حضرت کرشن علیہ الصلوٰۃ والسلام
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے اور اپنی مخلوق کو راہِ راست پر لانے کے لیے جہاں اَوربہت سے انتظام کیے اور جیسے انسان کی مادی زندگی کی نشو ونما کے لیے تمام ضروری سامان مہیا کیےاسی طرح انسان کی روحانی نشوونما کے لیے بھی اس نے تمام قسم کے سامان کیے جن میں سے آمدِ انبیاء علیہم السلام ایک اہم سامان ہے۔ اسلام اس بات کی ہرگز تعلیم نہیں دیتا کہ انبیاء محض اسلام میں یا صرف بنی اسرائیل میں ہی آئے ہیں، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (الفاطر:۲۵) اور کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے۔
نیز ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ۔ (الرعد:۸) یقیناً تو محض ایک ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہوتا ہے۔
نذیر اور ہادی کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیا کہ یقیناً وہ نذیر اور ہادی اللہ کے رسول تھے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (سورۃ النحل:۳۷) اور یقیناً ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور بتوں سے اجتناب کرو۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی سنت کے مطابق ہندوستان میں بھی بہت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے جن میں سے ایک حضرت کرشن علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔سناتن دھرم میں آپ کو وشنو کا آٹھواں اوتار مانا جاتا ہے۔
پیدائش:آپ علیہ السلام کی پیدائش ۳۲۲۸ق۔م میں بتائی جاتی ہے۔ آپ متھرا میں والد واسو دیو اور والدہ دیوکی کے گھر پیدا ہوئے۔ واسو دیو اور دیوکی کی شادی ہوتے ہی دیوکی کے بھائی کنس کو کسی نجومی نے بتلا دیا تھا کہ دیوکی کا آٹھواں بیٹا اسےقتل کرے گا جس کی وجہ سے کنس نے اسی وقت اپنی بہن دیوکی اور بہنوئی واسو دیو کو قید کر لیا اور آپ دونوں کے تمام جوبیٹے پیدا ہوئے انہیں قتل کرتا رہا۔جب حضرت کرشن علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو واسو دیو نے خفیہ طریق سے انہیں اپنے دوست نندا کے گھر پہنچا دیا جہاں نندا اور ان کی اہلیہ یشودہ نے آپ علیہ السلام کی پرورش کی۔کنس کو جب معلوم ہوا کہ اس کا قتل کرنے والا زندہ ہے اور کہاں ہے تو اس نے حضرت کرشن علیہ السلام کے قتل کے لیے بہت سے حیلے اپنائے مگر سب بے فائدہ رہے۔بالآخر حضرت کرشن علیہ السلام نے اپنے ماموں کو قتل کیا اور اپنے نانا اُگرسین کو تخت پر بٹھایا۔یہیں آپ علیہ السلام کی ملاقات ارجن اور باقی پانڈوؤں سے ہوئی بعدازاں مہابھارت کی جنگ میں ارجن کی آپ علیہ السلام نے مدد کی اور ارجن کے سپہ سالار بنے۔آپ علیہ السلام کی وفات۳۱۰۲ق۔م میں بیان کی جاتی ہے۔
نام:آپ علیہ السلام کا ذاتی نام کنہیا تھا۔ کرشن نام آپ علیہ السلام کونبوت کے بعد اللہ کی طرف سے دیا گیاجس کے معنی ہیں ’’روشن کیا گیا‘‘۔لفظ کرشن کے بارے میں سنسکرت ہندی لغت بیان کرتی ہے کہ کرشن کے لفظی معنی(आकर्षित करने वाला) متوجہ کرنے والا،گرویدہ کرنے والااورموہ لینے والےکے ہیں۔یعنی جس میں بےحد کشش ہو۔حضرت کرشن علیہ السلام کے نام کے بارے میں ایک روایت ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی پائی جاتی ہے جس میں آپ علیہ السلام نے کرشن نام کے معنی بتلائے ہیں۔ روایت ۵؍مارچ۱۹۰۸ء: ’’مولوی ابو رحمت صاحب نےعرض کی کہ حضور کرشن کے معنے اُن کی لغت کے بموجب ہیں،وہ روشنی جو آہستہ آہستہ دُنیا کو روشن کرتی ہے۔