مساجد حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا بھی پیغام دیتی ہیں (حضور انور کا مسجد مبارک Florstadt، جرمنی کی افتتاحی تقریب سے خطاب)
سیّدنا و امامنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آجکل جرمنی کا دورہ فرما رہے ہیں۔ آج مورخہ ۲۸؍اگست ۲۰۲۳ء کو جرمنی کے صوبہ ہیسن (Hessen) کے شہر فلورشٹڈ (Florstadt) میں ’سو مساجد سکیم‘ کے منصوبے کی تحت تعمیر ہونے والی ’مسجد مبارک‘ کا حضور انور نے افتتاح فرمایا اور اس حوالے سے علاقے کے معزّزین کے ساتھ منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب کو رونق بخشی اور خطاب فرمایا۔
حضور انور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ آج ہم یہاں اس مسجد کے افتتاح کی مبارک تقریب میں موجود ہیں۔ کسی بھی مسجد کا افتتاح ہم احمدی مسلمانوں کے لیے نہایت خوشی اور مسرت کا موقع ہوتا ہے۔ آج اسلام کی تعلیمات کو شدت پسند مسلمانوں کی وجہ سے مغرب میں بڑے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے، اسلام تو ہمیشہ امن اور سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو جہاں جنگ کی اجازت دی ہے، جہاں مسلمانوں کو کافروں کو سختی سے جواب دینے کی اجازت دی ہے، وہاں یہ اجازت صرف اسلام کے دفاع کی خاطر نہیں دی بلکہ مذہبی آزادی کے قیام کے لیے اجازت دی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مذہبی آزادی کے قیام کے لیے ان متشدد لوگوں کو روکا نہ گیا تو پھر زمین میں نہ کوئی گرجا گھر باقی رہے گا نہ یہود کے معبد خانے محفوظ رہیں گے اور نہ ہی عبادت کے دوسرے مقامات کی حفاظت ممکن ہوگی۔ پس اسلام کی یہ بنیادی تعلیم ہے کہ مذہب کی حفاظت کرنی ہے۔ اسلام کی اس حقیقی تعلیم کی روشنی میں ہم احمدی مسلمان حضرت موسیٰ کی بھی تعظیم کرتے ہیں، حضرت عیسیٰ کی بھی عزت کرتے ہیں، اسی طرح ہندو مت کے بزرگوں کو بھی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اللّہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تم نے مشرکوں کے بتوں کو بھی برا نہیں کہنا۔ پس یہ وہ تعلیم ہے جس کے قیام کے لیے ہم مساجد تعمیر کرتے ہیں۔
مسجد ایک خدا کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے تاکہ یہ اس علاقے میں امن کا علامت ثابت ہو۔ میں اس موقعے پر اس علاقے کے مئیر صاحب کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ مئیر صاحب جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ نہایت تعاون کرتے ہیں۔ آپ نے ہمارے نیک مقاصد میں ہمارے ساتھ تعاون کرکے دوستی کا حق ادا کردیا ہے۔
یہ مسجد جس علاقے میں ہے وہ کاروباری علاقہ ہے۔ ایسے علاقے میں جہاں دنیاوی خریدوفروخت ہوتی ہے وہاں خدا کی طرف بلانے کے لیے بھی کوئی جگہ ہونی چاہیے۔ پس اس مقصد سے یہ مسجد بڑی اہم جگہ پر واقع ہے۔
آج دنیا تیزی سے تباہی کی طرف جارہی ہے کیونکہ ہم دنیاداری میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ جبکہ ہمیں مسجد یہ پیغام دیتی ہے کہ تم مساکین اور یتامیٰ کا خیال رکھو۔ پس مساجد حقوق اللّہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا بھی پیغام دیتی ہیں۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تلقین فرمائی ہے کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم! ہم مظلوم بھائی کی تو مدد کرسکتے ہیں مگر یہ ظالم کی مدد کیسے کریں گے تو اس پر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روک کر اس کی مدد کرو۔
پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔ یہ وہ مقاصد ہیں کہ جن کے لیے ہم مساجد تعمیر کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم ان مقاصد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنے والے ہوں۔
