مساجد کی زینت اور ڈائیٹنگ کےمتعلق قیمتی نصائح بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ۔(الاعراف:۳۲)ترجمہ: اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(ترجمہ از حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ترجمةالقرآن کلاس ۸۷؍ میں سورۃ الاعراف آیت نمبر ۳۲ کی تشریح میں مساجد کی زینت کے ساتھ ساتھ ہماری صحت کے بارے میں بھی قیمتی نصائح فرمائیں۔ اس میں سے کچھ حصہ پیش ہے۔
آپؒ نے فرمایا:اے بنی آدم اپنی زینت ہر مسجد میں لے کر جایا کرو۔ زینت کونسی ہے؟ لباس التقویٰ۔ اور زینت کے دوسرے معنے بھی یہاں مراد ہیں جب مسجدوں میں جاؤ تو گندے بُسے ہوئے کپڑے پہن کر نہ جایا کرو۔ بعض لوگ تو نائٹ گاؤن میں بھی مسجد پہنچ جاتے ہیں،کہ مسجد میں جانا ہے کیا فرق پڑتا ہے۔ حالانکہ اللہ کے حضور جانا ہوتو ظاہری لحاظ سے بھی صاف ستھرے نظیف ہو کر جانا چاہیے۔ اس لیے جو اچھے کپڑے مہیا ہوں وہ پہن کر جانا چاہیے۔ بعض لوگوں نے تہ شدہ اچھے کپڑے الگ رکھے ہوتے ہیں کہ مسجد میں جاکر خراب ہو جائیں گے اور اتار کر وہ چُڑ مُڑ کپڑے پہن کر چلے جاتے ہیں۔ …
سب سے اچھی جگہ جہاں آپ کو خوبصورت بن کر دکھاناچاہیے وہ خدا کا گھر ہے۔ اور وہاں اس لباس میں نہ جاؤ جس لباس میں تم کسی اَور مجلس میں جانے سے شرماؤ۔ یہ بنیادی اصول ہے۔ جب انسان کسی ایسے لوگوں سے ملتا ہے جہاں اس کو خیال ہوتا ہے میں کیا لگ رہا ہوں۔ جس لباس میں بے تکلف اُن سے مل سکتا ہے اُس پر اگر وہ مسجد میں آتا ہے تو اُس پر کوئی اعتراض نہیں اُس کا وہی زینت کا لباس ہے۔پس زینت کے دو معنی ہیں۔ ایک اچھا خوبصورت دکھائی دینے والا لباس، صاف ستھرا اور اچھا لباس دوسرا تقویٰ کا لباس۔
بعض چیزوں سے واقعةً ہر مذہب روکتا ہے کہ نہیں کھانی اور بعض چیزوں کے کھانے کے متعلق اجازت دیتا ہے۔ مگر فرماتا ہے کہ اُس کی بھی ایک زینت ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کھانے کا حکم دیتا ہے وہاں حدّ اعتدال میں رہتے ہوئے ایسا حکم دیتا ہے۔ پس زینت بھی استعمال کرو مگر مناسب رنگ میں۔ کھاؤ پیو مگر اعتدال کے ساتھ۔ یہ جو تعلیم ہے حقیقت میں تو ڈائٹینگ کے خلاف ہے۔ جو لوگ ڈائیٹنگ شروع کردیتے ہیں اُس کا قرآنِ کریم میں کہیں کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اللہ کی خاطر روزے کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن پتلے ہونے کی خاطر بھوکا رہنے کا ذکرقرآنِ کریم میں کہیں نہیں ملتا۔ ذکر ہے تو لَا تُسۡرِفُوۡا کا اور اِس سے اچھی ڈائیٹنگ کی تعلیم دنیا میں ممکن نہیں جو صحت کو قائم رکھتے ہوئے جسم کو مناسب رکھتی ہے
غالباً اِسی آیت کی تفصیل میں آنحضرت ﷺ نے یہ بات فرمائی کہ کھانا کھاتے وقت اُس وقت ہاتھ کھینچ لو جب ابھی بھوک باقی ہو۔ یہ ہے کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا۔ اِسراف سے کام نہ لو اور حد سے زیادہ تکلفات نہ کرو۔ سب چیزیں اس میں آجاتی ہیں۔ یہ عمومی تعلیم ہے۔