تاریکیٔ جہالت کے مٹانے والے کا نام کرشن ہے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ ان کے متعلق جوگوپیوں کی کثرت مشہور ہےاصل میں ہمارے خیال میں بات یہ ہے کہ اُمت کی مثال عورت سے بھی دی جاتی ہے۔چنانچہ قرآن شریف سے بھی اس کی نظیر ملتی ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے:ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ۔الخ(التحریم:۱۲) یہ ایک نہایت ہی باریک رنگ کا لطیف استعارہ ہوتا ہے۔اُمت میں جوہرِ صلاحیت ہوتا ہے اور نبی اور اُمت کےتعلق سے بڑے بڑےحقائق، معارف اور فیضان کے چشمے پیدا ہوتے ہیں اور نبی اور اُمت کے سچے تعلق سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جن سے خدائی فیضان اور رحم کا جذب ہوتا ہے۔پس کرشن اور گوپیوں کے ظاہری قصہ کی تہہ میں ہمارے خیال میں یہی رازِ حقیقت پنہاں ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۵صفحہ۴۶۱، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
نبوت:حضرت کرشن علیہ السلام یقیناً اللہ کے پیارے اور برگزیدہ نبی تھے جن کو اللہ نے اپنے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرمایا۔چنانچہ حدیث میں بھی آپ علیہ السلام کی نبوت کے متعلق واضح ارشاد موجود ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا:کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیًّا اَسْوَدَ اللَّوْنِ اِسْمُہُ کَاھِنًا یعنی’’ہندوستان میں ایک نبی گذرا ہے جو کالے رنگ کا تھا اُس کا نام کاہنا تھا۔‘‘(تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف)
اِس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے واضح طور پر فرما دیا کہ آپ علیہ السلام درحقیقت اللہ کے نبی تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ علیہ السلام کی نبوت کے متعلق فرماتے ہیں:’’واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رِشی اور اوْتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوْتار یعنی نبی تھاجس پر خدا کی طرف سے روح القدس اُترتا تھا۔وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور بااقبال تھاجس نے آریہ وَرْت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا۔وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا۔وہ خدا کی محبت سے پُر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دُشمنی رکھتا تھا۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۸-۲۲۹)
آپؑ کی طرف منسوب بعض منفی واقعات
ہندو دھرم کے لوگ حضرت کرشن علیہ السلام کو بہت سے ناموں سے پکارتے ہیں اور بہت سے واقعات آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں جو تھے تو آپ کی زینت اور تکریم کا موجب مگر زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واقعات غلط رنگ اختیار کر گئے اور یہ صفات الزامات کا رنگ اختیار کر گئیں۔
سب سے پہلا واقعہ جو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہےوہ یہ ہے کہ آپ بچپن میں مکھن چوری کیا کرتے تھے اسی لیے ہندو آ پ علیہ السلام کو پیار سے ’’ماکھن چور‘‘ کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’تجزیہ نگاروں کے بقول وہ گھر سے سیر دو سیر مکھن بھی چرا لیا کرتے تھے۔ تاہم اسے ہم حضرت کرشن کا کوئی جرم نہیں سمجھتے۔کیونکہ رحم دل بچے اپنے غریب ساتھیوں کی خاطر جائز سمجھتے ہوئے ایسا کر ہی لیتے ہیں۔ایسے بچہ پر تو پیار آتا ہے نہ یہ کہ اس سے نفرت کی جائے۔‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ ۹۵)
