آغا خانی اور بوہری اسماعیلی فرقے
قرآن مجید سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اورتاریخ مذاہب سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اور بینات یعنی روشن دلائل آنے کے بعد مرورِ زمانہ کے ساتھ ایک ہی مذہب کے پیروکار آپس میں اختلاف اور بعض اوقات بغاوت کرتے اور فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ تفرقہ کا یہ عمل اس وقت تیز تر ہوجاتا ہے جب عقائد میں اختلاف کے ساتھ ساتھ حصولِ اقتدار کی کشمکش بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اہل تشیع کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کیونکہ سنیوں کے برعکس ان کے ہاں زیادہ تر اختلاف و افتراق فروعی عقائد کی بجائے اقتدار اور جانشینی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے۔اگرچہ اہل تشیع بہت سے فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں لیکن زیرنظر مضمون میں ان کے دو بڑے فرقوں نزاری جنہیں عام طور پر آغاخانی کہا جاتا ہے اور مستعلی طیّبی جو بوہرہ کے نام سے مشہور ہیں، کا مختصر تجزیہ و تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کی تیاری میں اسماعیلی مؤرخ فرہاد دفتری کی کتاب The Ismailisجو کہ اسماعیلی جماعت کی طرف سے شائع کی گئی ہے اور ڈاکٹر زاہد علی کی کتاب ’’ہمارے اسماعیلی مذہب کا نظام اور اس کی حقیقت‘‘سمیت چند دیگر کتب و رسائل سے مدد لی گئی ہے۔
چند اہم شیعہ فرقے
سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ آغاخانی اور بوہرہ اثناعشری فرقہ کی طرح شیعہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺ پر رسالت و نبوت کے اختتام کے بعد سلسلۂ امامت، جو کہ ان کے اصولِ دین میں شامل ہے، کا آغاز ہوا۔ ان تینوں فرقوں میں سب سے بڑا اور معروف فرقہ اثناعشری ہے۔ جیسا کہ ان کے نام، اثناعشری،سے ظاہر ہے یہ فرقہ بارہ ائمہ پر ایمان رکھتا ہے جن میں سب سے پہلے امام حضرت علی ؓاور آخری امام حضرت محمد مہدی ہیں جو ان کے مطابق پانچ سال کی عمر میں پردۂ غیبت میں چلے گئے تھے، اب تک زندہ ہیں اور قیامت کے نزدیک ظاہر ہوں گے۔ اسی لیے انہیں القائم اور صاحب الزّمان بھی کہا جاتا ہے۔اھل تشیع کا دوسرا اَور تیسرا بڑا گروہ بالترتیب آغا خانی اور بوہرہ فرقے ہیں جو خود کو امامی اسماعیلی شیعہ کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ اھل تشیع کے چند اور بھی چھوٹے چھوٹے گروہ مثلًا زیدیہ وغیرہ بھی ہیں لیکن اس مضمون میں اہل تشیع میں ہونے والی ان تین تقسیموں کے نتیجے میں بننے والے تین بڑے فرقوں کا مختصر ذکر کیا جائے گا۔
مشترکہ عقائد
امامت اور تقیہ تمام شیعہ فرقوں کے مشترک عقائد ہیں۔سیاسی یا دیگر وجوہ کی بنا پر اپنے اصل عقائد کو چھپانے کا نام تقیہ ہے۔
مشترکہ ائمہ
اثنا عشری، آغاخانی اور بوہرہ اسماعیلی شیعہ حضرت علیؓ سے لے کر چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؒ تک کی امامت پر متفق ہیں۔
مشترکہ مسئلہ
شیعہ گروہوں میں جانشینی کے مسئلہ پر اختلاف ایک مشترکہ مسئلہ رہا ہے جس کی بنا پر ان میں تقسیم درتقسیم ہوتی رہی۔
باطنی عقائد