مگر خاص طور پر یہ کہ جتنا کھاناہے اِس سے زیادہ نہیں کھانا اِس کا مسجد سے بھی ایک تعلق ہے کیونکہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ یہ جو زیادہ ڈکار والے لوگ ہیں یہ مسجد میں میرے پاس نہ آیا کریں ۔ وہ سب کو مصیبت ڈالتے ہیں ۔ مزید فرمایا کہ بعض ڈکار فاقے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں وہ بے بُو کے ہوتے ہیں۔ بعض ڈکار کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔
مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا:جو کھانے میں زیادتی کرتے ہیں اور پھر بدبُودار چیزیں بھی کھا لیتے ہیں، مُولیاں بہت کھالیں، پیاز بہت کھالیے اور ڈکار ڈکار کے ساری مسجد کی فضا خراب کردی تو خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ میں لازم تھا کہ کھانے کی پاکیزگی اور اعتدال کی تعلیم بھی بیان کی جائے۔ مسجدوں کو زینت دینے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ظاہری شکل سے اچھی دکھائی دیں بلکہ ستھری فضا والی ہوں اور خوشبودار ہوں اور اُن میں بدبوئیں نہ پھیلاتے پھرو۔ اس لیے وضو توڑنے کی ایسی عظیم تعلیم دے دی ہے جو باقی مذاہب میں نہیں ملتی۔ اُن کے ہاں گرجے ہوں، مَندر ہوں کہیں وضو نہیں ٹوٹتا اور مسلمان کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے غریب بھی صفائی کا ایک معیار رکھنے پر مجبور ہے۔
تو ایک ہی تعلیم میں ایک ہی بات میں بظاہر بے تعلق باتوں کو ایسا جوڑ دیا ہے کہ آدم کی کہانی سے بھی جُڑ گئی اور روز مرہ کے دستور سے بھی جُڑ گئی اور ڈائیٹنگ کی تعلیم بھی دے دی۔
وہ خواتین جو اِس کے باوجود ڈائیٹنگ کرتی ہیں اُن کے دماغ پر اثر پڑتا ہے۔ کئی بار میری بحث ہوئی ہے کہ عورتیں بیچاری جو فاقہ کرتی ہیں اُن کے جسم ڈھلک جاتے ہیں اور انہیں کمزوری،نقاہتیں اور خون میں کمزوری ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ دائمی مریض بن جاتی ہیں۔ اور دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ دماغ پر اثر پڑتا ہے sense of logicختم ہو جاتی ہے۔ اُن سےبحث کرو تو اُلٹی پُلٹی بحثیں کرتی ہیں۔ اِس لیے یہ بحث بھی چل پڑی ہے کہ پہلے دماغ پر اثر پڑتا ہے یا بعد میں پڑتا ہے۔
یہ حکمت کی بات ہے کہ اگر آپ جب بھوک ابھی پوری مِٹی نہ ہو ہاتھ کھینچ کر کھانا کھائیں تو جتنی آپ کی ضرورت تھی وہ آپ کو ملے گی اور ضرورت سے زیادہ چربی نہیں چڑھے گی۔ اپنی زندگی کو فعال رکھیں یہ نہ ہو کہ ڈائیٹنگ کر کے بیٹھ کر نمازیں پڑھنا شروع ہوجائیںکہ کھڑے ہونا بھی تکلیف کا موجب ہوجائے۔ اپنی زندگی فعال رکھیں، روز مرّ ہ کاموں میں حصّہ لیں اور اگر توفیق ہو تو سیر بھی کریں یا ہلکی ورزش کریں۔ اُس میں بھی وَلَا تُسۡرِفُوۡا کی تعلیم کو پیشِ نظر رکھیں۔