دوسرا واقعہ جو آپ علیہ السلام کے متعلق بیان کیا جاتا ہے وہ ’’گوپیاں‘‘ رکھنے کا واقعہ ہے۔بیان کیا جاتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے سولہ ہزار گوپیوں کے ساتھ تعلقات تھے۔اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ان کے متعلق جوگوپیوں کی کثرت مشہور ہےاصل میں ہمارے خیال میں بات یہ ہے کہ اُمت کی مثال عورت سے بھی دی جاتی ہے۔چنانچہ قرآن شریف سے بھی اس کی نظیر ملتی ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے:ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ الخ(سورۃ التحریم:۱۲)
یہ ایک نہایت ہی باریک رنگ کا لطیف استعارہ ہوتا ہے۔اُمت میں جوہرِ صلاحیت ہوتا ہے اور نبی اور اُمت کےتعلق سے بڑے بڑےحقائق، معارف اور فیضان کے چشمے پیدا ہوتے ہیں اور نبی اور اُمت کے سچے تعلق سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جن سے خدائی فیضان اور رحم کا جذب ہوتا ہے۔پس کرشن اور گوپیوں کے ظاہری قصہ کی تہہ میں ہمارے خیال میں یہی رازِ حقیقت پنہاں ہے۔
مولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی کہ گوپی کے معنے یوں بھی ہیں کہ ‘‘گو ‘‘کہتےہیں زمین کو اور ’’پی‘‘ پالنے والے یعنی کرشن جی کےمریدانِ باصفا ایسے لوگ تھے جو نیک مزاج اور مخلوق کی پرورش کرنے والے تھے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ انسان کو زمین سے بھی تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا (الحدید:۱۸)ارض کے زندہ کرنے سے مراد اہل زمین ہیں۔
پھرمولوی ابو رحمت صاحب نے عرض کی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کرشن جی نے اپنی تعلیم کو عورتوں ہی کے ذریعہ سے پھیلایاہو کیونکہ ان کے مرد تو عموماً کھیتی کے دھندوں میں جنگلوں بنوں میں رہتے تھے اور ان کو اشاعتِ مذہب کے واسطے کم فرصت ہوتی تھی۔عورتیں ہی یہ کام کرتی ہوں گی۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ ہمیں ایک دفعہ خیال آیا کہ کرشن جی کو داؤدؑ کے ساتھ بالکل مشابہت معلوم ہوتی ہے۔بلحاظ راگ،رقص، مجمع مستورات اور بہادری میں۔خدا جانے یہ کیا بات ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۵صفحہ۴۶۱۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’جہاں تک حضرت کرشنؑ کے جسمانی خدوخال کا تعلق ہے وہ کچھ انوکھے سے نظر آتے ہیں۔ہندو فنکاروں نے ان کی جو تصویر بنائی ہےاس میں ان کے دو کی بجائےچار ہاتھ ہیں۔اسی طرح ان کے پر بھی دکھائے گئے ہیں۔اکثر تصاویر میں انہیں بانسری بجاتے دکھایا گیا ہے۔نیز خوش رنگ کپڑوں میں ملبوس کچھ خوبرو دوشیزائیں ان کے ارد گرد بیٹھی دکھائی گئی ہیں جو ’’گوپیاں‘‘ کہلاتی ہیں۔گوپی ایک اصطلاح ہے جو گائیں پالنے والی عورت کے لئے مستعمل ہے۔اسے چرواہن بھی کہتے ہیں۔یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خود کرشنؑ کا لقب بھی ’’گوپال‘‘ تھا جس کا مطلب ہے’’گائیں پالنے والا‘‘۔اس کو اگر اسرائیلی انبیاء کے لئے بائبل کی اصطلاح یعنی ’’بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے چرواہے‘‘ کے پس منظر میں پڑھا جائے تو مشابہت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔چونکہ ہندوستان میں بھیڑوں کی بجائے گائے عام ہے اس لئےاگر عوام الناس کو گائے سے تشبیہ دی جائے اور کرشن ؑکو گائیوں کا رکھوالا کہا جائے تو یہ بات بخوبی سمجھ میںآجاتی ہے۔اسی طرح ان کے حواریوں کو گوپیاں کہا جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ ۹۵-۹۶)