آغاخانی اسماعیلی عقائد میں تاویل یعنی باطنیت ایک اہم اصول ہے جس کے مطابق قرآن کی آیات کے ظاہری معانی کے ساتھ ساتھ باطنی معانی بھی ہیں جن کی تاویل کا حق صرف امام کو ہی حاصل ہے۔ ہر زمانے میں اسماعیلی امام ان آیات کی مختلف بلکہ متضاد تاویلات کرتے رہے ہیں۔ان کے ہاں شریعت موقوف ہے اور یہ ارکانِ ایمان کی بھی باطنی تشریح کرتے ہیں۔ لہٰذا حج اور عمرہ کی بھی باطنی تشریح کرتے ہیں اور مکہ مدینہ نہیں جاتے۔ ان کے ہاں مساجد نہیں ہوتیں بلکہ جماعت خانے ہوتے ہیں جہاں یہ جمع ہوکر اپنی مذہبی رسومات بجا لاتے ہیں اور غیراسماعیلی لوگوں کو وہاں داخلہ کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک طویل عرصہ تک بوہری لوگ بھی ظاہری اعمال کی ادائیگی نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ ابھی بھی یہ باطنیت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کے سابقہ داعی مطلق محمد برہان الدین صاحب نے انہیں شریعت پر عمل کرتے ہوئے ظاہری اعمال یعنی نماز روزہ حج وغیرہ بجا لانےحکم دیا تھا۔ خاکسار نے خود حج اور عمرہ کے دوران انہیں مکہ مدینہ میں دیکھا ہے۔ ان کے ہاں جماعت خانوں کے ساتھ ساتھ مساجد بھی تعمیر کی جاتی ہیں۔ ان کی فقہ قاضی النعمان کی کتاب دعائم الاسلام پر مبنی ہے۔
تقسیم در تقسیم
اب ان کے ہاں تقسیم در تقسیم کی بات کرتے ہیں۔
پہلی تقسیم۔زیدیہ:چوتھے امام علی بن حسین المعروف زین العابدینؒ کے بیٹے زید ؒ نے اپنے بھائی محمد الباقرؒ کے مقابل پر دعویٰ امامت کیا لیکن شیعوں کی اکثریت نے محمد الباقرؒ کو ہی اپنا پانچواں امام تسلیم کیا۔ زیدی فرقہ کی اکثریت یمن میں رہتی ہے۔
دوسری تقسیم۔اسماعیلی: شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادقؒ نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنے بعد امام نامزد کیا تھا لیکن اسماعیل اپنے والد کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے موسیٰ کاظم ؒکو ساتواں امام نامزد کردیا۔ اثنا عشری فرقہ موسیٰ کاظم اور ان کے بعد پانچ مزید ائمہ پر ایمان رکھتا ہے۔ حضرت جعفر صادقؒ کے تین دیگر بیٹوں نے بھی اپنے والد کی جانشینی کا دعویٰ کیا لیکن وہ ناکام رہے اور شیعوں کی اکثریت نے موسیٰ کاظمؒ کو اپنا ساتواں امام مان لیا۔ ایک دوسرے گروہ نے یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ امامت اسماعیل کو دی جاچکی تھی اس لیے اب سلسلۂ امامت انہی کی اولاد میں چلے گا۔چنانچہ انہوں نے اسماعیل کے بیٹے محمد کو اپنا امام قرار دے دیا۔ یہ لوگ اسماعیل کی نسبت سے اسماعیلی کہلائے۔ حضرت جعفر صادقؒ کی وفات کے بعد محمد بن اسماعیل مدینہ چھوڑ کر چلے گئے اور روپوشی کی زندگی گزارنے لگے۔ اسی لیے انہیں ’’المکتوم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اسماعیلی مؤرخ فرہاد دفتری کے مطابق محمد بن اسماعیل کے بعد ڈیڑھ سو سال تک ابتدائی اسماعیلی تحریک کے متعلق معلومات انتہائی حد تک نامعلوم ہیں اور محمد بن اسماعیل کے بعد نہ تو ان کی اولاد میں سے کسی کا نام ملتا ہے اور نہ ہی ان کے کسی بھی فرزند کے دعویٰ امامت کا کوئی سراغ ملتا ہے۔ چنانچہ ابتدائی اسماعیلی صرف سات ائمہ کو مانتے تھے۔یہاں تک کہ۲۸۶H/۸۹۹CE میں عبداللہ المہدی کے نام سے ایک شخص نمودار ہوا جس نے محمد بن اسماعیل کی اولاد میں سے ہونے کا دعویٰ کردیا اور خود سے پہلے اسماعیلی داعیین کے لیے منصب امامت کا دعویٰ کرکے انہیں ’’ائمہ المستورین‘‘کا لقب دیا۔ اس شخص نے نہایت تیزی سے اسماعیلی دعوت پھیلانی شروع کردی اور بالآخر مصر اور دیگر ملحقہ علاقوں میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا جسے اس نے فاطمی خلافت کا نام دیا۔ چنانچہ عبداللہ المہدی پہلا فاطمی خلیفہ مانا جاتا ہے۔
تیسری تقسیم۔قرامطہ:حمدان قرمط ایک اسماعیلی داعی تھا۔ اس نے عبداللہ المہدی کے دعویٰ امامت کو رد کردیا اور فاطمی خلافت سے خود کو علیحدہ کرکے اپنا ایک الگ سے جنگجو گروہ بنالیا جو اس کے نام کی مناسبت سے قرامطہ کہلایا۔ ان کے مطابق محمد بن اسماعیل آخری امام تھے۔ اس گروہ نے اسلامی دنیا میں خوب خونریزی اور قتل و غارت کی۔ یہاں تک کہ ۹۳۰ء میں کعبہ پر حملہ کرکے حجر اسود اکھاڑ کر لے گئے جسے بعد میں عباسی خلیفہ نے انہیں بھاری رقم ادا کرکے واپس لیا۔
چوتھی تقسیم۔ نزاری :اسماعیلی گروہ میں چوتھی تقسیم اس وقت ہوئی جب ساتویں فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ کی وفات پر اس کی جانشینی کے متعلق اس کے دو بیٹوں نزار اور احمد المستعلی کے درمیان اختلاف ہوا۔ نزار کو امام ماننے والے نزاری کہلاتے ہیں جنہیں اب آغا خانی کے نام سے جانا جاتا ہے اور جن کی امامت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان کے موجودہ سربراہ کریم آغا خان چہارم انچاسویں امام ہیں جنہیں ان کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوم نے۱۹۵۷ءمیں ان کے والد پرنس علی خان اور چچا پرنس صدرالدین کی بجائے امام مقرر کیا۔اس وقت ان کی عمر محض۲۰ برس تھی۔ اسماعیلی انہیں مولانا حاضر امام کہہ کر پکارتے ہیں۔
ایک اہم نزاری اسماعیلی تاریخی شخصیت
حسن صباح ایک اسماعیلی داعی اور نزار کا حمایتی تھا۔ نزار کے قید کیے جانے اور وفات کے بعد اس نے قلعہ الموت سے اسماعیلی دعوت کا کام جاری رکھا اور ایک گروہ تیار کیا جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ لوگ حشیش استعمال کرتے تھے اور اس کے زیراثر انہیں جو بھی کام کہا جاتا تھا اسے اپنی جان فدا کرتے ہوئے بھی پورا کرتے تھے۔ اس لیے انہیں فدائین اور حشیشین بھی کہا جاتا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انگریزی لفظ “assassin” حشیشین سے ہی نکلا ہے۔ ان لوگوں نے بہت سے سرکردہ اور بزرگ سُنّی علماء کو قتل کیا۔
مستعلی
المستنصر باللہ کے بیٹے احمد المستعلی کو ماننے والے بوہرہ کہلاتے ہیں۔ لفظ بوہرہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ لوگ تجارت پیشہ ہیں اور ان کی اکثریت گجرات بھارت میں مقیم ہیں۔ گجراتی زبان میں تاجر کو بوہرہ کہا جاتا ہے لہٰذا انہیں بوہرہ کہا جانے لگا۔ بائیسویں امام اور آخری فاطمی خلیفہ ابوالقاسم طیّب کے بعد،جس کی نسبت سے بوہرہ لوگ خود کو مستعلی طیّبی اسماعیلی شیعہ کہتے ہیں، دورِ ستر یعنی پوشیدگی کا دور شروع ہوگیا اور اب اس گروہ کے سربراہ کو امام کی بجائے داعی مطلق کہا جاتا ہے جس کے لیے فاطمی یا علوی ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ابوالقاسم طیّب بھی دیگر چند شیعہ ائمہ کی طرح پردۂ غیبت میں ہے یا امامت ان کی نسل میں جاری ہے کیونکہ بوہرہ لوگ اپنے عقائد کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک داعی مطلق کے علاوہ کوئی بھی بوہرہ اپنے زمانے کے امام کا نام اور مقام نہیں جانتا۔
