ سکتی ہے کیونکہ جب ایک انسان کہتا ہے کہ عبدالرحمٰن اندر نہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا کہ عبدالشیطان اندر ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ شخص جس کا نام نیک فال کے طور پر عبدالرحمٰن رکھا گیا تھا وہ اندر نہیں اور اسی طرح دوسرے نام یا یہ کہ دین محمد اندر نہیں تو کفر کا ہونا ضرور ہوا۔ پس یہ ایک غلط خیال ہے یہ نام ایک نیک فال کے طور پر رکھے جاتے ہیں تا وہ شخص بھی اس نام کے مطابق ہو۔‘‘ (الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰،۱۱)
کسی کے نام سے تفاؤل لینے کے متعلق سوال ہوافرمایا:’’یہ اکثر جگہ صحیح نکلتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تفاؤل سے کام لیا ہے۔ ایک دفعہ میں گورداسپور مقدمہ پر جارہاتھا اور ایک شخص کو سزا ملنی تھی میرے دل میں خیال تھا کہ اسےسزا ہو گی یا نہیں؟اتنے میں ایک لڑکا ایک بکری کے گلے میں رسی ڈال رہا تھا اس نے رسی کا حلقہ بنا کر بکری کے گلے میں ڈالا اور زور سے پکارا کہ وہ پھنس گئی وہ پھنس گئی۔میں نے اس سے یہ نتیجہ نکا لا کہ اسے سزا ضرور ہو گی۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
اسی طرح ایک دفعہ سیر کو جارہے تھے اور دل میں پگٹ کا خیال تھا کہ بڑا عظیم الشان مقابلہ ہے دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک شخص غیر از جماعت نے راستہ میں کہا السلام علیکم۔ میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہماری فتح ہوگی۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۷۸،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
عبد یا امۃ کا صحیح استعمال
بعض لوگوں کے نام اللہ تعالیٰ کے ناموں پر ہیں اُن کے ساتھ عبداور امۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً عبدالرحمٰن یا امۃ الکافی وغیرہ۔ مگر ہم لاعلمی میں پکارتے وقت عبد یا امۃ کا لفظ نہیں لگاتے یعنی صرف رحمٰن یا کافی یا شافی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس طرح لاعلمی میں اُن کے ناموں کو خدائی صفات میں شریک کرتے ہیں۔اس لیے جب بھی ایسے نام پکارے جائیں تو مکمل نام پکارے جائیں۔ یعنی عبدالرحمٰن یا امۃ الکافی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ فرمایا:’’ہماری جماعت میں لڑکیوں کے ناموں کے متعلق ایک غلطی ہو رہی ہے جو مشرکانہ ہے اور جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے۔میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ غلطی کیوں ہو رہی ہے۔اگر دوسروں میں یہ غلطی ہو تو اس قدر افسوس پیدا نہیں ہو تا کیونکہ وہ پہلے ہی اسلام سے دور ہیں لیکن ہم لوگ تو وہ ہیں جو اسلام کو خوب سمجھتے ہیں پھر ہمارے اندر وہ نقص کیوں پیدا ہو۔ہماری ایک بہن کا نام مبارکہ بیگم ہے اورایک کا نام امۃ الحفیظ۔ایک بہن جو چھوٹی عمر میں فوت ہو گئی تھی اس کا نام عصمت تھا۔اسی طرح ایک دوسری بہن کہ وہ بھی چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ اس کا نام شوکت تھا۔گویا سوائے ایک بہن کے اَور کسی کے نام میں خدا تعالیٰ کا نام نہیں آتا۔ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام کے نام سے وابستگی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لڑکوں کے ناموں میں احمدکا نام آتا ہے خدا تعالیٰ کا نہیں آتا۔پس مجھے برا لگا کہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے خاندان کے ناموں میں سے جاتا رہے۔چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ لڑکیوں کا نام میں’’امۃ‘‘کے نام پر رکھا کروں گا تاکہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے گھروں میں قائم رہے۔چنانچہ ہمارے خاندان میں سے جو لوگ مجھ سے اپنی لڑکیوں کا نام رکھواتے ہیں۔ میں ہمیشہ’’امۃ‘‘کے ساتھ ان کے نام رکھتا ہوں۔اور جنہوں نے یہ نام نہیں رکھوانا ہوتا وہ مجھ سے پوچھتے ہی نہیں۔