ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (ذہن کے متعلق نمبر۱۱) (قسط ۳۶)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
آیوڈم
Iodum
٭…آیوڈم کے مریض کی بے چینی کا تعلق اعصابی گھبراہٹ سے ہوتا ہے۔ یہ گھبراہٹ آرسینک کی طرح کی نہیں ہوتی بلکہ اعصاب میں ضرورت سے زیادہ توانائی پائی جانے کی وجہ سے ہوتی ہے۔چونکہ خوب کھاتا پیتا ہے اور چربی نہیں بنتی اس لیے جسم میں پیدا ہونے والی زائد توانائی اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔چنانچہ یہ مسلسل حرکت کرتا رہتا ہے اور بھاگ دوڑ کر اپنی طاقت خرچ کرتا ہے۔اگر ایسے مریض کو زبردستی بٹھانے کی کوشش کی جائے تو اس میں شدید غصہ کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ مار دھاڑ اور قتل تک کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اگر ایسے مریض کا بچپن میں آیوڈین سے علاج نہ کیا جائے تو بڑا ہو کر نہایت خطرناک مجرم بھی بن سکتا ہے اور بغیر کسی محرک کے قتل و غارت میں ملوث ہو سکتا ہے۔ گو نیٹرم میور اور ہیپر سلف میں تشدد اور بلاوجہ قتل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن ان کی دیگر علامتوں میں بہت فرق ہے۔نکس وامیکا میں بھی یہ خطرناک علامت پائی جاتی ہے کہ اس کی مریضہ کے دل میں بے اختیار یہ خواہش ابھرنے لگتی ہے کہ اپنے بچےکو آگ میں جھونک دے یا بے حد محبت ہونے کے باوجود خاوند کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ پھر وہ اس ارادے سے سخت خوفزدہ بھی ہوجاتی ہےلیکن اسےرد نہیں کرسکتی اور یہ خیال سایہ کی طرح اس کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ اگر مریضہ بہت خوفزدہ بھی ہو تو یہی علامتیں پاگل پن میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اگر مریض کی دیگر علامتیں آیوڈین کا تقاضا کرتی ہوں تو یہ دوا بہت مفید ثابت ہوگی۔ (صفحہ۴۶۹-۴۷۰)
آئرس ٹینکس
Iris Tenax
٭…آئرس ٹینکس میں مریض اداس رہتا ہے۔ ہر بات کا صرف تاریک پہلو دیکھتا ہے۔ گھر سے دور ہو تو اعزہ واقارب کے لیے اداس ہوجاتا ہے۔ اور واپس گھر آنے کی خواہش رکھتا ہے۔تاہم اداسی کا یہ رجحان بعض دفعہ خوشی سے بھی بدل جاتا ہے لیکن پاگل پن کی علامات نہیں ہوتیں۔ موڈ بدل جاتا ہے۔کبھی بشاشت محسوس کرتا ہے۔کبھی اداس ہوجاتا ہے۔ آدھی رات کو اداسی بڑھ جاتی ہے۔(صفحہ۴۷۹-۴۸۰)
کالی کارب
Kali carbonicum
٭…کالی کارب میں چڑچڑا پن بہت نمایاں ہوتا ہے۔ جو اکثر اعصابی تکلیفوں میں ہوتا ہے۔اکیلے پن کا خوف بھی اس کی ایک علامت ہے۔مریض توہمات کا شکار ہوجاتا ہے لیکن ان توہمات کا مریض کی تنہائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔توہمات اس کی زندگی کی ایک عادت بن جاتے ہیں۔ ہاں اکیلے پن سے گھبراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ مریض گرمی اور سردی دونوں سے زود حس ہوتا ہے۔ مریض بہت زود رنج اور جلد طیش میں آنے والا ہوتا ہے۔ (صفحہ۴۹۷)
کالی فاسفوریکم
Kali phosphoricum
(Phosphate of Potassium)
٭…کالی فاس دماغ، اعصاب اور خون پر اثر کرتی ہے۔اعصابی کمزوری اور ذہنی و جسمانی تھکاوٹ میں حیرت انگیز اثر دکھاتی ہے۔ فکر،پریشانی، کام کی زیادتی اور ہیجانی کیفیت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تکلیفوں میں مفید ہے۔ کالی فاس کا مریض سست اور خوفزدہ رہتا ہے، لوگوں سے ملنے جلنے سے گھبراتا ہے، یادداشت بھی کمزور ہوجاتی ہے اور اپنے کام سے لاپرواہ ہوجاتا ہے۔ (صفحہ۵۰۵-۵۰۶)
