خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 11؍اگست 2023ء
آخری شرعی کتاب قرآن کریم جس کا پڑھنا، سننا، رکھنا بھی پاکستان میں احمدیوں پر بین (Ban) ہے، ایک بہت بڑا جرم ہے۔ وہی کتاب ہے جس کے ذریعےجماعت احمدیہ دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے اور دنیا کی اصلاح کر رہی ہے
آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جماعت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور جھوٹا پروپیگنڈا ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے خلاف ہوتا ہے(امام تَمانے)
ہمارے مخالف جو پاکستان میں بھی ہیں صرف مخالفت برائے مخالفت نہ کریں بلکہ ہماری تعلیم کو سنیں، پڑھیں، سمجھیں۔ پھر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں۔
یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بار بار فرمایا ہے تم لوگ یونہی مخالفت کرتے ہو میری بات تو پہلے سنو
(پاکستان میں مخالفین) اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح نقصان پہنچائیں لیکن ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن خود ہی یہ سب مر جائیں گے
آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو قرآن کریم کے مرتبہ و مقام کو بلند کرنے اور اس کی حقیقی تعلیم بتانے میں کوشاں ہے
میں نے بہت عرصے تک بہت سارے مذاہب کا مکمل جائزہ لیا ہے مگر اب میں اس نتیجےپر پہنچا ہوں کہ
جماعت احمدیہ ہی تمام مسائل کا حل دیتی ہے جس سے میرے دل و دماغ کو تسلی ملتی ہے۔ مجھے یہاں پر روحانیت محسوس ہوتی ہے (چیک ریپبلک کا ایک نوجوان)
جماعت احمدیہ پر بارش کی طرح نازل ہونے والی تائیدات و افضال الٰہیہ کے ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان
کووڈ (Covid) وبا کے حوالے سے احباب جماعت کو احتیاط برتنے کی تلقین
مکرمہ امۃ الہادی صاحبہ، مکرم ثاقب کامران صاحب نائب وکیل سمعی و بصری تحریک جدید، عزیزم آرب کامران اور مکرم پروفیسرڈاکٹر محمد اسحاق داؤدا صاحب آف بینن کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 11؍اگست 2023ء بمطابق 11؍ظہور 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق ؑکی جماعت پر ہر دن ہوتی ہے اس کا ذکر جلسے کی رپورٹ میں ہوتا ہے۔
وہاں مَیں نے بتایا تھا کہ مختصر وقت میں سب کچھ بیان کرنا ممکن نہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے، کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو جماعت کے بارے میں کھولتا ہے، کس طرح ایمانوں کو اللہ تعالیٰ مضبوط فرماتا ہے، کس طرح دشمنوں کو ناکام کرتا ہے۔ بیشمار واقعات لوگ لکھتے رہتے ہیں ان میں سے چند میں آج بھی بیان کروں گا کیونکہ یہ واقعات بہت سے احمدیوں کے دلوں میں ایمان کی مضبوطی کا بھی باعث بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کس طرح تبلیغ کے مختلف ذرائع سے سعید روحوں کو جماعت میں لا رہا ہے اور نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں
اس بارے میں
کونگو کنشاسا
میں جہاں ہمارا ایف ایم ریڈیو ہے وہاں کے لوکل مشنری حمید صاحب لکھتے ہیں کہ اویرہ (Uvira) شہر میں ہمارے ریڈیو پروگرام کو سُن کر لوکل امام مسجد عیسیٰ صاحب نے رابطہ کیا اورپھر وہ مشن ہاؤس آئے۔ جماعت کا پیغام سمجھا اور بیعت کر لی۔ نہ صرف بیعت کی بلکہ اپنے گاؤں کلیبا اندیزی (Kiliba Ondezi) جا کر تبلیغ بھی شروع کر دی۔ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں چوبیس افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔ جب ہمارے مرکزی مبلغ سلسلہ نے وہاں دورہ کیا تو مزید آٹھ افراد نے بیعت کی۔ اس طرح وہاں جماعت قائم ہو گئی۔ اب ایک طرف تو جو نیک فطرت امام ہیں ان کو یہ پیغام سن کر اس کو سمجھنے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے اور دوسری طرف پاکستانی علماء ہیں جو سوائے مخالفت کے اَور کچھ نہیں جانتے۔
کونگو کنشاسا
کے صوبے مائن دونبے (Mai-Ndombe) کے ایک گاؤں میں عمر منور صاحب معلم ہیں۔ ان کو تبلیغ کے لیے وہاں بھیجا گیا۔ وہابی مسلمانوں کی ایک مسجد میں بھی وہ گئے۔ لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کیے۔ بعض شریر نوجوانوں نے مسجد سے نکل کر شور مچانا شروع کر دیا اور پتھر مارنے شروع کر دیے۔ اب کہتے ہیں کہ جی افریقہ میں تو لوگ اَن پڑھ ہیں اس لیے باتیں سن لیتے ہیں۔ وہاں بھی مخالفت ہے۔ معلم صاحب پتھروں سے بچاؤ کرتے ہوئے باقی لوگوں کو تبلیغ کرتے رہے اور جو لوگ تھے وہ ان کے صبر و تحمل کے رویے سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے بعض لوگ جو اس وجہ سے نکل گئے تھے پھر دوبارہ مسجد میں آ گئے اور ان کی باتیں سننے لگے۔ جماعت کے متعلق سوالات ہوئے، اعتراضات پیش کیے، بہت سارے سوالوں کے جواب دیے۔ ایک شریر نوجوان نے جو بڑھ بڑھ کے باتیں کر رہا تھا، کہا کہ تم لوگ لندن جا کر حج کرتے ہو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حج مکےمیں کیے تھے۔ معلم صاحب نے اس سے سوال کیا کہ تم یہ بتاؤ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج کیے تھے؟ اس پر اس نوجوان نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو جب سے پیدا ہوئے انہوں نے تمام عمر حج کیے۔ اس پر معلم نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف ایک ہی حج کیا ہے۔ مسجد میں بیٹھے امام اور دیگر بڑی عمر کے لوگوں نے اس نوجوان کو برا بھلا کہا کہ تم لوگ سب فساد کر رہے ہو۔ بہرحال وہ لوگ جو فساد کرنے والے تھے شرمندہ ہو کر وہاں سے چلے گئے۔ بعد میںامام صاحب جماعت کے وفد کو اپنے گھر لے گئے جہاں ان کے علاوہ دو اَور ائمہ بھی تھے اور کچھ اَور افراد بھی تھے اس طرح چالیس، بتالیس افراد نے وہاں جماعت احمدیہ کی اس تبلیغ سے متاثر ہو کر بیعت کر لی اور یہاں بھی ایک نئی جماعت قائم ہو گئی۔
گنی بساؤ
سے امام تَمَانے کہتے ہیں کہ آج تک ہم جماعت کے بارے میں یہی سنتے آئے ہیں کہ آپ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و حدیث کو نہیں مانتے مگر آج ہم نے جلسےکا پروگرام دیکھا تھا۔ کہتے ہیں آج اس جلسے کی برکت سے ہم نے آپ کے خلیفہ کو دیکھا اور سنا ہے۔ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و حدیث کی نصائح فرمائی ہیں۔ کہتے ہیں
آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جماعت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور جھوٹا پروپیگنڈا ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے خلاف ہوتا ہے۔
امام صاحب اسی مسجد کے امام تھے کہتے ہیں میں آج سے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں اور میں اپنے تمام لوگوں کو جماعت کی تبلیغ کروں گا۔ اللہ کے فضل سے یہ تبلیغ کر بھی رہے ہیں اور ان کی تبلیغ سے نئی جماعتیں بھی قائم ہو رہی ہیں۔
پس ہمارے مخالف جو پاکستان میں بھی ہیں صرف مخالفت برائے مخالفت نہ کریں بلکہ ہماری تعلیم کو سنیں، پڑھیں، سمجھیں۔ پھر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بار بار فرمایا ہے تم لوگ یونہی مخالفت کرتے ہو میری بات تو پہلے سنو۔
(ماخوذ ازسراج منیر، روحانی خزائن جلد12 صفحہ4)
امیر صاحب
لائبیریا
نے لکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مخالفت کے باوجود ہماری مدد فرماتا ہے۔ دو سال پہلے نمبا (Nimba) کاؤنٹی کے ایک ٹاؤن گینا گلے (Ganaglay) کےکچھ لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ پہلے ان کا تعلق عیسائیت سے تھا یا لامذہب تھے۔ بیعت کے بعد ان احباب کی تربیت اور نمازوں کا انتظام کسی گھر کے برآمدے میں کیا گیا۔ لوکل مبلغ مرتضیٰ صاحب نے ایک دن نماز کے بعد احباب کو دعا کی تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مسجد بنانے کے لیے کوئی مناسب زمین عطا فرمائے۔ یہ علاقہ عیسائیت اور لامذہب لوگوں کا گڑھ ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کو اچھا نہیں سمجھتے اس لیے مسجد کے لیے زمین کا حصول بہت مشکل تھا۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ ایک شخص مسٹر ڈاہن (Dahn) جو لامذہب تھے اور خدا کی ہستی پر بھی یقین نہیں رکھتے وہاں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کھڑے ہو کےکہا کہ جب سے مشنری نے ہمارے گاؤں میں آنا شروع کیا ہے مَیں نے ان کا بہت اچھا اخلاق دیکھا ہے۔ سب لوگوں سے ملتے ہیں، ایک ہی برتن میں کھانا کھا لیتے ہیں حتی کہ میں جو خدا کو نہیں مانتا اور پکا شرابی ہوں میرے پاس بھی آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں۔ مجھے اس طرح کے اخلاق پہلے دیکھنے کو نہیں ملے۔
میرے پاس ایک پلاٹ ہے جس پر میں نے اپنا گھر بنانے کا ارادہ کیا تھا لیکن آج میں اس پلاٹ کو مسجد کے لیے دیتا ہوں۔
چنانچہ کچھ دن کے بعد باقاعدہ انہوں نے بیعت بھی کر لی۔ شراب کو بھی کلیة ًچھوڑ دیا۔ یہ انقلاب پیدا ہوا اور اخلاص میں ترقی کرتے گئے۔ اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ لوگوں نے دیکھا کہ یہ بالکل ہی تبدیل شدہ انسان بن گئے ہیں۔ یہاں مسجد کی تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا۔ لوگوں نے چیف کے پاس اعتراض کیا کہ وہاں مسجد نہیں بننے دینی لیکن مسٹر ڈاہن (Dahn) نے بڑی جرأت سے کہا کہ مَیں نے مسجد کو جگہ دی ہے اور یہاں مسجد بنے گی۔ چنانچہ یہ مسجد مکمل بھی ہو گئی اور اس علاقے میں یہ پہلی مسجدہے۔ اس کا نام مسجد نور ہے۔ اس طرح غیر مسلم اور اللہ تعالیٰ کو نہ ماننے والے دہریت کے جو لوگ ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین رکھ رہے ہیں بلکہ اسلام کو سچا مذہب سمجھ کر تسلیم کر رہے ہیں۔
برونڈی میں
ایک قصبہ ہے نیانزیلک (Nyanza Lac)۔ یہاں جماعت کی کافی زیادہ مخالفت ہےکیونکہ اس علاقے میں مسلمان بھی ہیں۔ سنی مسجد کے امام نے ہر طرح سے کوشش کی کہ جماعت کی مسجد کو بند کروایا جائے۔ اس کے لیے وہ سرکاری عہدیداروں سے بھی ملا لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ ہمارے معلم حمزہ اِندُووِیْمَانَاصاحب کو اس مسجد کے امام نے سوال و جواب کے لیے بلایا۔ سوال و جواب میں وفات مسیح پر بحث شروع ہوئی۔ جب معلم صاحب نے قرآن پاک کے دلائل سے وفات مسیح ثابت کی تو ان نام نہاد علماء سے جواب تو نہ بن سکا البتہ معلم سے لڑائی شروع کر دی اور جماعت پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ اس پر ایک عیسائی نے کھڑے ہو کر جماعت کے موقف کی تائید کی اور اس مولوی کوواضح کیا کہ جماعت احمدیہ مسلمان ہے۔ آپ کا اسلام سمجھ سے باہر ہے۔ ان کا تو سمجھ آتا ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں۔ دوسری طرف اس مسجد کے مولویوں کی مسجد میں ہی آپس میں لڑائی ہو گئی اور اس وجہ سے حکومت کو دخل اندازی کرنی پڑی اور ان کی مسجد کو تین ماہ کے لیے حکومت نے بند کر دیا
جو ہماری مسجد کو بند کرنا چاہتے تھے ان کا اپنا یہ حال ہوا کہ مسجد بند ہو گئی۔
اب یہ طریق باقاعدہ سازش کے تحت نام نہاد علماء ہرجگہ اختیار کر رہے ہیں کہ احمدیوں کی مسجدیں بند کرواؤ۔ پاکستان یا پاکستان کی طرح اگر مسجدیں بند نہیں ہوتیں تو مینار اور محرابیں گراؤ۔ اب پاکستان کا قانون بھی جو ہے اس میں کہیں نہیں لکھا کہ احمدیوں کو مینار بنانے کی اجازت نہیں ہے لیکن حکومت ان مولویوں کے سامنے، نام نہاد علماء کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ بہرحال
یہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح نقصان پہنچائیں لیکن ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن خود ہی یہ سب مر جائیں گے۔
پاکستان میں ہمیں قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی ہے، ترجمےکا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ناظرہ شائع ہونا بھی ناقابل معافی جرم ہے بلکہ بعض لوگوں پر اس لیے سختی بھی کی گئی۔ ایسے بھی کیس درج ہوئے ہیں کہ تم قرآن کریم سن کیوں رہے تھے، ریکارڈنگ پہ کیوں لگایا ہوا تھا۔ اب یہ نام نہاد مسلمانوں کا اسلام ہے۔ مُلّاں نے دین کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کس طرح راستے کھولتا ہے۔ ہم
دنیا کے مختلف ممالک میں اشاعت قرآن کریم
کس طرح کر رہے ہیں۔ ہمارے قرآن ہر جگہ کس طرح پسند کیے جاتے ہیں خاص طور پر ترجمہ جو جس زبان میں بھی ہوا وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔
دارالسلام تنزانیہ
کے ایک معلم صاحب نے بتایا کہ وہ ایک علاقے میں پمفلٹ تقسیم کرنے گئے۔ جماعتی کتب بھی فروخت کرتے ہیں۔ اس سے تبلیغی رابطوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ایک دن مجھے تیس کلو میٹر دور سے ایک غیر از جماعت شخص کا فون آیا کہ وہ قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ خریدنا چاہتے ہیں۔ معلم صاحب نے بتایا کہ قرآن کریم تو ان کے قریب کے علاقے سے بھی مل سکتے ہیں لیکن اس شخص نے کہا کہ مجھے جماعت کے ترجمےاور تفسیر کا طریق بہت پسند ہے۔ ٹھیک ہے اَوروں نے (ترجمے) کیے ہیں لیکن جو جماعتی طریقِ ترجمہ ہے وہی مجھے پسند ہے کیونکہ عقل اس کو قبول کرتی ہے۔ میں یہی ترجمہ لینا چاہتا ہوں۔
مالی
میں مبلغ بلال صاحب ہیں۔ کہتے ہیں جماعت احمدیہ کو قرآن کریم کی نمائش منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ ایک طالب علم سٹال پر آئے انہیں قرآن کریم کے فرنچ ترجمے کا تعارف کروایا گیا کہ موجودہ ترجمے میں جماعتی فرنچ ترجمہ سب سے بہترین ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ان کے گھر میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ موجود ہے جو کہ جماعتی ترجمےسے بہتر ہے۔ اس نوجوان نے یہ کہا۔ بہرحال وہ اپنے گھر گیا اور وہاں سے قرآن کریم لے آیا اور ایک گھنٹے سے زائد وقت یہ بتانے کے لیے لگایا کہ ہمارا، غیراحمدیوں کا ترجمہ بہتر ہے۔ دونوں ترجموں کا موازنہ کرتا رہا۔ بہرحال انصاف پسند طبیعت تھی۔ آخر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ
جماعتی ترجمہ بہت اعلیٰ ہے اور حقیقت میں اس سے قرآن کو سمجھنا بہت آسان ہے
اور پھر وہ ایک نسخہ قرآن کریم کا خرید کر اپنے ساتھ لے گیا۔
اسلام کی حقیقی تعلیم اور اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی جماعتی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے لٹریچر سے کس طرح مسلمانوں میں بھی قائم ہوتا ہے
جو نیک فطرت ہیں کس طرح وہ اثر لیتے ہیں۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ جورھاٹ بک فیئر کے موقع پر ایک دوست جالیموس (Jalimaus) صاحب آئے۔ یہ موصوف کمپیوٹرانجینئر ہیں۔ اسٹال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اور جماعتی کتب دیکھنے لگے۔ کچھ دیر بعد موصوف نے ڈیوٹی پر موجود مبلغ سے نم آنکھوں سے مخاطب ہو کر کہا میں آج اگر بطور مسلمان آپ کے سامنے کھڑا ہوں تو صرف جماعت احمدیہ کی وجہ سے۔ جماعت کا یہ مجھ پر بڑا احسان ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ احمدی ہیں اور جماعت نے آپ پر کیا احسان کیا ہے؟ تو اس پر اس نے جواب دیا کہ میں احمدی تو نہیں ہوں لیکن میں مذہب سے دور ہوتے ہوتے دہریہ ہو گیا تھا مگر میرے گھر میں والد صاحب کے پاس جماعت احمدیہ کی کچھ پرانی کتب پڑی ہوئی تھیں جو کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ؑکی لکھی ہوئی تھیں۔ ان کتب کا میں نے مطالعہ کیا۔ ان کتب میں حضرت مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ کے بارے میں جو دلائل پیش کیے تھے ان دلائل نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں لاجواب ہو گیا اور میرا ہستی باری تعالیٰ پر ایمان قائم ہو گیا۔ اس طرح دہریہ لوگ بھی جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے اپنے ایمان کو دوبارہ قائم کرتے ہیں۔ پھر کہنے لگا کہ اب میں جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ جماعت احمدیہ اسلام کی تائید میں جو دلائل پیش کرتی ہے اس سے میرا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور میرے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ کی وجہ سے میں آج مسلمان ہوں۔
مغربی دنیا میں جہاں بعض ملکوں میں سویڈن میں، ڈنمارک وغیرہ میں قرآن کریم کی توہین کی جا رہی ہے وہیں جب اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کی جاتی ہے تو انہی مخالفین کے رویّے بدل جاتے ہیں۔ پس
آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو قرآن کریم کے مرتبہ و مقام کو بلند کرنے اور اس کی حقیقی تعلیم بتانے میں کوشاں ہے۔
ایک جرمن خاتون نے کہا کہ جماعتی لٹریچر کی اور قرآن کریم کی نمائش لگی ہوئی تھی۔ اس نمائش میں اسلام کے بارے میںمختلف موضوعات پر قرآن اور حدیث کے حوالہ جات پیش کیے گئے، ان موضوعات کے حوالے سے جو اس بات کو ظاہر کرتے تھے کہ اسلام کوئی انتہا پسند مذہب نہیں ہے۔ اس خاتون نے کہا
آپ کی جماعت نے تو اسلام کو آسان کر کے ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ اسلام کی مخالفت کی جائے اور قرآن کریم کی مخالفت کی جائے۔
قرآن کریم کی اشاعت اور اسلامی تعلیمات پر لٹریچر کا لوگوں پر کس طرح اثر ہوتا ہے اس بارے میں اَور واقعہ بھی بیان کرتا ہوں۔ گولاگھاٹ بک فیئر کے موقع پر رپورٹ دینے والے کہتے ہیں کہ ایک مسلمان پروفیسر شبانہ یاسمین صاحبہ نے جب ہمارے سٹال کو دیکھا تو بہت خوش ہوئیں اور سیدھا آ کر قرآن مجید کا آسامی ترجمہ اٹھایا۔ آسام میں یہ نمائش ہو رہی تھی اور اپنے ساتھی پروفیسر صاحب سے کہنے لگیں کہ آج میرا ایک خواب پورا ہوگیا ہے۔ میں ایک لمبے عرصےسے قرآن کریم کے آسامی ترجمےکی تلاش میں تھی۔ میرے ایک استاد تھے جنہوں نے بارہا مجھ سے قرآن مجید کے آسامی ترجمےکا مطالبہ کیا تھا لیکن میرے پاس یہ ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سے قرآن مجید مَیں ان کو نہیں دے سکی۔ اس وجہ سے مجھے سخت ندامت ہوتی تھی اور اپنے مسلمان ہونے پر افسوس ہوتا تھا۔ میرے استاد کی وفات کے بعد آج مجھے یہ قرآن مجیدملا ہے اگر اس کی قیمت ہزاروں روپیہ بھی ہوتی تو میں اس وقت ضرور خرید لیتی۔
یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایسے دُور دراز علاقہ جات میں جہاں مسلمانوں کے پاس قرآن مجید اور دیگر بنیادی اسلامی کتب بھی موجود نہیں ہیں وہاں جماعت احمدیہ بک سٹال لگا کر ان کی دینی اور روحانی ضروریات پوری کر رہی ہے۔
پھر دھیما جی بک فیئر میں ایک خاتون ہیں بانتی دوواراس (Banti Dowaras Bogagohaian) یہ لارڈ شیوا کا مندر بنا رہی ہیں اور اس کی تبلیغ کرتی ہیں ہندو ہیں۔ جب اس نے ہمارے سٹال کو دیکھا تو حیران رہ گئی کہ اس علاقے میں جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے وہاں ایک اسلامی سٹال لگا ہے اس نے ہمارے سٹال پر آ کر گفتگو کی۔ بہت خوش ہو کر واپس گئی۔ اگلے روز پھر واپس آئی اور سٹال میں موجود تمام لوگوں کے لیے پھل وغیرہ لائی نیز قرآن مجید کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے قرآن مجید خریدتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ آج میری زندگی کا ایک خواب آپ نے پورا کر دیا ہے۔ قرآن کریم خریدا اور اس کو اپنے سینے سے لگایا اور اس کے ساتھ تصویر بنوائی۔
چیک ریپبلک
مشرقی یورپ کا ملک ہے۔ مبلغ کہتے ہیں ایک نوجوان ہمارے سٹال پر آیا۔ اس نے بتایا کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا کا وجود ہے مگر یہ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کون سا مذہب مجھے خدا تک پہنچا سکتا ہے؟
میں نے بہت عرصے تک بہت سارے مذاہب کا مکمل جائزہ لیا ہے مگراب میں اس نتیجےپر پہنچا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہی تمام مسائل کا حل دیتی ہے جس سے میرے دل و دماغ کو تسلی ملتی ہے۔ مجھے یہاں پر روحانیت محسوس ہوتی ہے۔
اب بتائیں یہ ملاں لوگ کہ قرآن کریم کی تعلیم کو لوگوں کے دل و دماغ تک کون پہنچا رہا ہے؟
اللہ تعالیٰ کس طرح تبلیغ کے راستے کھولنے کے سامان پیدا فرماتا ہے،
اس کے بھی ایمان افروز واقعات ہیں۔ پاکستان میں ہم پر مکمل پابندی ہے لیکن بعض دوسری جگہوں پہ بعض روکوں کے باوجود اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرما دیتا ہے۔
گنی بساؤ
کے مبلغ لکھتے ہیں۔ گذشتہ دسمبر میں کیپ ورڈ آئی لینڈ کا دورہ کیا تو اس دورہ کے دوران اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ ہماری جماعت کا ریڈیو پروگرام ہونا چاہیے جس کی مدد سے زیادہ تیزی کے ساتھ جماعت کا پیغام پہنچایا جا سکتا ہے مگر کافی کوششوں کے باوجود جماعت وہاں رجسٹرڈ نہیں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے ریڈیو پروگرام نہیں مل سک رہا تھا۔ کہتے ہیں دورہ مکمل ہونے کے بعد گنی بساؤ سے بہت سارے لیف لیٹس پرنٹ کر کے کیپ ورڈ بھجوائے گئے۔ وہاں ان کو کثرت سے تقسیم کیا گیا اور کہتے ہیں کہ ایک دوست نے لیف لیٹ پڑھنے کے بعد جماعتی مشن فون کیا اور کہا کہ جماعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو جماعت کے بارے میں بتایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی تعلیمات ریڈیو پر کیوں نہیں بتاتے؟ اس پر ان کوبتایا گیا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں مگر ریڈیو پروگرام ہمیں نہیں مل رہے۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ میرا اپنا ریڈیو اسٹیشن ہے۔ میں ریڈیو اسٹیشن کا ڈائریکٹر ہوں ۔ آپ میرے ریڈیو پر پروگرام کر سکتے ہیں اور جماعت کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک نیا راستہ کھول دیا۔
پھر
مالی
کے مبلغ لکھتے ہیں۔ جلسہ سالانہ مالی میں کولی کورو ریجن کے ایک گاؤں سے ایک دوست احمد طورے صاحب آئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس وقت مالی میں ایک مسلک ہے جو نماز اور ارکان اسلام کو اتنی اہمیت نہیں دیتا۔ اب یہ مسلک جو نماز کو اور ارکان اسلام کو اہمیت نہیں دیتے لیکن مسلمان ہے۔ احمدی پھر بھی غیر مسلم۔ اور وہ کہنے لگے کہ وہ اسی فرقے کا رُکن ہے لیکن اس کا دل مطمئن نہیں تھا۔ نیک فطرت تھا۔ کہتا ہے کہ بیشک کہتے تو ہم یہی ہیں کہ ارکان اسلام کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایمان کی اور نماز بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن دل میرا اس پہ مطمئن نہیں ہے۔ ایک دن انہوں نے ریڈیو لگایا تو وہ جماعت احمدیہ کا ریڈیو تھا جس میں نماز پڑھنے کا طریق سکھایا جا رہا تھا جس کو انہوں نے بڑے انہماک سے سنا اور بعد میں انہوں نے بار بار جماعتی ریڈیو سنا تو دل میں یقین ہو گیا کہ یہ لوگ ہی سچے مسلمان ہیں لیکن گاؤں والوں نے بتایا کہ ان کو تمام علماء اسلام سے خارج کر چکے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے یہاں لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے، تہجد کی ادائیگی کرتے دیکھا تو میرا دل مطمئن ہو گیا۔ میں دین کے معاملے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن جتنا اسلام کے متعلق جانتا ہوں آج اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور میں احمدیت میں شامل ہوتا ہوں۔
آخری شرعی کتاب قرآن کریم جس کا پڑھنا، سننا، رکھنا بھی جیسا کہ میں نے کہا ہے پاکستان میں احمدیوں پر بین (Ban)ہے، ایک بہت بڑا جرم ہے، وہی کتاب ہے جس کے ذریعےجماعت احمدیہ دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے اور دنیا کی اصلاح کر رہی ہے۔
مائیکرونیشیا
کے مبلغ شرجیل صاحب کہتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے ایک شخص سائمن گیڈن نے رابطہ کر کے قرآن پاک کا نسخہ حاصل کیا۔ اس پر کچھ عرصہ گزر گیا۔ ایک دن اچانک اس کا میسج آیا کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ جب مسجد آئے تو کہنے لگے کہ پوری زندگی بائبل کو بہت تفصیل سے میں نے پڑھاہے لیکن کوشش کے باوجود کچھ بھی سمجھ نہیں آئی اس کی تعلیم دل میں نہیں بیٹھتی لیکن جب سے قرآن کریم پڑھنا شروع کیا ہے تو ایسے لگا کہ اس کا ہر لفظ دل میں سیدھا داخل ہو رہا ہے۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ساری زندگی غلط تھا اور قرآن کریم کی تعلیم سے محروم رہا۔ اپنی والدہ کے پاس اس کے بعد گئے اور انہیں بتایا کہ مسجد جا رہا ہوں اور اسلام میں داخل ہونے لگا ہوں۔ ان کے وہاں رشتےداربھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ بڑا غلط کام کرنے لگے ہو، بہت برا بھلا کہا۔ اس پر موصوف نے کہا آپ لوگ جو کرنا چاہتے ہیں کر لیں لیکن میں اپنے دل سے مسلمان ہو چکا ہوں اور کہتے ہیں سائمن صاحب نے خاکسار سے اس بات کا ذکر کیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔ اب نہ صرف جماعت میں داخل ہو گئے ہیں بلکہ بڑی دلیری سے اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کے ذریعے کس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں سعید روحیں اسلام میں داخل ہوتی ہیں۔ امیر صاحب
سپین
لکھتے ہیں ایک سپینش دوست فرانسسکوخیسوس صاحب کافی عرصہ تحقیق کر کے جنوری 2023ء میں مسلمان ہوئے۔ اسلام کو سچا دین سمجھتے تھے لیکن مسلمانوں کی منتشر حالت پر متفکر رہتے تھے اور یہ بات سمجھتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور کے بعد مسلمان متحد نہیں ہو سکے۔ انہوں نے اسلام کی تاریخ کچھ پڑھی ہوئی تھی۔ اب نظامِ خلافت کے تحت ہی دوبارہ متحد ہو سکتے ہیں۔ لیکن نظام خلافت کو کہاں تلاش کریں؟ مارچ 2023ء میں ان کا ہمارے ایک احمدی طارق صاحب سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے اسے احمدیت پر تحقیق کا مشورہ دیا۔ چنانچہ انہوں نے تین ماہ احمدیت کے بارے میں تحقیق کی اور انشراحِ صدر ہونے کے بعد پھر انہوں نے بیعت کر لی اور باقاعدہ جمعے وغیرہ پر بھی تشریف لاتے ہیں۔
