دل و جاں سے والدین کی خدمت بجا لاؤ
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا (الدھر:۹) اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولاد جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرتے تو وہ گویا یتیم ہی ہے۔ پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہو گا۔
(ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۳۸۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
بٹالہ کے سفر کے دوران حضرت اقدس، شیخ عبدالرحمٰن صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے (جو ہندو ہیں) حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ ان کے حق میں دعا کیاکرو ۔ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہئے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو۔ اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کرسکتے۔ سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے۔ شاید خداتعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے۔ اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا۔ دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرماں برداری کرنی چاہئے۔ دل و جاں سے ان کی خدمت بجا لاؤ۔
(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۱۷۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بعض ایسے مشکلات آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہوگئی تھی۔ بہرحال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبر گیری کے واسطے ہر وقت تیار رہو۔جب کوئی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ دو۔ تمہاری نیت کا ثواب تم کو مل رہے گا۔ اگر محض دین کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے۔ اصلاح کو مد نظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحاظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو۔ یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا حضرت ابراہیم ؑکو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ بہرحال خدا کا حق مقدم ہے پس خدا کو مقدم کرو اور ا پنی طرف سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہو اور اُن کے حق میں دعا کرتے رہو اور صحت نیت کا خیال رکھو۔
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۶۰-۶۱، پرانا ایڈیشن)