٭…کسی حادثے یا بری خبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بد اثرات کو دور کرنے کے لیے ایمبرا گریسا (Ambra grisea)کی طرح کالی فاس بھی مفید ہے۔ اگر صدمہ کی وجہ سے دماغ ماؤف ہو جائے تو یہ کالی فاس کی اہم علامت ہے۔بری خبر سے معدہ اور دل کو نقصان پہنچے تو کالی کارب بہترین دوا ہے۔ نیٹرم میور بھی صدمہ کے اثرات سے پیدا ہونے والے پاگل پن میں مفید ہے۔صدمہ اور بری خبرکے بد اثرات سب پر ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کالی فاس میں صدمہ اور اچانک پہنچنے والی متوحش خبریں نمایاں طور پر اعصاب کو نقصان پہنچاتی ہیں اور مریض لمبی افسردگی اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس مریض کا مزاج نیٹرم میور کا ہو اس پر صدمہ کا اثر پاگل پن کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ (صفحہ۵۰۸)
٭…کالی فاس میں خون کی نالیاں تنگ ہوئے بغیر بھی یادداشت متاثر ہوتی ہے مگر یہ کمزوری وقتی ہوتی ہے،مستقل نہیں۔ اگر دماغ کسی خاص سوچ میں مصروف ہو اور اچانک کسی دوسری طرف منتقل ہو تو وہ نام یا لفظ فوری طور پر ذہن میں نہیں آتا جس کی اسے تلاش ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہن فوراً اس طرف توجہ نہیں دے رہا کیونکہ وہ ایک اور سوچ میں غرق ہے اور اس سے وہ فوری طور پر نئی سوچ کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا۔ ایسا ذہنی دباؤکی وجہ سے ہوتا ہے جو آرٹیریو سکلروسس (Arteriosclerosis)کی علامت نہیں ہے۔ ا س عارضی بیماری میں کالی فاس کے علاوہ کلیڈیم (Caladium)بہت مفید دوا ہے۔ (صفحہ۵۰۸)
٭…نکس وامیکا کی نیند کی علامت بھی کالی فاس سے ملتی ہے۔ کافی اور چائے وغیرہ پینے سے نیند اڑ جائے یا ذہن میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو تو نکس وامیکا اس کا علاج ہے لیکن اگر اعصابی اکساہٹ کی وجہ سے نیند اڑے تو کالی فاس کو اولیت دینی چاہیے۔(صفحہ۵۱۰)
٭…کالی فاس اور آرسینک ایسی دوائیں ہیں جن کے مریض صاف ستھرے اور صفائی پسند ہوتے ہیں۔ (صفحہ۵۱۰)
٭…مریض کے کسی بات پر چڑ جانے سے انتڑیوں میں جو تکلیفیں پیدا ہوتی ہیں انہیں کالی فاس ٹھیک کرتی ہے۔ (صفحہ۵۱۱)
٭…کالی فاس میں اگر کسی خوف اور دہشت کی وجہ سے اسہال شروع ہوں تو وہ پانی کی طرح پتلے اور سخت بدبودار ہوتے ہیں۔اور کمزوری پیدا کرتے ہیں۔ (صفحہ۵۱۱)
٭…اگریادداشت کمزور ہو اور اعصاب جواب دے جائیں اور آخر پاگل پن کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو کالی فاس ایک لاکھ طاقت میں دیں۔ (صفحہ۵۱۳)
کالی سلفیوریکم
Kali sulphuricum
(Sulphate of Potash)
٭…کالی سلف میں پریشان کن خواب بھی آتے ہیں۔ نیند پرسکون نہیں آتی۔ (صفحہ۵۱۸)
٭…یہی دوا بعض ایسے مریضوں کو بھی موافق آتی ہے جن کے مزاج پلسٹیلا کی طرح نرم اور غمگین ہوں اور بعض ایسے مریضوں کو بھی موافق آئے گی جن کے مزاج میں چڑچڑاپن اور غصہ ہو۔ پھر اسی دوا میں پلسٹیلا کی طرح پیاس کا نہ ہونا بھی ملتا ہے اور کبھی سخت پیاس بھی ملتی ہے جو بجھنے کا نام نہ لے، منہ خشک ہی رہے اور معدہ میں گویا آگ سی لگی ہوئی ہو۔ انہی تضادات کے باعث میں نے شروع ہی میں متنبہ کیا تھا کہ اس دوا کا سمجھنا آسان کام نہیں۔ بائیو کیمی میں کالی سلف چھوٹی طاقتوں میں استعمال ہوتی ہے لیکن ہومیو پیتھی میں بڑی طاقت میں دینا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ (صفحہ۵۱۹)
کرئیوزوٹم
Kreosotum
٭…کرئیوزوٹ میں مزاج کی تیزی اور جلد غصہ آجانا کیمومیلا سے مشابہ دکھائی دیتا ہے لیکن کیمومیلا کا مزاج ہی غصہ والا ہوتا ہے جبکہ کرئیوزوٹ میں یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے۔بیماری کی شدت سے مریض چڑ جاتا ہے۔جس کی وجہ سے طبیعت میں کیمومیلا کی علامات پیدا ہوجاتی ہیں۔ کیمومیلا کامریض تندرست ہو یا بیمار، ہر حال میں غصہ والا ہی رہے گا اور اس کے مزاج میں بد خلقی اس کی سرشت بن جاتی ہے۔(صفحہ۵۲۱-۵۲۲)
لیک کینائینم
Lac caninum
٭… اس میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ اگر انسان پر اس کی آزمائش کی جائے تو اسے فضا میں فرضی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ چیزیں ابھر کر ایک وجود بن کر مجھے نقصان پہنچائیں گی۔ یہ بات کتے کےمزاج میں داخل ہے اور اس کے دودھ کے ذریعہ انسانی دماغ میں بیماریاں بن کر ابھرتی ہے۔اگر بیماریاں پہلے سے موجود ہوں تو اس دودھ کی ہومیو پیتھک دوائی میں ان کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔(صفحہ۵۲۵-۵۲۶)
٭…لیکیسس اور لیک کینائینم میں ایک اور مشترک بات یہ ہے کہ دونو ں کے مریضوں کے احساسات بہت تیز ہوجاتے ہیں اور وہ خیالی چیزوں سے بھی خوف کھانے لگتے ہیں۔ اس قسم کی علامات ملنے کے باوجود دونوں میں فرق بھی نمایاں ہیں۔لیک کینائینم کا مریض اکیلا نہیں رہ سکتا جبکہ لیکیسس کا مریض تنہائی چاہتا ہے۔ لیکیسس کی تکلیفیں نیند کے بعد بڑھتی ہیں اور بائیں طرف سے دائیں طرف حرکت کرتی ہیں۔ (صفحہ۵۲۶)
٭…لیک کینائینم میں ایک اور بات نمایاں ہےکہ اس کا مریض چلتا ہےتو محسوس کرتا ہے کہ وہ فضا میں تیر رہا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہاہے وہ جھوٹ ہے۔ وہ اپنے آپ کو جھوٹا سمجھتا ہے۔ لیک کینائینم کی ایک اور علامت جو کسی اور دوا میں نہیں ہے وہ یہ ہےکہ اس کا مریض سمجھتا ہے کہ اس کے منہ پر دوسرے کی ناک لگی ہوئی ہے یا یہ کہ اس کاجسم کسی اور کا جسم ہے اور اس کی بجائے کوئی اور بات کر رہا ہے۔(صفحہ۵۲۶)
لیک ڈیفلوریٹم
Lac defloratum
٭…لیک ڈیف کے مریض کی یادداشت بھی کمزور ہوجاتی ہے اور وہ دماغی کام سے بوجھ محسوس کرتا ہے۔ (صفحہ۵۳۳)
٭…لیک ڈیف کے مریض میں غم کا احساس بھی پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں موت کی خواہش بڑھ جاتی ہے اور مریض ایسا طریقہ ڈھونڈتا ہے جس سے زیادہ آسانی سے موت واقع ہو۔ ایسامریض متشدد نہیں ہوتا۔ اس کی اداسی میں نرمی پائی جاتی ہے اور وہ موت میں بھی آسانی ڈھونڈتاہے کہ مرتے ہوئے زیادہ تکلیف نہ ہو۔ مشہور شاعرغالب بھی لیک ڈیف کا مریض معلوم ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے۔
ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے
یعنی دل ایسے مغنی (گانے والے )کو ڈھونڈ رہا ہے جس کی آواز میں ایسا سوزہو جس سے فنا کی بجلی چمکے اور انسان آناً فاناً بغیر تکلیف کے احساس کے مرجائے۔ یہ تو مرنے کا بہت عمدہ طریقہ ہے لیکن افسوس !اسے کوئی ایسا مغنی ملا نہیں۔ (صفحہ۵۳۴)
٭…لیک ڈیف کے مریض کو ہاتھ اونچا کرنے سے بھی چکر آتے ہیں۔ اس کے سر کے چکر کونیم (Conium)سے مشابہ ہیں۔ کونیم میں لیٹ کر ذرا سی کروٹ بدلتے ہوئے یا آنکھ کی حرکت سے بھی چکر آتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بستر گھوم گیا ہے۔ لیک ڈیف میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے جبکہ لیک کینائینم میں چلتے ہوئے چکر آتے ہیں مگر مریض کو محسوس ہوتا ہے کہ ساری کائنات بہت لطیف انداز سے گھوم رہی ہے اور وہ پریوں کے دیس میں چلا گیا ہے۔ اس علامت کا فلک سیر یعنی بھنگ سے بھی تعلق ہے جس میں مریض کو ہواؤں میں پھرنے اور تیرنے کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کا احساس متاثر ہوتا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ ایک سیکنڈ میں سارا زمانہ گزر گیا ہے کبھی غم اور تکلیف کے دور میں وقت گزرتا ہی نہیں اور ہر لمحہ لمبا ہوتا جاتا ہے۔ لیک ڈیف میں یہ عجیب کیفیت ہوتی ہے کہ وقت مزے کے احساس کے ساتھ لمبا ہوتا جاتا ہے۔ حالانکہ خوشی اور مزے کے دور میں لمحے سکڑ جایا کرتے ہیں۔اوروقت بہت تیزی سے گذرتا ہے۔ لیک ڈیف کے مریض کا دماغ ایک بات پر ٹھہر تا نہیں بلکہ ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے۔اسے کسی بات پر یقین نہیں رہتا۔ (صفحہ۵۳۴-۵۳۵)