پانچویں تقسیم۔دروز:فاطمی خلفاء میں ایک اور تقسیم اس وقت ہوئی جب سولہویں امام اور چھٹے فاطمی خلیفہ الحاکم کے متعلق الوہی منصب کا دعویٰ کیا گیا۔ان کے متعلق بھی یہی مانا جاتا ہے کہ وہ غائب ہیں اور دوبارہ ظاہر ہوں گے۔ ان کے ماننے والے دروز کہلاتے ہیں۔
چھٹی تقسیم۔داؤدی بوہرہ:مستعلی اسماعیلی فرقہ کے آخری امام ابوالقاسم طیّب کی غیبت کے بعد اس گروہ کی سربراہی داعی مطلق کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس سربراہی پر بھی اختلافات پیدا ہوتے رہے۔ نتیجۃً یہ فرقہ داؤدی، سلیمانی اور علوی گروہوں میں تقسیم ہوگیا۔اس وقت داؤدی فرقہ اکثریت میں ہے جس کے موجودہ سربراہ مفضل سیف الدین صاحب ہیں۔اس فرقہ کے زیادہ تر لوگ بھارت کے شہر سورت، ممبئی اور گجرات وغیرہ اور کراچی پاکستان میں رہتے ہیں۔
منقطع سلسلہ نسب
بوہرہ اور آغا خانی اسماعیلیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے امام، چاہے وہ غائب ہوں یاموجودہ حاضر امام کریم شاہ الحسینی آغا خان، براہِ راست نبی اکرم ﷺ کی آل میں سے ہیں۔ جبکہ فرہاد دفتری کی محولہ بالا کتاب کے مطابق یہ سلسلہ نسب دو جگہ سے منقطع ہے۔ پہلا اس وقت جب محمد بن اسماعیل کی روپوشی کے ڈیڑھ سو سال بعد ایک شخص عبداللہ المہدی نے ان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا جسے تاریخی طور پر غلط سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا غیرمستند دعویٰ بھی اسی کتاب میں مذکور ہے۔ فرہاد دفتری لکھتے ہیں کہ نزار کو اس کے بھائی نے قید کردیا جس کے بعد اس کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا۔ اس کے ایک حامی داعی حسن صباح نے قلعہ الموت میں نزار کو امام قرار دیتے ہوئے اس کے نام پر اسماعیلی دعوت کو جاری کیا۔ حسن صباح کے بعد اس دعوت کی سربراہی بزرگ امید نامی ایک شخص کو ملی۔ الموت کے تیسرے سربراہ محمد بن بزرگ امید کی۵۵۷/۱۱۶۲ میں وفات تک یعنی ۷۰ سال تک اسماعیلیوں کی کسی امام تک کوئی رسائی نہیں تھی اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزار نے اپنے کسی بیٹے کو اپنا جانشین اور اپنے بعد امام مقرر کیا ہو۔محمد بن بزرگ امید کے بیٹے حسن نے جسے اسماعیلی تاریخ میں اس کے اصل نام کی بجائے ’’علیٰ ذکرہ السلام‘‘کے لقب سے پکارا جاتا ہے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اصل میں نزار بن المستنصر باللہ کی اولاد میں سے ہے اور امام ہے۔ چنانچہ اسماعیلی سرکاری اور مستند تاریخ کے مطابق موجودہ حاضر امام کریم آغا خان کا یہ دعویٰ محل نظر ٹھہرتا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب براہ راست نبی اکرمﷺ سے ملتا ہے۔