حضرت مصلح موعود ؓ

کامل ایمان حاصل کرو (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۶؍دسمبر ۱۹۱۸ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ جمعہ میں ایمان کو اس کے ثمرات کے ساتھ منسلک فرمایا ہے،ایسا ایمان جس کے ساتھ ثمرات نہیں تو وہ ناقص ایمان ہے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

حضور ؓنے تشہد و تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

جو بات انسان سمجھتا اور یقین رکھتا ہے اس کے متعلق اس کا یقین اگر انتہا تک پہنچ جائے تو ضرور اس کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہر آم کا درخت پھل دار نہیں ہوتا اور ہر ایک سنگترہ کے پیڑ کو پھل نہیں آتا۔ ہر انگور کی بیل کو خوشۂ انگور نہیں لگتا۔ اور ہر بیری کے درخت پر بیر نہیں آتے، لیکن اگر تمام پہلو درست ہوں درخت کی ظاہری اور باطنی حالت میں کوئی نقص نہ ہو تو ضرور پھل آتے ہیں۔پس ثمرات کا پیدا نہ ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ درخت جس نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔پھل کے نہ آنے کے باعث اس کے نام سے انکار ہوجائےگا۔ پھل نہ ہوں لیکن نام اس کا ہی رہے گا جو فی الواقع ہے۔ یعنی آم کا درخت۔ سنگترہ کا پیڑ۔ انگور کی بیل وغیرہ وغیرہ۔ ہاں پھل کا نہ ہونا اس بات کی ضرور دلیل ہوگا کہ اس کو کمال حاصل نہیں ہے۔ پس

پھل کے نہ ہونے سے کمال کی نفی ہوگی۔ اس کے اسم کی نفی نہیں ہو سکتی۔

یہی حال ایمان کا ہے۔ بہت لوگ مومن ہوتے ہیں۔ مگر ان کا ایمان ثمردار نہیں ہوتا۔ لیکن

ثمرات کے نہ ہونے سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مومن نہیں۔ مومن تو ہیں، لیکن کامل مومن نہیں۔

جس غرض کے لئے ایمان دنیا میں نازل کیا گیا ہے۔وہ غرض ان کے ایمان سے پوری نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک شخص ایک حد تک مومن ہو مگر ایمان کے ثمرات نہ رکھتا ہو تو اس کا ایمان کامل نہیں ہوگا۔ چنانچہ بہت لوگ ہیں جو اپنے عقائد پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً بہت عیسائی ہیں جو سچّے دل سے عیسائیت پر ایمان رکھتے ہیں مگر ان اعمال کو جو کچھ بھی عیسائیت میں ہیں بجا نہیں لاتے۔ یا بہت ہندو ہیں جو سچّے دل سے اپنے دھرم پر یقین رکھنے کے باوجودہندوانہ رسوم و اعمال کو بجا نہیں لاتے۔ یا مثلاً بہت سے مسلمان ہیں جو سچّے دل سے اسلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر باوجود اس یقین کے وہ شریعت پر عمل نہیں کرتے۔

اگر ان کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تب بھی مسلمان کہلانے سے انکار کرناپسند نہیں کریں گے۔

لیکن عملی طور پر اسلام پر نہیں چلیں گے یہی حالت دوسرے مذاہب کے لوگوں کی ہے۔ مگر باوجود اس جاں نثاری کے ان کے اعمال اس مذہب کے مطابق نہیں ہوتے۔

پس

جو لوگ کسی کے کامل ایمان کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس کے ثمرات دیکھیں

کہ آیا اس کی عبادات شریعت کے مطابق ہیںیا نہیں۔ وہ اس کے احکام کا خیال رکھتا ہے یا نہیں۔ اور کیا ایسی حالت ہے یا نہیں کہ بھول کر بھی خدا کی نافرمانی کا خیال دل میں پیدا نہیں ہوتا۔ جس کی فطرتِ صحیحہ ہوگی وہ چاہے گا کہ اس کا ایمان کامل ہو۔ کیونکہ کوئی شخص اچھی چیز کو چھوڑ کر بُری کو ہرگز نہیں اختیار کرے گا۔اور عمدہ اور طیب رزق کو چھوڑکر سڑے اور گلے رزق کو نہیں کھائیگا۔ پس اسی طرح فطرت صحیحہ والا شخص یہی چاہے گا کہ اس کا ایمان کامل ہو۔ یہ نہیں چاہے گا کہ اس کا ایمان نامکمل اور اُدھورا ہو، لیکن کامل ایمان وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ ثمرات ہوتے ہیں۔

رسولِ کریم ﷺ کا ایمان حقیقی ایمان تھا

سب مسلمان الحمد للہ کہتے ہیں اور الحمد للہ کے معنی یہ ہیں کہ سب سچی تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں، جو ہر قسم کے نقصوں سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے۔پس جس کے لئے سب تعریفیں ہوںگی وہی سب سے زیادہ حسین ہوگا اور جو سب سے زیادہ حسین ہوگا وہی زیادہ محبوب اور مطلوب ہوگا۔ اس لئے جو الحمد للہ کہتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی حسین نہیں، لیکن اگر وہ اور چیزوں کی بھی پرستش کرتا ہے تو وہ حقیقت میں الحمد للہ کے ثمرات سے بے خبر ہے۔ یوں تو الحمد للہ اپنے رنگ میں ہر ایک مذہب کاا ٓدمی کہے گا مگر عمل اس کے مخالف ہوگا، لیکن جن کو واقعی اس پر یقین ہوگا۔ اُن کا عمل ان کے ایمان پر گواہی دے گا۔

ان لوگوں کے مقابلہ میں جو الحمد للہ تو کہتے ہیں مگر ان کے اعمال اس پر گواہی نہیں دیتے۔ رسول کریم ﷺ کو دیکھو آپ نے بھی الحمد للہ کہا۔ کہ خدا کے لئے سب خوبیاں ہیں۔ پھر آپ نے اس قول کو زندگی کے ہر شعبے میں نباہا۔ فرانس کا ایک مشہور مصنف لکھتا ہے کہ ہم کچھ بھی(نعوذ باللہ) محمد(ﷺ) کے متعلق کہیں، ہم کہیں کہ وہ پاگل تھا۔ مجنوں تھا۔ اس نے دُنیا میں ظلم کئے اس نے سوسائٹی میں تفرقہ ڈالا۔مگر

ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس کو خُدا کے نام کا سخت جنون تھا

ہم اَور کچھ بھی کہہ دیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کو خدا سے تعلق نہیں تھا۔ وہ جو کچھ بھی کرتا۔ اور وہ جس حالت میں بھی نظر آتا، خداکانا م ضرور اس کی زبان پر ہوتا ۔اگر وہ کھانا کھاتا تو خدا کا نام لیتا۔ اگر کپڑا پہنتا تو خُدا کا نام لیتا۔ اگر پاخانہ جاتا تو خدا کا نام لیتا۔ پاخانہ سے فراغت پاتا تو خدا کا نام لیتا۔ شادی کرتا تو خدا کا نام کالیتا۔ غم میں مبتلا ہوتا تو اس خدا کا نام اس کی زبان پر ہوتا۔ کوئی پیدا ہوتا تو خدا کا نام لیتا۔کوئی مرتاتوخداکانام لیتا۔اگراٹھتاتوخداکانام لیتا۔بیٹھتاتوخداکانام لیتا۔ سونے لگتا تو خدا کا نام لیتا۔جاگتا تو خدا کا نام لیتا۔صبح ہوتی تو خدا کا نام لیتا شام ہوتی تو خدا کا نام لیتا۔

بہرحال محمد ﷺکو کچھ بھی کہو مگر اللہ کے لفظ کا اس کو ضرور جنون تھا۔

یہ نمونہ ہے آپ کے اعمال کا کہ دشمن سے دشمن بھی مجبور ہے اس بات کا اقرار کرنے پر کہ آپ کے لب پر ہر وقت اور ہر حال میں اور آپ کی ہر ایک حرکت و سکون میں خدا ہی نظر آتا تھا۔

یہ ایمان ہے جو اسلام مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس مومن کو چاہیے کہ کامل ایمان پیدا کرے۔ بہت ہیں جو ایمان کی لاف مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کو ہی تمام خوبیوں والا یقین کرتے ہیں مگر ان کے اعمال اس کے خلاف ہوتے ہیں۔

مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ تمام دُنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا کے برابر حسین ا ور خدا کے برابر خیر و خوبی والی ہو

ہر ایک چیز میں تغیر اور زوال ہے۔ حتیٰ کہ طبقات الارض والے کہتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب کہ سُورج اور چاند بھی ٹوٹ جائیں گے۔ ایک نئی زمین اور نیا آسمان نیا سورج اور نیا چاند پیدا کیا جائےگا۔ پس ان تمام اشیاء میں تغیر ہے۔ مگر خدا کے لئے فنا نہیں۔ کوئی چیز نہیں جو خدا کے سوا کام آنےوالی ہو۔ اس لیے اس سے تعلق پیدا کرو۔ اور اسی سے محبّت کرو۔ اسی سے پیار کرو دُنیا کے رشتے کسی کام نہیں آئیں گے محض خدا کی محبت اور اسی کا تعلق کام آنے والی چیز ہے۔ کیونکہ آخر میں اسی سے واسطہ ہے اور وہی اس قابل ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ ہر حالت اور ہر ایک شعبہ زندگی و موت میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ خدا کی ذات ہی ایسی ذات ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ پس اپنے اندر کامل ایمان پیدا کرو۔(الفضل ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button