خدا کا یہ کامل نبی ہے جس کے ہاتھ میں آ کر عام انسان بھی پاک ہو جاتے ہیں
سورۃ جمعہ میں قدوس لفظ کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ ’’دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ اَلْقُدُّوْسہے، اس کے متعلق فرمایا یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ آیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ(الجمعۃ:3) وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیز ہ ہو۔ اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھر یُزَکِّیْھِم ان کے اعمال کو پاک کرے‘‘۔ (فضائل القرآن(2) انوارالعلوم جلد 11صفحہ130)
پھر آپؓ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ القدوس کے مقابل رسول کا کام یہ بتایا۔ وَیُزَکِّیْھِمْ کہ دنیا کو پاک کرتا ہے۔ عالِم کی علامت کیا ہوتی ہے۔ یہی کہ وہ دوسروں کو پڑھاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے ذریعہ عالِم ہو جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کا ثبوت یہ ہے کہ اُس کی طرف سے آنے والے دنیا کو پاک کرتے ہیں۔ محمد رسول اللہﷺ گندے لوگوں کو لیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں آ کر وہ پاک ہو جاتے ہیں ‘‘۔ (احمدیت کے اصول۔ انوارالعلوم جلد 13صفحہ353)
پس قدوس خدا کا یہ کامل نبی ہے جس کے ہاتھ میں آ کر عام انسان بھی پاک ہو جاتے ہیں۔ پس ہر ایک کو چاہئے کہ اگر پاک ہونا ہے اور اگر سچے مومن بننا ہے تو ان کے ہاتھ میں آنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قرآن کریم کے جو اوامرو نواہی ہیں، جو کرنے کا حکم ہے اور نہ کرنے کی باتیں ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ اگر ہم عمل نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والے نہیں کہلا سکیں گے، محمد رسول اللہﷺ کی طرف آنے والے نہیں کہلا سکیں گے اور نتیجۃً صفت قدوسیّت سے فیض پانے والے نہیں بن سکیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ جو آپؐ کو قدوس خدا نے عطا فرمائی کے بارے میں عرب کا نقشہ کھینچ کر تحریر فرماتے ہیں کہ اس وقت کی عرب کی حالت کو دیکھو جو برائیوں میں گھرے ہوئے تھے، ہر قسم کی ضلالت و گمراہی ان کی پہچان تھی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ قوم کبھی پاک ہو سکتی ہے یا ان کو کبھی عقل آ سکتی ہے۔ یا یہ لوگ عام اخلاق کے اختیار کرنے والے بھی بن سکتے ہیں کجا یہ کہ باخدا بن جائیں۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ جو میرے اس پیارے کے ساتھ تعلق جوڑے گا وہ پاک ہو گا بلکہ روح القدس سے حصہ پائے گا اور دنیا نے پھر دیکھا کہ قوم میں انقلاب آیا۔
اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص اس بات کو غور کی نظر سے دیکھے کہ انہوں نے اپنی پہلی چراگاہوں کو کیونکر چھوڑ دیا‘‘ یعنی جو ان کے شوق تھے، جو ان کی حرکتیں تھیں، جو باتیں تھیں، جو عمل تھے، جس میں وہ پھرا کرتے تھے، جس کو بہت اچھا سمجھتے تھے اس کوکیونکر چھوڑ دیا۔ ’’اور کیونکر وہ ہواوہوس کے جنگل کو کاٹ کر اپنے مولا کو جا ملے۔ تو ایسا شخص یقین سے جان لے گا کہ وہ تمام قوت قدسیہ محمدیہ کا اثر تھا‘‘۔ یہ سب تبدیلی جو آئی وہ آنحضرتﷺ کی قوت قدسیہ کے اثر کے تحت تھی ’’وہ رسول جس کو خدا نے برگزیدہ کیا اور عنایات ازلیہ کے ساتھ اس کی طرف توجہ کی اور آنحضرتﷺ کی قوت قدسیہ کو سوچ کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لئے گئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچائے گئے اور درجہ بدرجہ برگزیدگی کے مقام تک منتقل کئے گئے‘‘ یعنی بزرگی کا اور پاکی کا مقام ہر لمحہ ہر درجہ بڑھتا ہی گیا۔ ’’اور آنحضرتﷺ نے ان کو چارپایوں کی مانند پایا کہ وہ توحید اور پرہیز گاری میں سے کچھ بھی نہیں جانتے تھے‘‘ یعنی جانوروں کی طرح تھے نہ ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پتہ تھا، نہ پرہیز گاری کا پتہ تھا۔ برائیوں میں مبتلا تھے ’’اور نیکی بدی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے۔ پس رسول اللہﷺ نے ان کو انسانیت کے آداب سکھلائے اور تمدن اور بود وباش کی راہوں پر مفصل مطلع کیا‘‘۔ (نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ32-31)
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’تیسرا دروازہ معرفت الٰہی کا جو قرآن شریف میں اللہ جلّشانہٗ نے اپنی عنایت خاص سے کھول رکھا ہے برکات روحانیہ ہیں جس کو اعجاز تاثیری کہنا چاہئے۔ یہ بات کسی سمجھدار پر مخفی نہیں ہو گی کہ آنحضرتﷺ کا زادبوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا رہا ہے۔ اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خواری اور قمار بازی وغیرہ فسق کے طریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا‘‘ یہ سب برائیاں ان میں تھیں ’’اور چوری اور قزّاقی اور خونریزی اور دختر کشی اور یتیموں کا مال کھا جانے‘‘ یعنی ڈاکے ڈالنا، قتل کرنا، بیٹیوں کو مارنا، یتیموں کا مال کھا جانا ’’اور بیگانہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا۔ غرض ہر یک طرح کی بری حالت اور ہر یک نوع کا اندھیرا اور ہر قسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہور ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشرطیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو، اس سے انکار نہیں کر سکتا‘‘۔ یعنی یہ اتنی مشہور بات ہے کہ کوئی متعصب آدمی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا۔ ’’اور پھر یہ امر بھی ہر یک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یاوہ اور نا پارسا طبع لوگ‘‘ وحشی تھے، بیہودہ باتیں کرنے والے بیہودہ لوگ، بالکل ناپاک لوگ جن کو کسی چیز کا پتہ ہی نہیں تھا۔ ’’اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہو گئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصوم ؐ نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدّل کر دیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہو گئے اور محبت دنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں، اپنے مالوں، اپنے عزیزوں، اپنی عزتوں، اپنی جان کے آراموں کو اللہ جلّشانہ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہ دونوں سلسلے ان کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے، قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پُر آب ہو جاتا ہے۔ پس وہ کیا چیز تھی جو اُن کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی۔ وہ دوہی باتیں تھیں ایک یہ کہ وہ نبی معصومؐ اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا‘‘ بہت اثر رکھنے والے تھے۔ ’’ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہو گا۔ دوسری خدائے قادر مطلق حیّ و قیوّم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں۔ بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں‘‘۔ یہ بڑی غیر معمولی چیزیں ہیں۔ ’’کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی۔ کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 76تا 78 حاشیہ)