پریس ریلیز:منجانب انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی
پاکستان میں بسنے والے احمدی مسلمانوں کے بارے میں خبریں شائع کرنے پر حکام بالا نے صحافیوں پر پابندی لگا دی
ہم ایک مرتبہ پھرعالمی برادری سے یہ پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے احمدیوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے اوران شیطانی حملوں کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لے کے آئے
پاکستانی اقلیتوں کی پریس اور سینسر شپ کی آزادی کے بارے میں چونکا دینے والی خبر سن کر انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی میں سخت پریشانی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
پاکستانی صحافیوں کی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ ان کو جماعت احمدیہ مسلمہ کے بارے میں رپورٹنگ سے منع اور روک دیا گیا ہے۔ ایک بلا منافع ادارے (non-profit organisation) لوک سجاگ کے ایک سروے (http://loksujag.com/story/media-and- minorities-eng) میں ۷۳ فیصد پاکستانی صحافیوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کو جماعت احمدیہ کے بارے میں رپورٹ فائل کرنے کے بارے میں روک دیا گیا ہے۔ اگر کوئی رپورٹ کربھی دے تو وہ شائع ہی نہیں ہوتی۔ احمدی پہلے سے ہی ملک میں بہت زیادہ امتیازی سلوک اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور اب ان کی خبریں نیوز میڈیا کی طرف سے سنسر کی جارہی ہیں۔ میڈیا اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو اور ناانصافی کو بے نقاب کرتے ہوئے طاقتور کے سامنے سچ بولے۔
پاکستان میں مذہبی آزادی پہلے ہی تباہ و بربادی کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ مذہبی انتہا پسندوں اورسرکاری حکام کی طرف سے اقلیتیں مسلسل حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہیں اور اب آزادیٔ صحافت بھی ماضی کی ایک یادبنتی جارہی ہے۔
لوک سجاگ کی رپورٹ کے مطابق خاص طور پر ٹی وی چینلز اقلیتوں کے ساتھ پیش آنے والی ناانصافیوں کے بارے میں غفلت برتتے ہیں۔ اسی طرح اردو اخبارات کا بھی یہی رویہ ہے۔ ایڈیٹرز اس بارے میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایسی رپورٹس کو اس لیے دبا دیا جاتا ہے تاکہ حالات مزید خراب نہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا گروپس کے ایسے خیالات اورپالیسیاں من گھڑت ہیں اور اس انتہائی اہم معاملہ پروہ خودساختہ سنسرشپ کا میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
صحافی کہتے ہیں کہ جب وہ اقلیتوں کی خبروں کی رپورٹنگ کرتے ہیں توان کو دھمکیوں پر مشتمل فون کالزآتی ہیں یہاں تک کہ ان پر حملے بھی کیے جاتے ہیں اور خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے ملک بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)کے سیکرٹری جنرل رانا عظیم نے لوک سجاگ کو بتایا: ”صحافیوں کو اقلیتوں کے معاملات کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر بہت سے چلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات سرکاری ادارے رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں اور پھر میڈیا ہاؤسزخود ساختہ پالیسیوں کے تحت سنسرشپ عائد کردیتے ہیں۔“
یاد رہے کہ صرف احمدی مسلمانوں کی آوازیں ہی سنسر نہیں کی جارہیں بلکہ دیگر اقلیتوں سے بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ سروے کے طابق ۱۸؍فیصد صحافیوں نے کہا ہے کہ مسیحیوں کی خبریں بھی روک دی جاتی ہیں جبکہ ۹؍ فیصد صحافیوں نے کہا کہ سکھ برادری کی خبریں بھی سنسر کی گئیں ۔
دنیا بھر کے ہیومن رائٹس گروپس، پاکستان میں اقلیتوں اور خاص طور پر جماعت احمدیہ کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب پرعدم توجہ کے حوالے سے اپنی گہری تشویش کا مسلسل اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ نیز احمدیوں پر ہونے والے مظالم اورامتیازی سلوک کے خاتمہ کےحوالے سے عالمی برادری کو اقدامات کرنے کے لیےکہا جاتارہا ہے۔
یاد رہے کہ مورخہ ۱۳؍جولائی ۲۰۲۱ء کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے دنیا بھرمیں جماعت احمدیہ افراد کے انسانی حقوق کی پامالی اورخلاف ورزیوں کے ارتکاب پرعدم توجہ کے حوالے سے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اورعالمی برادری کو جماعت احمدیہ پر ہونے والے مظالم کو روکنےکے بارے میں اقدامات کرنے کے لیے کہا تھا۔
ہم ایک مرتبہ پھرعالمی برادری سے یہ پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حکومت پاکستان پردباؤڈالے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اپنے ملک کے تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اوراحمدیوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے۔ نیز ان شیطانی حملوں کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لے کے آئے ۔ حکومت پاکستان ایسے قواعد و ضوابط بھی بنائے جو عالمی معیاروں مثلاً آرٹیکل ۲، ۱۸۔ نیز سول اور پولیٹیکل رائٹس کے عالمی عہدنامہ The International covenant on Civil and Political Rights(ICCPR)کے آرٹیکل ۲۵۔۲۶ سے مطابقت رکھتے ہوں۔
ترجمان جماعت احمدیہ کا بیان
جناب سلیم الدین صاحب، ترجمان جماعت احمدیہ نے اپنے ٹویٹر بیان میں کہا ہے: لاہور ہائیکورٹ نے آج ۳۱؍اگست ۲۰۲۳ء کو جاری کیے گئے اپنے ایک حکم میں پولیس اتھارٹیز کو جماعت احمدیہ کی مساجد کی ساخت اور بناوٹ میں ردوبدل کرنے سے روک دیا ہے۔ عزت مآب جج مسٹر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ایک کیس بعنوان عمران حمید وغیرہ بمقابلہ ریاست وغیرہ میں جو فیصلہ دیا ہے اس کے پیرا گراف نمبر ۱۶ میں واضح طور پر یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ (PPC)کی دفعات 298-B اور298-C میں یہ کہیں نہیں لکھا گیا کہ آرڈیننس نمبر ۲۰ ۔1984ء سے پہلے کی تعمیر شدہ احمدیہ مساجد کو مسمار کیا جائے یا ان کی شکل اور بناوٹ کو تبدیل کیاجائے۔
ترجمان جماعت احمدیہ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف پاکستان میں ایک منظم نفرت انگیز مہم کے نتیجہ میں گزشتہ ۳۔ ۴ سال میں درجنوں احمدی مساجد کو مسمار کرکے ان کی بے حرمتی کی جاچکی ہے۔ صرف رواں سال یعنی ۲۰۲۳ء ہی میں ۲۲ ۔ احمدیہ مساجد کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا جماعت احمدیہ، یہ امید کرتی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج کے اس حالیہ فیصلہ کے مطابق اور پاکستانی آئین کے احکامات کی روشنی میں پولیس اپنے فرائض کما حقہ سرانجام دے گی اور احمدیہ مساجد کی حفاظت بجا لائے گی۔ ایسی ڈیوٹی انجام نہیں دے گی جس میں اپنے فرائض میں غفلت ہو یا وہ احمدیہ مساجد کی بے حرمتی کے حالیہ واقعات کا حصہ بن جائے۔
(انگریزی سے ترجمہ: ابوسدید)