خدا کرے کہ اس علاقے کے احمدی اس مسجد کی تعمیر کے بعد اب پہلے سے بڑھ کر اسلام کے امن اور محبت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے والے بنیں۔ ایک خدا کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ آمین
اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔
حضور انور کی مسجد مبارک میں تشریف آوری، استقبال، یادگاری تختی کی نقاب کشائی اور نمازوں کی ادائیگی
حضور انور Florstadt روانگی کے لیے پانچ بجے سے چند منٹ قبل مسجد بیت السبوح میں کاروں کے پاس تشریف لائے تو وہاں احباب کی ایک بڑی تعداد اپنے امام کے دیدار کی منتظر تھی جنہوں نے پر جوش اسلامی نعرے بلند کرنے شروع کر دیے۔ پانچ بجے حضور انور کا قافلہ روانہ ہو کر پانچ پچیس پر مسجد مبارک کے سامنے پہنچا تو وہاں موجود احمدیوں نے نعرہ تکبیر بلند کر کے حضور کو خوش آمدید کہا۔
انتظامیہ نے مقامی جماعت کے احباب وخواتین کو مسجد میں بیٹھ کر حضور انور کے استقبال کا کہہ رکھا تھا۔ جو احباب و خواتین مسجد میں جگہ نہ پا سکے ان کے لیے نیچے مسجد سے باہر صف بندی کا انتظام تھا۔ حضور انور کے کار سے باہر تشریف لانے پر مقامی صدر مکرم انس احمد صاحب نے حضور انور کا استقبال کیا۔ عزیزم رضوان احمد ابن شہزاد منظور صاحب نے حضور انور کی خدمت میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ ناصرات الاحمدیہ کا ایک گروپ جو ۱۱ بچیوں پر مشتمل تھا اور اسی طرح بچوں کا ایک گروپ جو ۱۴ بچوں پر مشتمل تھا مسلسل احمدی نغمے گا رہا تھا۔ حضور انور حاضرین کے سلام کا جواب دیتے ہوئے افتتاحی تختی کی طرف تشریف لائے اور اس کی نقاب کشائی کی۔ اس موقع پر ہونے والی دعا میں سب حاضرین شامل ہوئے۔
اس کے بعد نمازوں کی ادائیگی کے لیے حضور انور پہلی منزل پر تشریف لے گئے اور ظہر وعصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کے بعد حضور انور نے صدر جماعت سے عمارت کی تفصیل پوچھی۔ چند مقامی احباب سے مخاطب ہوئے اور پھر بالکون میں تشریف لے جا کر مسجد کے بیرونی حصہ کا جائزہ لیا۔ پھر حضور پہلی منزل سے نیچے تشریف لا کر خواتین کی مسجد میں سلام کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حضور انور نے ترانہ پڑھنے والے دونوں گروپوں کے بچوں میں چاکلیٹ تقسیم کیے۔ شہر کے مئیر جو حضور انور سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے کو اس موقع پر حضور انور سے گفتگو کرنے اور حضور انور کے ہمراہ صحن میں یادگاری پودا لگانے کا شرف حاصل ہوا۔ حضور انور کے یادگاری پودا لگانے کے بعد مقامی مجلس عاملہ اور وقار عمل میں نمایاں خدمت کرنے والوں کو حضور انور کے ساتھ تصویر کھچوانے کا شرف حاصل ہوا۔ جس کے بعد حضور انور کا قافلہ استقبالیہ ہال کی طرف روانہ ہوا۔ روانگی کے وقت مرد حضرات نعرے لگا رہے تھے جبکہ خواتین کی طرف جذباتی مناظر اور ہچکیوں بھری دعاؤں کے ساتھ اپنے پیارے امام کو رخصت کیا۔
استقبالیہ تقریب
مسجد مبارک کے افتتاح کی خوشی میں اور حضور انور کے اعزاز میں مقامی جماعت نے قریب ہی ایک بڑے ہال میں استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں علاقے سے دوسو سے زائد مہمان مدعو کیے گئے تھے جن میں سیاسی، سماجی اور سوشل شخصیات کے علاوہ اساتذہ، پولیس افسران اور سرکاری محکمہ جات کے لوگ شامل تھے۔ حضور انور جب ہال میں پہنچے تو تمام حاضرین احتراما کھڑے ہو گئے۔ حضور کے ساتھ سٹیج پر شہر کے مئیر Unger Herbert اور امیر صاحب جماعت جرمنی بھی موجود تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے جرمن ترجمہ کے ساتھ ہوا۔ آغاز میں مکرم امیر صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد مسجد مبارک کی تعمیر کی تفاصیل بیان کیں۔