ورزش میں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ایسی ورزش جس کو ساری عمر نہ نبھا سکیں،تو یہ ورزش نقصان کا موجب بن جاتی ہے اور اکثر ورزش چھوڑنے کے بعد وہ سب چربی واپس آجاتی ہے جس سے نجات پائی تھی اور پہلے سے بھی بدتر حالت ہوجاتی ہے۔ پس ورزش میں بھی اِسراف نہیں کرنا۔ ہلکی رکھیں مگر اُتنی جس کو آپ مینٹین(maintain) کر سکیں اس کو آخر تک نبھا سکیں ۔ اور زندگی کی عادات ایکٹو (active) بنائیں۔ چُستی کے ساتھ اُٹھنا،چُستی کے ساتھ پھرنا۔ ڈھیلا ڈھالا مصیبت کے ساتھ اٹھنا اِس کی عادت نہ ڈالیں۔ آپ کو سونے کا بھی اعتدال کرنا پڑے گا تب جسم بہترین جسم ہے۔
آخری بات یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ضروری نہیں کہ جسم کا موٹا ہونا بدصورتی ہو۔ یہ بالکل غلط ہے۔ جسم کا فِل فِل ہونا، چربیاں لٹک جائیں یا کھال لٹک جائے وہ جو بدصورتی کا موجب ہے اور وہ مرد ہو یا عورت ہواس کے حُسن میں کمی پیدا کرتا ہے۔ اگر جسم توانا اور فَرم ہو تو موٹے بھی اچھے لگتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اُنہوں نے کھانے میں اِسراف کرکے اپنے پیٹ کو بے ہنگم نہ کرلیا ہو۔
اس لیے وہ لوگ جن کو انفرورٹی کمپلیکس (Inferiority complex) نہ ہو وہ موٹاپے میں بھی خوش رہتے ہیں اور اچھے بھی لگتے ہیں۔ اور اُن کو ہمیشہ اعتماد رہتا ہے کہ ہم باعثِ کشش ہیں۔ جو چیز مارتی ہے وہ انفرورٹی کمپلیکس ہے۔ یعنی یہ احساسِ کمتری کہ ہم ذرا سے موٹے ہوگئے ہیں اب کیسے لگیں گے؟ ہر وقت جو لوگوں کو دکھانے کے لیے بنتی ہیں اُن کی کوئی بات بھی صحیح نہیں رہتی۔ ہر کَل ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ اِس لیے خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ کا تعلق خدا نے مسجد سےباندھ دیا اور اسراف کا تعلق بھی مسجد سے باندھ دیا۔
مراد یہ ہے کہ اگر تم اللہ کی نظر میں ٹھیک رہنے کو اپنا مدعا بنالو تو پھر دنیا کی کچھ پروا نہ کرنا۔ اگر تم خدا کی نظر میں ٹھیک ہو اور تمہاری زینت اللہ کے حضور درست ہے تو یقین کرو کہ تم اعتماد کے لائق انسان ہو۔ یعنی تمہیں اپنے نفس پر اعتماد کرنا چاہیے کہ تم ٹھیک ہو۔ پھر توہمات میں پڑ کر اپنی زندگی برباد نہ کرو۔
(ماخوذ از ترجمة القرآن کلاس نمبر ۸۷۔ سورۃ الاعراف۔ آیت نمبر ۳۲)
یہ ہماری صحت کے لیے انمول نصائح ہیں جس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔ ویسے تو ہم عورتوں کے بارے میں ایک تاثر عام ہے کہ ہم ہر وقت کپڑوں کے پیچھے ہی پڑی رہتی ہیں اب یہ بات کتنے فیصد صحیح ہے اس کا تجزیہ ہر کوئی خود کرسکتا ہے لیکن اس سے تو بہتر ہے کہ ہم اپنی صحت کے پیچھے پڑ جائیں گھر میں بھی تازہ اور صحت والے اجزاء سے کھانا بنائیں۔ کبھی کبھی باہر سے کھانا کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم عورتوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ کبھی کبھی ہماری بھی کچن سے چھٹی ہو (ویسے چھٹی کے چانس کم ہی ہوتے ہیں )لیکن باہر بھی اچھی خوراک کا انتخاب کریں۔