پھرایسا بھی ممکن ہے کہ آپ حقیقت میں بھی گائیں چرایا کرتے ہوں۔اِسی وجہ سے آپ کو ’’گوپال‘‘ نام دیا گیا۔یہ بھی آپ علیہ السلام کی نبوت کی ایک دلیل ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔ہندوستان میں کیونکہ بھیڑوں بکریوں کی بجائے گائے عام ہے اس لیے حضرت کرشن علیہ السلام نے گائیں چرائی ہوں۔آنحضرتﷺنے فرمایا:مَا بَعَثَ اللّٰهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ : وَأَنْتَ؟ فَقَالَ : نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ۔(صَحِیْحُ الْبُخَارِی كِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابُ رَعْيِ الْغَنَمِ عَلَى قَرَارِيطَ)اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
پھر ایک واقعہ آپ علیہ السلام کے متعلق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ بانسری بجایا کرتے تھے۔ اس لیے آپ علیہ السلام کا ایک نام ’’مرلی دھر‘‘ بھی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:’’حضرت کرشنؑ کو’’مرلی دھر‘‘یعنی بانسری بجانے والا بھی کہا جاتاہے۔اس جگہ ’بانسری‘ واضح طور پر الہام کی علامت ہے۔کیونکہ وہ دھن جو بانسری سے نکلتی ہے دراصل بانسری کی اپنی دھن نہیں بلکہ اسے بانسری میں پھونکا جاتا ہے۔بانسری سے خودبخود کو ئی دھن نہیں نکلتی۔پس بانسری خود کرشنؑ تھے جنہیں خدا کی بانسری کے طور پر دکھایا گیا ہے اور خدا نے جو سُر بھی اس میں پھونکا، انہوں نے بعینہٖ اسے آگے دنیا کو پہنچایا۔اس لئے حضرت کرشنؑ کو دیگر انبیاء سے کسی طرح بھی منفرد اور الگ قرار نہیں دیا جا سکتا جنہوں نے خدا کے پیغام کو دیانتداری کے ساتھ من و عن دنیا تک پہنچایا۔اس طرح دنیا کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ انبیاء اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو انہیں خدا کی طرف سے الہام کیا جاتا ہے وہی دنیا کو پہنچاتے ہیں،بانسری ان کی دیانتداری کی بلیغ ترین علامت ٹھہرتی ہے۔‘‘ (الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ ۹۶)
پھر حضرت کرشن علیہ السلام کو تصاویر میں چار ہاتھ اور پنکھوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت کرشنؑ کے بارہ میں دیومالائی قصوں کو ظاہر پر محمول کرنے کی بجائے محاورات اور استعاروں کے رنگ میں سمجھنا چاہئے۔ان کی تصویر میں ان کے چار ہاتھوں اور پروں سے علامتی طور پر وہ غیر معمولی صلاحیتیں اور قویٰ مراد ہو سکتے ہیں جو خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ودیعت فرماتا ہے۔قرآن کریم بھی پیغمبرِ اسلام کے تعلق میں پروں کا ذکر فرماتا ہے۔چنانچہ آ پ ﷺ کو خدا کی طرف سے مومنوں پر رحمت کے پروں سے سایہ فگن ہونے کا ارشاد ہے۔اسی طرح جہاں فرشتوں کے پروں کی مختلف تعداد کا ذکر ملتا ہے تو مراد اُن کی خصوصیات ہوتی ہیں نہ کہ ظاہری پر۔
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہےکہ دینی محاوروں اور تمثیلات کو ان کے پیروکار اس حد تک لفظی مفہوم پر محمول کر لیتے ہیں کہ اصل حقیقت کلیۃً نظر انداز ہو جاتی ہے۔حضرت کرشنؑ اور ان سے منسوب تصورات بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ ۹۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کرشن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا وہیں آپ علیہ السلام نے کرشن ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’مجھے اور نام بھی دیئے گئے ہیں اور ہر ایک نبی کا مجھے نام دیا گیا ہے چنانچہ جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے جس کو رُدّر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا) اُس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تُو ہی ہے آریوں کا بادشاہ۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۵۲۱-۵۲۲)’’اور جیسا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کرکے بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوؤں کے لئے بطور اوتار کے ہوں اور میں عرصہ بیس برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے اس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پُر ہوگئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کی رو سے میں وہی ہوں۔‘‘…’’وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہےاس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۲۲۸)
ایسا نہیں ہے کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کرشن ہونے کا دعویٰ کر دیا بلکہ حضرت کرشن علیہ السلام بھی شری مدبھگوت گیتا میں خود اپنی آمدِ ثانی کی خوشخبری پیشگوئی کے رنگ میں دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں دوبارہ اس دنیا میں نیا روپ لے کر آؤں گا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
यदा यदा हि धर्मस्य ग्लानिर्भवति भारत ।
अभ्युत्थानमधर्मस्य तदात्मानं सृजाम्यहम् ॥7॥
परित्राणाय साधूनां विनाशाय च दुष्कृताम् ।
धर्मसंस्थापनार्थाय सम्भवामि युगे युगे ॥8॥
(श्रीमद्भगवद्गीता, अध्याय 4)
یعنی’’جب جب دھرم (مذہب) کو نقصان پہنچنے لگتا ہے اور لامذہبی بڑھتی ہے، تب تب میں نیکوں کی حفاظت و بدوں کی سرکوبی اور دھرم (مذہب) کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے جُگ جُگ میں جنم لیتا ہوں۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑکےکرشن ہونے کے متعلق بعض الہامات و کشوف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے کرشن ہونے کے متعلق بعض الہامات بھی ہوئے اور کچھ کشوف بھی دکھائےگئے۔
روایت ۰۵؍مارچ۱۹۰۸ء: ایک خواب حضرت اقدسؑ نے بیان فرمایا کہ ’’ایک بار ہم نے کرشن جی کو دیکھا کہ وہ کالے رنگ کے تھے اور پتلی ناک، کشادہ پیشانی والے ہیں۔کرشن جی نے اُٹھ کر اپنی ناک ہماری ناک سے اور اپنی پیشانی ہماری پیشانی سے ملاکر چسپاں کردی۔‘‘(ملفوظات جلد۰۵صفحہ۴۵۹۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)
روایت۲۰؍اکتوبر۱۹۰۳ء: ’’شام کے وقت حضرت اقدسؑ نے ذیل کی رؤیا بیان فرمائی کہ ایک بڑا تخت مربع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے جس پر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ کرشن جی کہاں ہیں؟جس سے سوال کیا گیا وہ میری طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ یہ ہے۔پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذر کے طور پر دینے لگے۔اتنے ہجوم میں سے ایک ہندو بولا’’ہے کرشن جی رودر گوپال۔‘‘(ملفوظات جلد۶صفحہ ۱۵۸ایڈیشن۱۹۸۴ء)
حضرت کرشن علیہ السلام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےالہامات کا بھی ذکر ملتا ہے۔
٭…’’ہے کرشن رودر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ،روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۲۲۹)
٭…’’آریوں کا بادشاہ آیا۔‘‘ (تذکرہ،صفحہ ۳۱۳)