آپ نے بتایا کہ یہ 811 سکوئر میٹر کا پلاٹ شہر کے عین وسط میں موجود 10 جنوری 2015ء کو خریدا گیا اور اسی سال 18 اکتوبر کو حضور نے مسجد مبارک کا سنگ بنیاد رکھا۔ البتہ بعض وجوہات پر مسجد کی تعمیر یکم نومبر 2021ء کو شروع ہوسکی۔ اس مسجد کے آرکیٹیکٹ ایک احمدی نوجوان انور شہزاد خان صاحب ہیں۔ اس میں دو منزلوں پر بیک وقت ایک سو مرد اور ایک سو خواتین نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چالیس افراد کے لیے کمیونٹی ہال، لائبریری، آفس اور کچن بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں بجلی کے لیے سولر سسٹم لگایا گیا ہے۔ ایک احمدی دوست 80 مساجد کو سولر سسٹم پر لانے کے خواہشمند ہیں۔ محترم امیر صاحب نے علاقہ کی بعض شخصیات کا نام لے کر ان کے خصوصی تعاون پر ان کا شکریہ اداکیا۔
اس کے بعد شہر کے مئیر Unger Herbert نے اپنی تقریر میں مسجد کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس سارے پروجیکٹ کا مرحلہ وار ذکر کیا اور بتایا کہ میں پہلے دن سے اس پروجیکٹ کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے سنگ بنیاد کے دن کو بھی یاد کیا۔ یہ مسجد صرف احمدی احباب کے لیے ہی نہیں بلکہ یہاں کا ہر وہ شہری جو معاشرہ کی اجتماعی ترقی چاہتا ہے اس مسجد کو اپنا سمجھتا ہے۔ مسجد کا بننا معاشرہ کے لیے نیک فال ہے۔ مئیر نے تقریر کے شروع میں سب کو السلام علیکم اور آخر پر شکریہ کے الفاظ ادا کیے۔
قریبی قصبہ Niderthal کے مئیر Mr.Hahn نے مختصر تقریر میں احمدی ممبران کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسجد مبارک مذاہب کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں مثبت کردار ادا کرے گی۔
صوبائی اسمبلی کے ممبر نے اپنی تقریر میں کہا کہ مسجد کا تعمیر ہونا اور ہم سب کی یہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمنی میں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ احمدیوں کے بارے میں میرا اپنا تاثر اور صوبہ ہیسن کی صوبائی حکومت کا مجموعی تاثر احمدیوں کے بارے میں یہی ہے کہ یہ معاشرہ کا حصہ بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں احمدیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسی مشکلات کا سامنا مسیحی لوگوں کو پاکستان، افغانستان اور ایران میں بھی ہے۔ رواداری، برداشت اور آزادی جمہوریت کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ یہ تینوں چیزیں جرمنی کے آئین کی بنیاد ہیں۔ میں امام جماعت احمدیہ کو خوش آمدید کہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ مسجد مبارک میں عبادت کرنے والے زیادہ سکون محسوس کریں گے۔
اس کے بعد چھ بجکر پچاس منٹ پر حضور انور نے خطاب کا آغاز کیا جو سات بجکر دس منٹ تک جاری رہا۔ جس کے آخر پر حضور انور نے دعا کروائی۔ جس کے بعد سب نے ایک ساتھ عشائیہ تناول کیا۔ کھانے کے بعد کئی مہمان اپنا تعارف کروانے حضور انور کی میز پر حاضر ہوئے جن سے حضور انور نے فردا فردا گفتگو فرمائی۔
شام آٹھ بجے کے قریب حضور انور بیت السبوح واپس تشریف لے گئے جہاں حضور انور نے نو بجے شب مغرب و عشاء کی نمازیں باجماعت پڑھائیں۔ کل کی طرح آج بھی مسجد، ملحقہ ہالز اور بیرونی حصہ نمازیوں سے پر تھا۔ الحمد اللہ
جماعت Florstadt ۔ ایک تعارف
Florstadt فرینکفرٹ کے شمال میں دس ہزار آبادی کا قصبہ ہے یہاں جماعت کا قیام ۱۹۹۵ء میں عمل میں آیا اور اس کا نام Friedberg North تھا۔ بعد میں ممبران کی تعداد بڑھنے پر جماعت کا نام تبدیل کر کے Florstadt رکھ دیا گیا۔
یہاں مسجد کا سنگ بنیاد ۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۵ء کو حضرت امیرالمومنین ایدہ للّٰہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا۔ اس تقریب میں ۱۶۰ مہمان شامل ہوئے تھے جن میں دو شہروں کے مئیر اور علاقہ کی ممبر پارلیمنٹ Mrs.Bettina Müller و دیگر معززین شہر شامل تھے۔ اس کی رپورٹ ۱۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء کے الفضل میں شائع ہوئی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں سنگ بنیاد کے وقت مبران جماعت کی تعداد ۱۱۵ تھی جو اب افتتاح کے سال ۲۵۰ ہوچکی ہے۔ الحمد للہ
٭…٭…٭