مشکلات میں صبر اور صلوٰۃ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ۔وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ (البقرۃ: 154-158)
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے اُن مومنوں کا نقشہ کھینچا ہے جو جب کسی ابتلا یا امتحان میں پڑتے ہیں تو ان کا ایمان کبھی ڈانوا ڈول نہیں ہوتا۔ بلکہ ابتلاؤں کے ساتھ ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور پہلے سے زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں۔ ان آیات کا مَیں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔ فرمایا کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوٰۃکے ساتھ مددمانگو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مُردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیدے۔ ان لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں۔
جیسا کہ پہلی آیت سے ظاہرہے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صبر اور صلوٰۃ کی تلقین فرمائی ہے۔ گویا یہ دو خصوصیات ایسی ہیں جو ایک مومن میں ہونی چاہئیں اور خاص طور پر ان کا اظہار مشکلات کے وقت یا ابتلا کے وقت ہونا چاہئے یہ بظاہر مختصر الفاظ ہیں لیکن اس کے وسیع معانی ہیں۔ صبر کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ انسان تکلیف پہنچنے پر شکووں اور رونے دھونے سے بچے اور ابتلا کو اگر وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے توبغیر کسی شکوے اور شکایت کے برداشت کرے۔ کیونکہ یہ شکوے اور کسی نقصان پر رونا جذباتی حالت میں بعض دفعہ ایسے فقرات منہ سے نکلوا دیتا ہے جو خداتعالیٰ سے شکوہ اور کفر بن جاتے ہیں۔ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ثبات قدم دکھاؤ، ثابت قدمی دکھاؤ۔ تیسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ان پر عمل کرو۔ اور پھر اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نواہی سے بچاؤ۔ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بچاؤ۔ پس صبر میں دو ذرائع استعمال کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ برداشت، ہمت اور حوصلہ رکھتے ہوئے ہر تکلیف اور مشکل اور امتحان پر ثابت قدم رہو۔ تمہارے قدموں میں کبھی کوئی لغزش نہ آئے۔ تمہارے ایمان میں لغزش نہ آئے۔ اور دوسرے یہ کہ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی ہیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارو اور خداتعالیٰ کے آگے جھکے رہو۔ اور پھر صبر کے ساتھ ہی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرکے دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی مزید تلقین فرمائی۔
مختلف لغات میں صلوٰۃ کے جو معنے لئے گئے ہیں ان کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ نماز کی طرف توجہ کرو، نماز کے علاوہ بھی دعاؤں پر زور دو۔ دین پر مضبوطی سے قائم رہو۔ استغفار کی طرف توجہ کرو۔ ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ کرو۔ آنحضرتﷺ پر درود بھیجو۔
پس اس آیت میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ خوبی بیان فرما دی کہ ہمیشہ ابتلا اور مشکلات میں کامل صبر اور حوصلے سے تکالیف کے دَور کو برداشت کرو۔ کسی حالت میں بھی تمہارے نیک اعمال بجا لانے اور اعلیٰ خلق کے اظہار میں کمی نہ آئے۔ اور نمازوں اور دعاؤں او ر ذکر الٰہی اور درُود شریف پڑھنے کی طرف اس تکلیف کے دور میں، ابتلا کے دور میں زیادہ توجہ دو اور اس سوچ اور عمل کے ساتھ جب تم خداتعالیٰ کی مدد مانگو گے اور اس پر استقلال سے قائم رہو گے، مستقل مزاجی دکھاؤ گے تو پھر ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ ابتلاؤں کا دَور جو عارضی ہے تمہیں کامیابیوں اور فتوحات سے ہمکنار کرے گا۔ ایک مومن کا آخری سہارا تو خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ یا تو کوئی احمدی، نعوذ باللہ، یہ کہے کہ مَیں خدا کو نہیں مانتا اور یہ ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ جہاں خداتعالیٰ پر ایمان کمزور ہوا وہاں وہ احمدی، احمدی ہی نہیں رہتا۔ خود احمدیت ختم ہو جاتی ہے، اسلام اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ پس جب ایک احمدی مسلمان کا خداتعالیٰ پر ایمان بالغیب ہے تو اس بات پر بھی کامل یقین ہونا چاہئے کہ میرا ہر حال میں سہارا خداتعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ پس ابتلاؤں اور امتحانوں میں جو دشمن کی طرف سے مختلف طریقوں سے ہم پر آتے ہیں، عقلمندی کا تقاضا بھی ہے اور ایمان کا بھی یہی تقاضا ہے کہ پھر اس ہستی سے تعلق میں پہلے سے زیادہ بڑھیں جو جائے پناہ بھی ہے اور ان ابتلاؤں اور امتحانوں سے نجات دلانے والی بھی ہے۔ اور جب ابتلاؤں میں صبر اور دعاؤں میں ایک خاص رنگ رکھ کر ہم خداتعالیٰ کے آگے جھکیں گے تو وہ جو سب پیار کرنے والوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، جو اس ماں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو اپنے بچے کی ہر تکلیف کو اس کی محبت سے مغلوب ہو کر دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں یہ کہہ کرکہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ میں تو یقیناً تمہاری مدد کروں گا جو صبر کرنے والے ہوں گے۔ ان لوگوں کی مدد کروں گا جو صبر کرنے والے اور دعا مانگنے والے ہیں۔ لیکن اگر تم میری مدد چاہتے ہوتو تمہیں بھی استقلال کے ساتھ میری بندگی کا حق ادا کرنا ہو گا اور بندگی کا حق اسی طرح اداہو گا جس طرح کہ مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ابتلاؤں میں اپنے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آنے دو اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاؤ۔ یہ آج ہراحمدی کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبات میں بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ پاکستان میں بھی اور بعض عرب ممالک میں بھی اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں بھی احمدیوں پر بعض سخت حالات آئے ہوئے ہیں یا ان کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان جیسے حالات تو کہیں بھی نہیں وہاں تو بہت زیادہ حالات بگڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں بعض جگہ ظلموں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ آئے دن مولوی کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اور حکومت بھی ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ یا بعض جگہوں پر حکومت کے کارندے یا افسران جو ہیں افراد جماعت پر سختیاں کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ دوسرے ملکوں میں بھی احمدیوں پر بعض جگہوں میں جمعہ اور نمازیں پڑھنے پر پابندی ہے۔ حکومتی ایجنسیوں کی طرف سے بلا کے کہا جاتا ہے کہ تم نے نمازیں نہیں پڑھنی اور جمعہ نہیں پڑھنا، جمع نہیں ہونا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے حالات میں پہلے سے بڑھ کر ایمان میں مضبوطی پیدا کر و اور یہ مضبوطی پیدا کرتے ہوئے ظاہری اعمال کو بھی بہتر کرو اور عبادتوں کے معیار بھی بہتر کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خداتعالیٰ تمہاری مدد کے لئے آتا ہے۔