امپیریل کالج لندن کی مرکزی لائبریری ڈاکٹرعبدالسلام کے نام سے منسوب
شہرہ آفاق برطانوی تعلیمی درسگاہ امپیریل کالج لندن کے ترجمان مائیکل ہیگ (Michael Haig)کے مطابق کالج کی سینٹرل لائبریری معروف نوبیل انعام یافتہ ماہر طبیعیات کے اعزاز میں ’’عبدالسلام لائبریری ‘‘ کہلائی جائے گی۔
آپ نے بتایا کہ کالج کےجملہ سٹاف اور طلبہ کو جاری کردہ ایک مراسلہ میں یہ خوشخبری دیتے ہوئے کالج کے صدرپروفیسر ہیو بریڈی(Professor Hugh Brady) نے کہا کہ ’’نوبیل انعام یافتہ پروفیسر آف تھیوریٹیکل فزکس عبدالسلام نے امپیریل کالج کے لیے بالخصوص اور دنیائے طبیعیات اور سائنس کے لیے بالعموم عظیم الشان خدمات سرانجام دیں۔ ان کی خدمات کو پائندہ تررکھنا ہمارا فرض بنتا ہے ‘‘۔
پروفیسر بریڈی نے مزید کہا کہ ’’مجھے قوی امید ہے کہ نئی عبدالسلام لائبریری آنے والی نسلوں کی امنگیں بڑھانے کے لیے مہمیز کاکام دے گی‘‘۔
ترجمان کے مطابق امپیریل کے یونیورسٹی مینجمنٹ بورڈ نے لائبریری کا نام پروفیسر سلام سے منسوب کرنے کا فیصلہ شعبہ تاریخ گروپ کی سفارشات پرمبنی رپورٹ کی بنیاد پر کیا۔یہ رپورٹ تاریخی شخصیات نیز’’امپیریل‘‘ کے لیے ماضی میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والے ایسے افراد کے بارے میں ہے جن کی خدمات کوکماحقہ اس طرح نہیں سراہا جاسکا جس کے وہ حقدار ہیں۔
ایسی شخصیات کے بارے میں غور کیا جارہا ہے کہ یادگاروں، قدآور تصاویر یا ان کے نام سے سکالرشپس کے اجرا کے ذریعے ان کی خدمات کو تسلیم کیا جا ئے۔
اعلامیہ میں پروفیسر عبدالسلام کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پروفیسر سلام نے ۱۹۵۷ء میں امپیریل کالج جوائن کیا تھا۔ اپنے قیام کے دوران انہوں نے پروفیسر پال میتھیوز (Professor Paul T Matthews) کے ساتھ مل کر شعبہ تھیوریٹیکل فزکس کی داغ بیل ڈالی۔ ۱۹۷۹ء میں انہوں نے الیکٹروویک یونی فیکیشن تھیوری (electroweak unification theory) کے کارنامہ پر مشترکہ نوبیل انعام حاصل کیا۔
پروفیسر سلام ترقی پذیردنیا میں سائنس کی ترویج کے پرجوش حامی تھے۔چنانچہ ۱۹۶۴ء میں انہوں نے بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعیات International Centre for Theoretical Physics قائم کیا جہاں باقاعدگی کے ساتھ ترقی پذیرممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدان آتے اور اس مضمون سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے ماہرین سے براہ راست فیض یاب ہوتے ہیں۔
لائبریری کو نیا نام ’’عبدالسلام لائبریری‘‘ دینے کی رسمی تقریب اورجشن کا انعقاد نئے تعلیمی سال کے آغاز میں کیا جائے گا۔
https://www.imperial.ac.uk/news/245817/abdus-salam-library-named-honour-leading/
پاکستان کا قومی اخلاقی المیہ
قارئین کرام!کیا یہ المیہ نہیں کہ جس عبدالسلامؔ کے نام سے ’’غیر‘‘ قومیں اپنے تعلیمی اداروں کو منسوب کرنا قابل فخر گردانتے اور اپنی نئی نسلوں کے سامنے ان کے کارہائے نمایاں کو اجاگر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں،اسی عبدالسلامؔ کے ’’اپنے‘‘ ہم وطن اس کی تصویرپر کالک ملنا اور پھاڑنا اپنا فرض اوراپنے اس مکروہ اور کریہہ فعل کو قابل فخر گردانتے ہیں۔
/01/21/26345/https://www. alfazl. com/2021
پاکستان کے مین سٹریم اردو میڈیا،خصوصاً معروف اردواخبارات نے ہمیشہ کی طرح اس خبر کا بھی صحافتی بائیکاٹ کیا ہے۔ چندانگریزی اخبارات اور ایک آدھ غیر معروف اردو جریدے نے ہی پروفیسرسلام سے متعلق امپیریل کالج کے اس اعلامیہ کی خبر کو اپنے صفحات کی زینت بنانے کی جرأت دکھائی ہے۔
لیکن ان کے اس منفی رویہ پرپاکستان کی ’’شریف مگر گونگی‘‘ اکثریت میں سے سبھی اتنے خاموش بھی نہیں رہ سکے۔
چنانچہ ’’سائنٹیفک پاکستان‘‘ (Scientific Pakistan) نے جب اپنی فیس بک پرڈاکٹرسلام سے متعلق امپیریل کالج کی اس خبر کوشائع کیا تو ایک صارف شہباز صاحب نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بے ساختہ تبصرہ کیا:
’’ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں….
امپیریل کالج لندن جو کہ دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتا ہے، انہوں نے اپنے کالج کی مرکزی لائبریری کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھ دیا ہے۔ اور ہمارے یہاں ابھی تک لوگ پہلے آپ کا مسلک، مذہب، قوم، رنگ، نسل دیکھتے ہیں کہ کیا یہ ان کی مرضی کا بندہ/بندی ہے اور پھر جا کر دو لفظ کسی کی عظمت بیان کرنے کے لیے نکال پاتے ہیں۔ زندہ قومیں صرف اپنے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے مشترکہ ہیروز کو بھی یاد رکھتی اور سراہتی ہیں۔
دوسری طرف ادھر گزشتہ کچھ سال سے ڈاکٹر عبدالسلام کو سائنس کی کتابوں سے یکسر ہٹا دیا گیا ہے۔ آپ اپنے اردگرد کے لوگوں سے جنہوں نے میٹرک یا بارہویں تک ہی سائنس پڑھ رکھی ہو، ان سے پوچھیے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کون تھے اور دنیا ان کی اس قدر تعریف کیوں کرتی ہے؟‘‘
جبکہ فیس بک کی مذکورہ پوسٹ پر ایک اورصارف احمد صاحب فیضؔ کے مندرجہ ذیل اشعار کے پردہ میں ہی نوحہ خواں ہونے کو غنیمت سمجھے:
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
حوالہ : https://www.facebook.com/scientificpk
(پوسٹ یکم جولائی ۲۰۲۳۔تاریخ ماخذ: ۲۹؍جولائی ۲۰۲۳ء)
یہ چاردن کی خدائی تو کوئی بات نہیں !
فیضؔ کے مذکورہ بالا اشعار جس مشہورنظم (نثار میں تیری گلیوں کے…) سے لیے گئے،اس کا آخری بند ہدیہ قارئین ہے: ؎
گرآج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
(دستِ صبا۔ صفحہ ۶۵-۶۶ از نسخہ ہائے وفا صفحہ ۱۶۱-۱۶۲
شائع کردہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔دہلی۔انڈیا۔ایڈیشن ۲۰۰۵ء)