آسمان اور زمین میں کوئی نہیں جو اللہ تعالیٰ کو عاجز کر سکے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۴؍ مارچ ۲۰۱۱ء)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارننگ ہے کہ اگر پہلے لوگ اس مخالفت کی وجہ سے اپنے بد انجام کو پہنچے تو آج بھی وہی خدا ہے اور اُسی طاقتوں کے مالک خدا کے وعدے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا زمین میں نہیں پھرے۔ اَوَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً کہ کیوں دیکھتے اور جائزہ نہیں لیتے کہ قوموں کی تباہی کی تاریخ تمہیں کیا بتا رہی ہے۔ آج کل تو ٹی وی پروگراموں میں، رسالوں میں، گھر بیٹھے ہی پُرانے دفینوں کے نظارے ہو جاتے ہیں کہ کتنی قومیں تھیں جو مختلف آفات کی وجہ سے دفنا دی گئیں، پوری کی پوری بستیاں زمین میں دفن ہو گئیں۔ بلکہ اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب زلزلے آتے ہیں تو کئی بستیاں دفن ہو جاتی ہیں۔ تو عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے یہ بھی بڑا عبرت کا مقام ہے۔ قرآنِ کریم میں ان کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو عقل کے ناخن لینے کی پہلے ہی ہدایت کر دی تھی کہ ہوش سے کام لینا، اس قسم کی حرکتیں نہ کرنا کہ پہلی تاریخ تم پر بھی دہرائی جائے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان باوجود اس تنبیہ کے اس عبرتناک تنبیہ کو بھول گئے۔ اللہ تعالیٰ ہر بڑے تکبر کرنے والے اور اپنی تدبیروں پر بھروسہ کرنے والے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں سرشار کو فرماتا ہے کہ تمہارے یہ تکبر کچھ کام نہیں آئیں گے۔ فرمایا وَکَانُوْآ اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً۔ کہ وہ بڑے طاقتور لوگ تھے جو تمہارے سے پہلے تھے۔ ایک تو وہ تمہاری آج کی حکومتوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ دوسرے اُن نبیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور تھے۔ دنیاوی حیثیت سے نبیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کی لاٹھی چلی، جب اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو فناکرنے کا ایک فیصلہ کیا تو سب فنا ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس سنّت کا ذکر فرما کر ہر زمانے کے طاقتور اور فرعون اور اُن کے پروردوں کو بتا دیا کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مقابلے میں تمہاری طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دوسرے اللہ والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی حمایت کا اعلان بظاہر اُن کی کمزور حالت کے باوجود اُنہیں طاقتور بنا دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اُن کے پیچھے ہوتی ہے۔ اور طاقتور سمجھے جانے والے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قصہ پارینہ بن جاتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں تھے اور کہاں گئے؟ پس اللہ والوں کے مخالفین کو ہوش کرنی چاہئے اور اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کا مقابلہ اللہ تعالیٰ سے مقابلہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وہ ہے کہ فرمایا وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعۡجِزَہٗ مِنۡ شَیۡءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الۡاَرۡضِ کہ آسمان اور زمین میں کوئی نہیں جو اللہ تعالیٰ کو عاجز کر سکے۔ پس ایک بیوقوف قوم جو ہے وہ یہی سمجھتی ہے یا بعض علاقوں کے، بعض ملکوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم طاقتور ہیں۔ ہم ان تھوڑے سے اور معمولی حیثیت کے لوگوں کو زیر کر لیں گے۔ دنیاوی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بیوقوفی نہیں، بڑی صحیح سوچ ہے کیونکہ طاقتور اور چالاک غالب آ جاتے ہیں۔ اور جب ہم دنیا کے حالات دیکھتے ہیں، آج کل بھی دیکھ لیں، طاقتور اور چالاک ہی ہیں جنہوں نے دنیا پر حکومت کی ہوئی ہے، حکومت کر رہے ہیں اور بظاہر مومن کہلانے والے اُن کے قبضے میں ہیں لیکن یہاں مقابلہ دنیاوالوں کا دنیا والوں کے ساتھ نہیں ہے۔ جب جماعت احمدیہ کا سوال آتا ہے، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا سوال آتا ہے تو دنیا والوں کامقابلہ اللہ والوں کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ ایک الٰہی جماعت کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ پس یہاں دنیاوی اصول نہیں چلے گا بلکہ یہاں وہ جیتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کھڑا ہو کر یہ اعلان فرمائے گا کہ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ جسے کوئی عاجز کر سکے۔
پس آج اس زمانے میں ہمارے لئے یہ خوشخبری ہے لیکن ساتھ ہی ایک ذمہ داری کی طرف بھی توجہ ہے کہ اُس اللہ والے سے حقیقی رنگ میں جُڑ کر اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کریں۔ اُن لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ کی سنّت خاص نشان دکھاتی ہے۔ اپنی عبادتیں، اپنی دعائیں، اپنے عمل اس نہج پر چلانے کی کوشش کریں جس کی نشاندہی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی ہے اور جس کو کھول کر زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی موعودنے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اگرہم نے اس اصول کو حقیقت میں پکڑ لیا تو چاہے پاکستان کے طاقتور ہوں یا انڈونیشیا کے یا بنگلہ دیش کے یا کسی عرب ملک کے یا کسی بھی ملک کے ہوں، وہ سب طاقتوں اور قدرتوں والے خدا کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ جس کے علم نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ اللہ والے ہی غالب آیا کرتے ہیں۔ جن کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید ہو وہی غالب آیا کرتے ہیں۔ پس ان مخالفین کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے اشارے کو سمجھیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو غالب آنا ہے۔ اُس وقت کوئی عذر کام نہیں آئے گا کہ یہ وجہ ہو گئی اور وہ وجہ ہو گئی۔ جب اللہ تعالیٰ کی آخری تقدیر چلتی ہے تو پھرسب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ:’’خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا اور انہیں دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے اور شریروں کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالتا ہے۔ شریر انسان کہتا ہے کہ مَیں اپنے مکروں اور چالاکیوں سے غالب آجاؤں گا اور مَیں راستی کو اپنے منصوبوں سے مٹا دوں گا۔ اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت اسے کہتی ہے کہ اے شریر میرے سامنے اور میرے مقابل پر منصوبہ باندھنا تجھے کس نے سکھایا؟ کیا تُو وہی نہیں جو ایک ذلیل قطرہ رحم میں تھا؟ کیا تجھے اختیار ہے جو میری باتوں کو ٹال دے؟‘‘۔ (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلدنمبر۷صفحہ۶۷)
… پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ مَیں وہ درخت ہوں جس کو مالکِ حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکریوطی اور ابوجہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے…‘‘۔
فرمایا کہ’’…اے لوگو! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو آخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے۔ اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ توقریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو۔ کاذبوں کے اَور مُنہ ہوتے ہیں اَور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا۔ مَیں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو۔ اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے‘‘۔ (اربعین نمبر۳، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۳۹۹-۴۰۰)
…انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے حق میں عظیم نظارے دکھانے والے بننے والے ہیں۔ اور اس کے لئے بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پس ان دنوں میں خاص طور پر، خاص طور پر دعاؤں پر، دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری پردہ پوشی بھی فرمائے اور ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو ہمیں اس ترقی کو دیکھنے سے محروم رکھے۔