تاجکستان
سے تعلق رکھنے والے ایک دوست ہیں خروموف تُرْغُن صاحب۔ آجکل قرغیزستان میں مقیم ہیں۔ کہتے ہیں میں یہاں کاشغر میں کام کرتا ہوں۔ جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں احمدی احباب بھی تھے۔انہوں نے بعضوں کے نام لیے۔ میں نے ان سے تقریباً تین سال جماعت کے بارے میں گفتگو کی۔ ان سے گفتگو کر کے آخر مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقی اسلام ہے اور امام مہدی علیہ السلام ہی مسیح موعود ہیں اور مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں۔ چنانچہ خاکسار بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا۔ پھر دعا کے لیے کہا ہے، دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے خدمت کی توفیق دے اور متقی بنائے اور دس شرائط بیعت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
رشیا
سے عطاء الواحد صاحب مبلغ لکھتے ہیں
ایک نوجوان کو اللہ تعالیٰ نے اسلام احمدیت کی طرف متوجہ کیا۔
ڈیڑھ سال قبل اس سے رابطہ ہوا تھا۔ ایک چھوٹے قصبے کا رہنے والا نوجوان ہے اور ان کے والد تو مذہب سے دور ہو گئے تھے لیکن مارسیل کی اہلیہ عیسائی آرتھوڈوکس سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ یہ مارسیل نوجوان ہیں ان کے بڑے بھائی عیسائی ہیں لیکن ان کی توجہ ان کے والد کی قومیت کی وجہ سے اسلام کی طرف ہوئی اور ان کے والد پہلے ہی مسلمان تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو والد کی اس توجہ کی وجہ سے اسلام قبول کیا لیکن مسلمانوں کا سنی اسلام قبول کر لیا لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ تعلیمات کے متعلق بہت سے سوالات ذہن میں آتے تھے جن کے مقامی مولوی تسلی بخش جواب نہیں دے سک رہے تھے۔ اس بے چینی میں اضافہ ہوتا رہا اور اسی دوران اللہ تعالیٰ نے انٹرنیٹ کے ذریعے سے ان کا رابطہ جماعت احمدیہ رشیا کے ساتھ کروا دیا۔ یہاں سے مارسیل صاحب کو اپنے سوالات کےتسلی بخش جواب مل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے بہت سی جگہوں پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن حقیقی اسلام احمدیت ہی میں پایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔
فلپائن
کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ یہاں ایک جزیرے میں 139بیعتیں ہوئیں اور بیعت کرنے والوں میں ایک سکول کے پرنسپل اور دو امام بھی شامل ہیں اور چار امام مسجد بیعت کر کے احمدی ہو چکے ہیں۔ ایک امام مسجد حاجی عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جس مسجد کے وہ امام ہیں اب وہ جماعت احمدیہ ہی کی مسجد ہے۔ ایک دوست نے اس مسجد سے ملحقہ کچھ زمین بھی جماعت کو ہبہ کی ہے جس میں دوران سال مشن ہاؤس بنانے کا ارادہ ہے تا کہ مستقل معلم کی تقرری ہو سکے۔ یہ امام مالی قربانی کرنے والے ہیں۔ صرف یہ نہیں کہ پیسے لیتے ہیں۔ ان کی دکان ہے، کاروبار ہے، مالی قربانی کرنے والے بھی ہیں اور ایک دن کہنے لگے کہ میں نے جو پانچ سو پیسو کی ایک دن مالی قربانی کی تھی اللہ تعالیٰ نے میرا ایمان مضبوط کرنے کے لیے اگلے دن ہی مجھے غیر متوقع طور پر ایک لاکھ پیسو کہیں سے آمد کروا دی۔ اللہ تعالیٰ خود اس طرح سعید فطرت لوگوں کی راہنمائی فرماتا ہے۔
مالی
کے ریجن سِکَاسَو کے مبلغ لکھتے ہیں مروان کولی بالی صاحب احمدیہ مشن ہاؤس آئے اور کہا کہ وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ریڈیو احمدیہ شوق سے سنتے تھے اور جماعت کی اکثر باتوں سے مطمئن تھے لیکن بیعت کرنے کو دل نہیں مانتا تھا۔ کہنے لگے :کل جب میری ریڈیو سنتے سنتے آنکھ لگ گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان میں چاند نہایت روشن ہے اور چاند میں دو اشخاص کی تصویریں نظر آ رہی ہیں۔ ایک تصویر بڑی اور ایک چھوٹی ہے اور قریب کھڑے بچے شور مچا رہے ہیں کہ یہ امام مہدی علیہ السلام اور ان کے خلیفہ کی تصویر ہے۔ وہ آ گئے ہیں۔ مروان صاحب کہتے ہیں کہ پھر انہوں نے خواب میں ہی قریب کھڑے بزرگ سے دریافت کیاکہ کیا آپ کو بھی تصویر نظر آ رہی ہے، جس پر بزرگ نے تو نفی میں جواب دیا لیکن کہتے ہیں میرا دل مطمئن ہو گیا کہ احمدیت ہی سچی جماعت ہے جو امام مہدی کے ظہور کا اعلان کر رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کی تصویریں دیکھیں توحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی تصویر کو پہچان لیا۔ ساتھ میری تصویر بھی تھی اور کہا یہی تو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔
سپین
کے امیر صاحب لکھتے ہیں کارلوس صاحب نے اس سال بیعت کی ہے۔ یہ پہلے مسلمان ہو گئے تھے۔عبدالسلام ان کا نام رکھا گیا تھا۔ انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ حضور انہیں فرما رہے ہیں کہ آؤ! امن کی طرف آ جاؤ۔ خواب کے بعد ایک روز ان کی اہلیہ انٹرنیٹ پر انہیں کچھ دکھا رہی تھی کہ ان کی نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر پڑی تو انہوں نے کہا یہ تو وہی شخص ہے جو مجھے خواب میں امن کی طرف بلا رہا تھا۔ اس پر انہوں نے احمدیت کے بارے میں تحقیق شروع کر دی اور کچھ دن بعد دوبارہ خواب دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو فرمایا کہ میں امام مہدی اور مسیح ہوں۔ ان کا دل تو اس خواب کے بعد احمدیت کا قائل ہو گیا تھا لیکن بیعت نہیں کی تھی اور تحقیق جاری رکھی۔ تیسری دفعہ پھر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا جب آپؑ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے۔ اس پر انہوں نے فوری طور پر جماعت سے رابطہ کیا اور بیعت کر لی۔
باوجود مخالفین کی انتہائی کوششوں کے نومبائعین مضبوطی ایمان کا کس طرح اظہار کرتے ہیں۔
برکینا فاسو، مہدی آباد
کے ایک ناصر سعیدو جیکا صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہمارے گاؤں کی اکثریت نے احمدیت قبول کر لی تو سعودی عرب میں مقیم میرے ایک کزن نے تمام اخراجات برداشت کر کے ہمیں سعودی عرب بلایا۔ وہاں پہنچے تو اس نے ہمیں خانہ کعبہ کی زیارت کرواتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کے مقدس مقامات ہیں۔ اسلام یہاں سے شروع ہوا تھا پاکستان سے نہیں۔ اس لیے یہاں پر قائم وہابی عقیدہ اختیار کرو اور احمدیت چھوڑ دو۔ میں نے کہا تم نے اس لیے ہمیں یہاں بلایا تھا۔ اس نے اس بات پہ سر ہلایا۔ پھر میں نے کہا کہ اس مقدس مقام کے سائے میں کھڑا ہو کر دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ مجھے احمدیت چھوڑنی پڑے۔ کہتے ہیں میں نے خانہ کعبہ میں یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے پہلے حالت ایمان میں موت دے دے، کبھی ایسا موقع نہ آئے کہ میں ایمان سے پھروں۔ بہرحال کہتے ہیں اس کے بعد میں جلد برکینا فاسو آگیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی ان کا عزیز جو کزن تھا ان کو اور عزیزوں رشتہ داروں سے ملنے کے لیے برکینا فاسو آیا تو الحاج ابراہیم صاحب نے اسے تبلیغ کی اور وہ بھی احمدی ہوگیا۔ بہرحال کہتے ہیں جو ہمیں شکار کرنا چاہتا تھا وہ خود احمدیت کا شکار ہو گیا۔
پھر
مخالفت میں ثابت قدمی کے بارہ میں برکینا فاسو
کے ہی امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ڈوری ریجن کے معلم عمر ڈیکو (Dicko) صاحب ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہابی مُلّاں کا ایک ٹولہ ان کے گھر آیا اور احمدیت ترک کرنے کا کہا اور دھمکی دی کہ ورنہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ عمر ڈیکو صاحب نے کہا کہ بیشک مجھے قتل کر دو لیکن احمدیت چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی میں تبلیغ سے باز آؤں گا۔ تبلیغ بھی کروں گا۔ اس پر وہ شدید غصےمیں چلے گئے۔ اگلے روز کچھ مسلح لوگ ان کے گھر آئے۔ اس پر احمدی احباب نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ ڈوری چلے جائیں۔ اس رات معلم صاحب اپنی فیملی کے ساتھ دعا میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے راہنمائی چاہی۔ معلم صاحب نے خواب میں اسماعیل نامی ایک شخص کو دیکھا۔ اس نے کہا کہ اے عمر! تو کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا ڈوری۔ اس پر اس نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس خواب کے بعد اگلی صبح انہوں نے ہجرت کرلی اور ان کو پھر ایک رکشے والے نے محفوظ طریقے سے وہاں پہنچا دیا اور ڈوری پہنچتے ہی کہتے ہیں ان کی اہلیہ کا فون آیا کہ مسلح دہشت گرد آئے ہیں اور آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی جان بھی بچا دی۔
نائیجیریا
کی اوسن (Osun) سٹیٹ کے ایک گاؤں کے رہائشی بدر ادریمی (Badr Aderemi) صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور احمدیت قبول کرنے سے قبل گاؤں کے مخالف گروپ کے، ہماری جماعت کے مخالف گروپ کے سرگرم رکن تھے۔ گاؤں میں کہتے ہیں جماعت احمدیہ کے مشنری نے مجھے جماعت سے متعارف کروایا تو مجھے جماعت احمدیہ کے متعلق مزید جاننے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ کچھ عرصہ تحقیق کرنے کے بعد میں نے احمدیت قبول کر لی۔ بیعت کے بعد گاؤں والوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کہتے ہیں مجھے کہا گیا کہ تین مہینے ہیں اگر تم نے احمدیت نہ چھوڑی تو تمہارا گھر تباہ کر دیں گے۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ ایک روز میں کھیتوں میں کام کرنے کے لیے گیا۔ شدید طوفان آ گیا۔ کہتے ہیں مجھے یقین تھا کہ میں واپس گھر جاؤں گا تو میرا گھر اس طوفان کی نظر ہو چکا ہو گا۔ بہرحال جب گھر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے گھر کے دائیں بائیں سارے گھر تباہ ہو چکے ہیں، تقریباً پچاس کے قریب گھر تباہ ہو گئے نہ صرف گھروں کی چھتیں بلکہ پورے کے پورے گھر ہی ملبہ بن گئے اور اس دوران مخالفین کی یہ بات بھی ذہن میں آ جاتی کہ چونکہ تم نے احمدیت قبول کی ہے اس لیے ایک روز جب تم واپس آؤ گے تو اپنا گھر تباہ و برباد دیکھو گے۔ میں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ جماعت تیری جماعت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی موعود مہدی ہیں جن کی خوشخبری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی تو میرے گھر کو گرنے نہ دینا۔ بہرحال جب بارش تھم گئی تو میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ دیکھا کہ ہر کمرہ محفوظ تھا اور کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا اور جبکہ ارد گرد کے بہت سارے گھر تباہ ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں اس واقعہ کے بعد میرا احمدیت کی سچائی پر ایمان پختہ ہو گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ جماعت واقعی ایک الٰہی جماعت ہے۔ بہرحال
دنیا کے مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کے یہ سلوک کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ نظر آتی ہیں جنہوں نے ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیم دی، یہ سب سے بڑی جماعت احمدیہ کی سچائی کی دلیل ہے۔ یہ واقعات اور یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگوں کے ایمان کو مضبوط کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کی بھی نظریں کھولے اور ان کو ایمان اور یقین کے ساتھ قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت
مَیں نے مرحومین کا ذکر
کرنا ہے، بعض جنازے ہیں، ان کا ذکر کروں گا لیکن یہ بھی ضمنا ًکہہ دوں کہ
ان دنوں میں جو کووڈ (Covid)دوبارہ پھیل رہا ہے اس لیے لوگوں کو بھی اس بارے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
مرحومین کے ذکر میں پہلا ذکر ہے
مکرمہ امة الہادی صاحبہ اہلیہ مکرم پیر ضیاء الدین صاحب۔
یہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی بیٹی تھیں۔ بانوے سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے بیٹے پیر شبیر احمد اسلام آباد کے نائب امیر ہیں اور بریگیڈیئر دبیر احمد،فضل عمر ہسپتال میں آج کل ایڈمنسٹریٹرہیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے وقف کیا تھا۔ ان کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔
ان کے بیٹے نے لکھا کہ ہم بہن بھائیوں نے ہمیشہ اپنی والدہ کو بچپن سے ہی نمازوں اور تلاوت میں باقاعدہ پایا اور باقاعدہ چندہ دینے والی تھیں۔ ایم ٹی اے دیکھنا ان کا معمول تھا۔ جماعتی تحریکات میں حصہ لیتی تھیں۔ تحریک جدید کے دفتر اول کی چندہ دہند تھیں۔ 1971ء میں جو پاک بھارت جنگ ہوئی اس میں امۃالہادی صاحبہ کے خاوند بریگیڈیئر ضیاء الدین صاحب مشرقی پاکستان میں تھے جو اب بنگلہ دیش ہے اور وہاں وہ بڑا لمبا عرصہ رہے۔ پیردبیر یہ کہتے ہیں کہ میری والدہ بھی اور چھوٹی بہن بھی وہیں تھی۔ کچھ عرصے کے بعد والد نے والدہ اور چھوٹی بہن کو بھیج دیا۔ وہ پریشان رہتی تھیں لیکن کبھی انہوں نے اپنی پریشانی کا اظہار ہم بچوں پہ نہیں کیا بلکہ ہمیں حوصلہ دیتی رہیں اور چھ مہینے کے بعد پھر بریگیڈیئر صاحب وہاں سے واپس آئے۔ ہمیشہ عیدوں پہ تلقین کرتی تھیں کہ غریبوں کا خیال رکھو، ان کو عیدیاں دو۔ ہیومینٹی فرسٹ میں ہر سال دو مرتبہ خطیر رقم بھجواتی تھیں۔ کنویں اور ہینڈ پمپ لگوانے کے لیے، بچوں کی پڑھائی کے لیے، غریبوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے۔ اس کا ڈاکٹر نوری صاحب نے بھی ذکرکیا ہے۔ ان کی بیٹی امة الکبیر طلعت کہتی ہیں کہ بآواز تلاوت کیا کرتی تھیں۔ کسی کی غیبت نہیں کرتی تھیں۔ دوسروں کو بھی اس بات سے منع کرتی تھیں۔ خلافت سے بہت عقیدت کا تعلق تھا۔ باقاعدہ ایم ٹی اے دیکھتیں۔ باقاعدہ خطبہ سنتیں اور ہمیں ہر موقع پر سمجھاتی تھیں کہ سلسلہ کی کتب پڑھنے کا بہت فائدہ ہے۔ ان کو خود بھی بڑا شوق تھا اور ہروقت سرہانے کتب پڑی ہوتی تھیں جو زیر مطالعہ ہوتی تھیں۔ بہت ملنسار اور تعلق رکھنے والی تھیں ۔ ان کی نواسی کہتی ہیں کہ جب بھی ہم قرآن کریم کی کوئی نئی سورت یاد کرتے تو ہمیں انعام دیا کرتی تھیں، حوصلہ افزائی کرتیں۔ کہتی ہیں مجھے یاد ہے کہ باقاعدہ فجر کی نماز کے بعد بہت لمبی تسبیح اور دعائیں کرتی تھیں اور مجھے بھی تلقین کرتی تھیں صبح تیار ہونے کے بعد قرآن کو تفسیر سے پڑھتیں۔ حدیقة الصالحین پڑھتیں، روحانی خزائن پڑھتیں، پھر ناشتہ کرتیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی نیکیاں ان کے بچوں میں بھی جاری فرمائے۔
اگلا ذکر ہے
مکرم ثاقب کامران صاحب جو ہمارے واقف زندگی تھے،
آج کل نائب وکیل سمعی بصری تھے جو بیالیس سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ ڈاکٹروں کا خیال یہی ہے کہ فوڈ پوائزننگ (food poisoning)ہوئی۔ لیکن ایک ٹریجڈی (tragedy)یہ بھی ہوئی کہ ثاقب صاحب کی وفات سے تقریباً پینتالیس منٹ قبل ان کا ایک بیٹا آرب کامران، انہوں نے بھی وہی کھانا کھایا تھا وہ بھی فوت ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ثاقب کامران صاحب کے پڑدادا حضرت چودھری مولا بخش صاحب تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کی تھی۔ کامران صاحب نے وقف کیا، جامعہ میں داخل ہوئے اور وہاں سے پھر پاس کر کے مختلف جگہوں پہ تعینات رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک بیٹی اور دو بیٹوں سے نوازا۔ رومیسہ کاشفہ سترہ سال کی ہے اور غالب کامران تیرہ سال کا اور تیسرا بیٹا جو ہے اس کی وفات ان کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ پورا خاندان ہی بیمار ہوا تھا باقی سب کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔
جامعہ پاس کرنے کے بعد ان کی نظارت اصلاح و ارشاد مقامی میں تعیناتی ہوئی۔ پھر حدیث کے مضمون میں ان کو تخصص کے لیے چنا گیا۔ پھر اس کے بعد وکالت تعلیم تحریک جدید کے تحت سیریا ان کو عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا گیا لیکن وہاں کے حالات کی وجہ سے یا کسی اَور وجہ سے واپس آ گئے۔ پھر اس کے بعد دسمبر 2018ء میں تحریکِ جدید کے سٹوڈیوز کا آغاز ہوا تو ان کو نائب وکیل سمعی بصری تحریک جدید مقرر کیا گیا اور وفات تک وہ اسی عہدے پر خدمت انجام دیتے رہے۔ اٹھارہ سال اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی۔
ان کی والدہ صادقہ بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ کامران کی پیدائش وقفِ نو کی تحریک سے پہلے ہوئی تھی انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکو درخواست کی کہ میرے دو چھوٹے بیٹے وقف نو میں شامل کردیں۔ حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ نے ان کی درخواست مان لی اور شامل کر لیا۔
ان کی اہلیہ کہتی ہیں۔ بہت پیاری شخصیت تھے۔ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ نمازوں کو فکر سے ادا کرنے والے، خلافت کے ساتھ شدت سے محبت کرنے والے، جماعت کی امانتوں کی حفاظت کرنے والے، ہر رنگ میں، ہر رشتے میں پُرخلوص محبت کرنے والے، خیال رکھنے والے اور ہر شخص کا خیال رکھنے والے، جماعت کے ہر فرد کا خیال رکھنے والے اور کوشش ہوتی تھی کہ اپنے بچوں کی بھی تربیت بہتر رنگ میں کریں ۔
ان کی والدہ نے بھی لکھا ہے کہ قرآن کریم کے حکم کہ اپنے والدین کے سامنے اف نہ کہو کبھی اونچی آواز میں انہوں نے بات نہیں کی۔ دوسروں کے راز چھپانے والے، دفتری رازوں کی حفاظت کرنے والے، ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ہم بعض دفعہ باہر سے باتیں سنتے تھے تو ان سے پوچھتے تھے کہ یہ بات ہوئی ہے تو کہتے تھے یہ امانت ہے میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ نمازیں باجماعت پڑھنے کی طرف بہت توجہ تھی۔ بچوں کو بھی تلقین کیا کرتے تھے اور ہمیشہ کوشش ہوتی کہ گھرکا، بچوں کا اور بیوی کا خیال رکھیں۔ ان کی ضروریات کو پورا کریں۔ ہر رشتے کے ساتھ وفا کا تعلق تھا۔
ان کی بیٹی رومیسہ کہتی ہیں کہ میرے والد نہایت ہی عاجز، نیک، غریب پرور، بافہم، دُور اندیش، اطاعت گزار اور تہجد پڑھنے والے شخص تھے۔ تربیت کرنے کا عجیب طریقہ تھا۔ اپنی آنکھ کے اشارے سے ہی بات سمجھا دیتے۔ ہر وقت اچھی تربیت کرنے کی فکر میں لگے رہتے اور ہمیشہ بتاتے کہ تم لوگ واقفِ نو ہو اس لیے اس بات کا احساس رکھو۔ کہتی ہیں بہت ساری باتیں میں ان سے پوچھ لیتی تھی ان کے جواب دینے میں کبھی نہیں جھجکتے تھے چاہے کیسی بھی کیفیت ہو۔
روحان احمد صاحب مربی سلسلہ جو آج کل اسیر راہ مولیٰ ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مجھے ان کی زیر تربیت اور زیر نگرانی لمبا عرصہ کام کرنے کا موقع ملا۔ ہمیشہ ایک شفیق دوست کی طرح میری راہنمائی کی۔ آپ نرم مزاج، اچھی شخصیت کے مالک اور بہترین قائدانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ایک مخلص خادم سلسلہ تھے۔ ان کی سخاوت اور ہمدردی بھی بےمثال تھی۔
ان اسیران کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی بھی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے
اور مرحوم سے اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کے لواحقین کو بچوں کو، بیوی کو، والدہ کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کے بچوں میں ان کی نیکیاں جاری فرمائے۔
تیسرا ذکر
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق داؤدا صاحب
کوتونو بینن کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کا تعلق بینن کے داؤدا خاندان سے تھا جس خاندان کے لوگوں نے بینن میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی۔ بینن کے سب سے پہلے احمدی مکرم ذکر اللہ داؤد صاحب مرحوم ان کے تایا تھے۔ ان کے والد عیسیٰ داؤد مرحوم تاحیات بینن کے نیشنل نائب امیر رہے۔ 1980ء میں جب آپ طالب علم تھے تو آپ نے ذکراللہ داؤد صاحب مرحوم کی تبلیغ سے احمدیت قبول کرلی تھی۔ قبول احمدیت کے بعد اپنے تایا کے ساتھ اپنے والدین کو تبلیغ کرتے رہے اور کچھ دیرکے بعد ان کی تبلیغ سے والدہ اور والد بھی احمدی ہو گئے۔ 2022ء میں سینیگال کی یونیورسٹی سے زوآلوجی(Zoology) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد واپس آ کر بینن میں پاراکو یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے۔ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر بہت ساری ملکی اور غیر ملکی کانفرنسز میں شریک ہوتے تھے۔ لمبا عرصہ بطور صدر خدام الاحمدیہ بینن خدمت کی توفیق ملی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی انہوں نے وصیت کر لی تھی اور یوں بینن کے احمدیوں میں سے شروع کے بلکہ لکھا ہے کہ سب سے پہلا موصی ہونے کا اعزاز انہیں حاصل ہوا۔
ان کی اہلیہ ریحانہ داؤدا صاحبہ جو اس وقت لجنہ کی نیشنل سیکرٹری تربیت ہیں کہتی ہیں کہ میں نے شادی کے بعد اپنے خاوند کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی۔ انہوں نے مجھے یسرنا القرآن اور پھر قرآن مجید پڑھایا۔ بہت ہی شریف، دیانتدار، انسانیت کا درد رکھنے والے غریب پرور انسان تھے۔ جماعتی کاموں کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ باقاعدہ تہجد پڑھنے والے تھے۔ مجھے تلقین کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے گھر میں قرآن کریم پڑھا کرو تا کہ ہمارے گھر میں خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں۔
کہتی ہیں کہ جب آپ یونیورسٹی میں نائب ڈین کے عہدے پر فائز ہوئے تو ایک دن ایک عورت روتی ہوئی آئی۔ اس نے کہا کہ میری لڑکی فیل ہو رہی ہے اسے پاس کر دیں۔ اگر وہ پاس نہ ہوئی تو میرا خاوند اس کی فیس بھی نہیں دے گا اور مارے گا بھی۔ اور بہت ساری رقم لے کے آئی کہ یہ رقم آپ رکھ لیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر رقمیں دے کے پاس ہونا ہو تو پھر غریب تو کبھی پاس نہیں ہو گا۔ تم یوں کرو یہ جو پیسے تم مجھے رشوت دینے لائی ہو، میں تو احمدی ہوں میں تو ایسے کام نہیں کر سکتا تم یہ اپنے پاس رکھو اور اسی سے فیس دے دینا اور اگر کمی ہو گی تو میں تمہیں مزید فیس کے لیے دے دوں گا۔ لیکن یہ جو سفارش ہے کہ رشوت لے کے پاس کر دوں یہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن بہرحال وہ رقم کا تھیلا وہا ں چھوڑ گئی۔ ان کی بیوی نے دکھایا کہ یہ تھیلا پڑا ہے تو وہ اٹھا کے اکاؤنٹنٹ کے پاس لے گئے۔ اس عورت سے انہوں نے پوچھا کہ میرا گھر تمہیں کس نے بتایا؟ تم تو مجھے جانتی نہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے یونیورسٹی کے اکاؤنٹنٹ نے بتایا ہے۔ بہرحال یہ اکاؤنٹنٹ کے پاس گئے، رقم اس کو دی اور اسے کہا کہ اس کو واپس کرو۔ یونیورسٹی کی میٹنگ بلائی اور وہاں یہ سارا معاملہ پیش کیا اور بتایا تو اس پر وہاں جو سارے پروفیسر اکٹھے ہوئے جو ایگزیکٹو تھے، انہوں نے کہا کہ وہ تو تین لاکھ فرانک لے کےآئی تھی اور یہ ڈیڑھ لاکھ ہیں۔ اس میں سے وہ بھی کسی اکاؤنٹنٹ نے ہی خرد برد کر لیے تھے تو بہرحال ان کے مخالفین یہ چاہتے تھے کہ رشوت کا الزام لگوایا جائے اور ان کو نائب ڈین کے عہدے سے فارغ کروایا جائے، لیکن اس میں کامیاب نہ ہوئے اور یونیورسٹی والے اور دوسرے بھی ان کے ساتھیوں نے بعد میں برملا اظہار بھی کیا کہ بہت ہی ایماندار شخصیت تھے۔ ہمیشہ اپنے محلے کی غریب بیواؤں کا خیال رکھتے تھے۔ کسی کے گھر کی مرمت کروا دی۔ بچوں کی دلداری کرتے۔ ہر ممبر سے پیار کرتے۔ وفات پر تعزیت کے لیے پاراکو یونیورسٹی کے شعبہ ایگریکلچر کے بہت سے پروفیسر ’’کوتونو‘‘ آئے۔ شعبہ کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم نے کہا کہ نہایت ہی عاجز اور دیانتدار انسان تھے۔ یونیورسٹی میں پاپابونر (Papa Bonheur) کے نام سے مشہور تھے، یہ فرنچ لفظ ہے جس کا مطلب ہے ہر ایک کو برکت دینے والا۔ ہر ضرورت مند کی مدد کرتے۔ جو بھی جیب میں ہوتا اسے دے دیتے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ پر بہت ہی زیادہ توکّل تھا۔
اسحاق داؤدا صاحب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے بےپناہ محبت تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا یہ حال تھا کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال ہے تووہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے اس سے زیادہ عمر نہ دینا۔
دل کے مریض ہو گئے تھے۔ ایک مبلغ نے بتایا کہ جب ہارٹ سرجری کے لیے فرانس گئے، تو انہوں نے الیس اللہ کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اتارنے لگے تو انہوں نے کہا یہ انگوٹھی تو نہیں اتارنی۔ یہ موت تک میرے ساتھ رہے گی کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جن کو میں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں۔
یہاں آج کل قائمقام امیر ہیں اور مبلغ انچارج ہیں میاں قمر۔ وہ کہتے ہیں کہ پاراکو کا جب میں ریجنل مبلغ تھا تو جو بھی تنخواہ ملتی تویہ پہلے ہی شروع میں اپنی وصیت اور دیگر چندہ جات ایک لفافے میں ڈال کر مسجد میں لے آتے کہ میری رسید کاٹ دیں۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے اور ہر مصیبت اور پریشانی میں یہی کہتے کہ میں دعا کر رہاہوں اور خلیفہ وقت کو بھی دعا کے لیے لکھ دیا ہے، اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرمائے گا۔
پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ بڑی بیٹی عزیزہ مقسطہ داؤدا ایگریکلچر میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ دونوں بیٹے رقیب داؤدا اور مسرور داؤدا کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی ان کے باپ کے نقش قدم پر چلائے اور مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ نماز کے بعد ان شاء اللہ نماز جنازہ ہوگی۔