حضرت کرشن علیہ السلام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ بھی یاد رکھو کہ میرا یہ مذہب نہیں کہ اسلام کے سوا سب مذاہب بالکل جھوٹے ہیں۔میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ خدا جو مخلوق کا خدا ہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی قوم کی پرواہ کرے اور دوسروں پر نظر نہ کرے۔ہاں یہ سچ ہے کہ حاکم کےدورے کی طرح کبھی کسی قوم پر وہ وقت آجاتا ہے اور کبھی کسی پر۔میں کسی کے لئے نہیں کہتا۔خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے کہ راجہ رام چندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے۔میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نندیا یا توہین کرتا ہے۔اس کی مثال کنویں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے۔جہاں تک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اس راہ کو پائیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے۔پس جس شخص کا یہ مذہب ہو کہ وہ راستباز نہ تھے وہ قرآن شریف کےخلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر:۲۵) یعنی کوئی قوم اور امت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو۔‘‘(ملفوظات جلد ۴صفحہ۱۶۳ایڈیشن۱۹۸۸ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے الہام جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہندوؤں میں جو ایک نبی گذرا ہے جس کا نام کرشن تھا وہ بھی اس میں داخل ہے افسوس کہ جیسےداؤد نبی پر شریرلوگوں نے فسق و فجورکی تہمتیں لگائیں ایسی ہی تہمتیں کرشن پر بھی لگائی گئی ہیں اور جیسا داؤد خدا تعالیٰ کا پہلوان اور بڑا بہادرتھااور خدا اس سے پیار کرتا تھاویسا ہی آریہ وَرت میں کرشن تھا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱صفحہ۱۱۷)
’’ایک بزرگ اوتار جو اس ملک اور نیز بنگالہ میں بڑی بزرگی اور عظمت کے ساتھ مانے جاتے ہیں جن کا نام سری کرشن ہے۔وہ اپنے ملہم ہونے کادعویٰ کرتے ہیں اور ان کے پیرو نہ صرف ان کو ملہم بلکہ پرمیشر کرکے مانتے ہیںمگر اِس میں شک نہیں کہ سری کرشن اپنے وقت کا نبی اور اوتار تھااور خدا اس سے ہمکلام ہوتا تھا۔‘‘(پیغامِ صلح۔روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ۴۴۵)
’’یہ تو سچ ہے کہ راجہ رام چندر اور راجہ کرشن درحقیقت پرمیشر نہیں تھے مگر اس میں کیا شک ہے کہ وہ دونوں بزرگ خدا رسیدہ اور اوتار تھے۔خدا کی نورانی تجلی ان پر اتری تھی اس لئے وہ اوتار کہلائے۔‘‘(سناتن دھرم۔روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۴۷۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہندو صاحبان کو دعوتِ احمدیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اے ہندو بھائیو! اِسی طرح اِس زمانہ کا اوتار کسی خاص قوم کا نہیں۔وہ مہدی بھی ہے کیونکہ مسلمانوں کی نجات کا پیغام لایا ہے، وہ عیسیٰ بھی ہے کیونکہ عیسائیوں کی ہدایت کا سامان لایا ہے،وہ نہہ کلنک اوتاربھی ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے، ہاں اے ہندو بھائیو!تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی محبت کی چادر کا تحفہ لایا ہے۔‘‘(وہی ہمارا کرشن، انوار العلوم جلد۱۴صفحہ۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وہ ایک مضبوط اور مثالی رہنما کے طور پر اُبھرے اور میدانِ جنگ میں تاریخ ساز فتوحات کی حامل فوجوں کے سپہ سالار بنے۔وہ اپنی زندگی میں ایک عالی مرتبت روحانی نمونہ بن کر سامنے آئےاور پھر عمر بھر ایک عظیم مصلح کا کردار ادا کیا جس کی مثال ہندوستان میں خال خال ہی ملے گی۔‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ ۹۵)
اللہ تعالیٰ کی اس ہندوستانی نبی پر سلامتی ہو۔اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کی قوم کو بھی توفیق دے کہ وہ اس زمانہ کے کرشن کو شرح صدر سے قبول کرنے والے بنیں اور اسلامی نمونہ اپنا کر اپنی پیدائش کا مقصد پورا کرنے والے ہوں اور قول و فعل میں بعد میں آکر بھی سبقت لے جانے والے ہوں۔آمین یا رب العالمین
جزاکم اللہ تعا لیٰ ادارہ الفضل