بعض دفعہ اگر کوئی شادی بیاہ کا فنکشن ہو تو بچیاں شارٹ ڈائیٹنگ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ سوچ کر کہ صرف دو تین ہفتے رہ گئے ہیں کچھ وزن کم ہو جائے اور پھر میڈیکل سٹور سے یا بازار سے ڈرنکس وغیرہ استعمال کرتی ہیں جس سے وقتی طور پر تو وزن کم ہو جاتا ہے مگر جیسے یہ ڈرنکس چھوڑدیا جائے تو پہلے سے بھی زیادہ موٹاپا ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس طرح کی ڈائیٹنگ سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ بعض دفعہ بچیاں بڑے شوق سے بتاتی ہیں کہ ہم تو ناشتہ میں صرف جوس ہی پیتے ہیں یا کوئی کہہ دیتا ہے کہ ہم تو صرف چائے ہی پیتے ہیں جب کہ یہ ہمارے لیے مضرِ صحت ہے۔ اس لیے ناشتہ ہمیں بھرپور طریقے سے کرنا چاہیے۔ اگر ہم صبح آٹھ بجے سے نو بجے تک بھی ناشتہ کرلیں تو دوپہر ایک بجے تک سارا ناشتہ ہضم ہو جاتا ہے اور جسم میں توانائی بھی رہتی ہے۔ اُ س کے بعد دوپہر اور پھر رات کا کھانا کم کھایا جاسکتا ہے۔
ہم چاہے روٹی کھائیں یا چاول ہر کھانے کی ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ بعض دفعہ مائیں خود اپنا کھانا کھانے کے بعد یہ سوچ کر کہ ضائع نہ ہو بچوں کا بچا ہوا کھانا بھی کھالیتی ہیں چاہے یہ تین چار لقمے ہی ہوں۔مگر یہ تین چار لقمے بھی ہمارے جسم میں زائد کیلیریز بنا دیتےہیں۔اس لیے یا تو بچوں کو تھوڑا ڈال کر دیں جو ختم ہو جائے تو اَور لے لیں یا پھر بچوں کا بچا ہوا کھانا سنبھال کر یافریج میں رکھ دیں اور دوسرے ٹائم اپنا کھانا کم لے کر بچوں کا شامل کر لیں۔
اگر ہم ایک سیب کھاتے ہیں تو اس میں تقریباً ۵۲؍ کیلیریز ہوتی ہیں اور اگر ہم ایک کیک کا پیس جو کریم والا یا چاکلیٹ والا ہو تو اس میں ۲۵۰؍ سے بھی زیادہ کیلیریز ہوتی ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کیسے بے توجہگی کی وجہ سے اپنے وزن کو بڑھا لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں اپنی خوراک پر توجہ دینی چاہیے۔ اچھی اور وِٹامن سے بھر پور خوراک کا انتخاب کریں۔
آخر میں مساجد کی زینت کے حوالے سے اپنی بہنوں کی خدمت میں ایک عاجزانہ درخواست ہے ویسے تو اللہ کا فضل ہے کہ عام طور پرہماری بہنیں اس پر توجہ دیتی ہیں لیکن بعض دفعہ بے خیالی میں یا وقت کی کمی کی وجہ سے جن کپڑوں کے ساتھ کھانا بنایا ہوا ہوتا ہے انہی کپڑوں کے ساتھ مسجد پہنچ جاتی ہیں جس کی وجہ سے مسجد میں مصالحہ جات کی ناگوار سی مہک یا تلے ہوئے تیل کی مہک سے مسجد کی زینت پر بھی اثر پڑتا ہے اور مسجد کی فضا بھی ناخوشگوار ہو جاتی ہے اس لیے گھر کے کاموں کے بعد چند منٹ مسجد آنے کے لیے ضرور نکالیں اور صاف ستھرا لباس پہن کر آئیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحت والی اور فعال زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین