اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں
جب ہم اُس معاشرے کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآن کریم نازل ہوا تو پھر اس کی اہمیت اور واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورتوں کے بھی حقوق قائم فرمائے اور مردوں کے بھی۔ اس زمانے میں جب عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی ان کے حقوق قائم فرمائے۔… قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا(النساء: ۲)اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں کے تقاضوں کا بھی خیال رکھو۔ یقیناًً اللہ تم پر نگران ہے۔… یہ آیت نکاح کے شروع میں بھی پڑھی جاتی ہے یعنی شادی کے بندھن میں بندھتے وقت یہ واضح کر دیا جاتا ہے کہ یہ بندھن مضبوط تبھی ہو سکتا ہے جب مرد کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ احساس کے لحاظ سے، جذبات کے لحاظ سے، عقل کے لحاظ سے، حقوق کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں اس لیے عورت کو کمتر نہ سمجھنا۔ اسی طرح عورت کو بھی سمجھایا گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوہ یہ بھی ہے کہ آپؐ عورتوں سے بعض اہم امور میں مشورہ بھی لے لیا کرتے تھے۔اس سوسائٹی میں جہاں اسلام سے پہلے عورت کی کوئی اہمیت نہیں تھی، مشورہ لینا تو ایک طرف اس کو اپنی معمولی رائے دینے کا بھی حق نہیں تھا۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ کہ اہم معاملات میں عورت سے مشورہ بھی لے لیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل نے عورتوں میں اتنی جرأت پیدا کر دی کہ وہ مردوں کی بیجا روک ٹوک کے سامنے بھی جواب دے دیا کرتی تھیں۔
(جلسہ سالانہ جماعتِ احمدیہ برطانیہ ۲۰۲۲ء کے تیسرے روز حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا اختتامی خطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴ تا ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء)