اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہوگی
جو لوگ نری بیعت کر کے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ ان کو نفس نے دھوکا دیا ہے۔ دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے اگر وہ اس حدتک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے یہ نہیں ہو سکتا ۔پس اس حد تک صفائی کرو اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔انسان جب متّقی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے اور پھر اس کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے نہ صرف نجات بلکہ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:۴)۔پس یاد رکھو جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے۔اور انعام و اکرام بھی کرتا ہے اور پھر متقی خدا کے ولی ہو جاتے ہیں۔ تقویٰ ہی اکرام کا باعث ہے کوئی خواہ کتنا ہی لکھا پڑھا ہوا ہو وہ اس کی عزت و تکریم کا باعث نہیں اگر متقی نہ ہو۔لیکن اگر ادنیٰ درجہ کا آدمی بالکل اُمی ہومگر متقی ہو وہ معزز ہوگا۔
(ملفوظات جلد۴صفحہ۳۶۱-۳۶۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے تقویٰ ہونا چاہیے نہ یہ کہ تلوار اٹھاؤ۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہوگی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزواعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں۔ یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اس وقت کُل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لوکہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے۔اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے مگر اب خدا چاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکل نہیں ہو سکتے۔
(ملفوظات جلد۴صفحہ۳۵۷-۳۵۸، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)