بہر حال جب وہ پوچھتے ہیں میں ہمیشہ اصرار سے ’’امۃ‘‘ کے لفظ کے ساتھ ان کی لڑکیوں کا نام رکھتا ہوں۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جس خاندان کا تعلق سلسلہ کے بانی کے ساتھ ہو اس کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھتی ہیں اور وہ بھی انہی کے طریق پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ ہماری جماعت میں عام طور پر لڑکیوں کے نام ’’امۃ‘‘ کے لفظ کے ساتھ رکھے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک فیشن ہوگیا ہے کہ لڑکیوں کا نام امۃ اللہ یا امۃ العزیز یا امۃ الحفیظ وغیرہ رکھا جائے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بڑی مبارک بات ہے اور جتنی بڑھے اتنی ہی اچھی بات ہے۔مگر مصیبت یہ ہے کہ بعض دفعہ حقیقت کو نظر انداز کرکے بغیر سوچے سمجھے نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ مشرکانہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس جلسہ میں تین لڑکیاں ایسی معلوم ہوئیں جن کے نام مشرکانہ تھے۔ ان میں سے ایک تو راولپنڈی کی تھی اور دو بعض اَور مقامات کی۔ ان میں سے کسی کا نام امۃ البشیر تھا اور کسی کانام امۃ الشریف۔ حالانکہ بشیر اور شریف خدا تعالیٰ کا نام نہیں۔انہوں نے غالبًا یہ سمجھا کہ ’’امۃ‘‘ کے لفظ سے برکت حاصل ہوتی ہے۔حالانکہ ’’امۃ‘‘ کے لفظ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے برکت حاصل ہوتی ہے جو اس لفظ کے ساتھ لگائی جائے۔ مثلاً امۃالحئی نام ہوسکتا ہے۔ امۃ الباری نام ہوسکتا ہے۔ امۃ اللہ نام ہوسکتا ہے۔امۃ الرب نام ہوسکتا ہے۔ امۃ الرحمٰن نام ہوسکتا ہے۔ امۃ الرحیم نام ہوسکتا ہے۔ مگر امۃ العالمگیر یا امۃ الجہانگیر یا امۃالشاہ جہاں نام نہیں ہوسکتا۔کیونکہ یہ انسانوں کے نام ہیں۔ خدا کے نام نہیں اورلونڈی مسلمان عورت خدا کی ہوتی ہے انسان کی نہیں۔ بہرحال اس دفعہ تین نام ایسے پکڑے گئے جو مشرکانہ تھے اور جن سے ہماری جماعت کے دوستوں کو بچنا چاہیے کیونکہ ان ناموں سے وہ خدا تعالی کی لونڈیاں نہ رہیں، آدمی کی لونڈیاں بن گئیں۔ اور یہ جائز نہیں۔ اگر امۃ اللہ نام رکھا جائے تو یہ جائز ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کسی اَور صفت کے ساتھ ’’امۃ‘‘ کالفظ لگا کر نام رکھا جائے تو یہ جائز ہوگا۔ لیکن یہ جائز نہیں ہوگا کسی آدمی کے نام کے ساتھ خواہ وہ کتنا بڑا ہو امۃ کا لفظ لگا کر اپنی کسی لڑکی کا نام رکھ دیا جائے۔ جبکہ میں نے بتایا ہے کہ مجھ سے جب کوئی ہمارے خاندان کا آدمی لڑکی کا نام پوچھتا ہے تو میں اصرار کرکے امۃ کے ساتھ اس کا نام رکھتا ہوں بلکہ اب چونکہ ہمارے خاندان میں بہت سے بچے ہوگئے ہیں اور بعض دفعہ پہلے نام ہی دوبارہ رکھنے پڑتے ہیں۔ ایسے موقع پر ماں باپ اصرار کرکے نئے نام کی فرمائش بھی کریں تو میں ردّ کر دیتا ہوں کہ اگر مجھ سے نام رکھواناہے تو میں اللہ تعالیٰ کا نام ضرور بیچ میں لاؤں گا۔یہ نئے نام کی خواہش بھی ایک بدعت ہے۔عربوں میں تو یہ رواج تھا کہ باپ کا نام بھی عبداللہ ہے۔بیٹے کا نام بھی عبداللہ ہے اور پوتے کا نام بھی عبداللہ ہے۔ اگر اس طرح ایک خاندان میں ایک ایک نام کے کئی بچے بھی ہوں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں اور اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے نام کے استعمال کو بڑھا سکتے ہیں۔‘‘ (الفضل۱۶؍مارچ ۱۹۵۱ء)
پھر ایک اور غلطی یہ ہوتی ہے کہ امۃ کے ساتھ جو نام رکھے جاتے ہیں۔ ان میں لفظ امۃ کو اَمْۃ یعنی میم کی جزم کے ساتھ پکارا جاتا ہے جبکہ صحیح تلفظ اَمَۃ یعنی میم کی فتح( زبر) کے ساتھ ہے۔
سوءِ ادب
ایک امر خاص توجہ طلب ہے کہ بعض احباب خلیفۃ المسیح کی خدمت میں اپنے بچوں کے نام کی درخواست کرتے ہیں۔ جب دربارخلافت سے نام عطا ہوتا ہے پھر بعض اوقات وہ نام پسند نہیں آتااور اپنی پسند کا نام رکھتے ہی۔ یہ سوءِ ادب کی ایک قسم ہے۔ جب نام کے لیے لکھا ہے تو شرح صدر کے ساتھ وہ نام رکھنا چاہیے اور اسی نام میں خلافت کی اطاعت کی وجہ سےاللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات پوشیدہ ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کا ہر پہلو سے مطیع وفرمانبرداررہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین