ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دوم)
روزمرہ کی میڈیا بریفنگ
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں میرے قیام کے دوران خاکسار کو حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ سے روزانہ صبح ملاقات کا شرف ملتا رہا جیسا کہ دورانِ سال جاری رہتا ہے۔ ان ملاقاتوں میں عام طور پرمیں حضور انورکے دفتر میں داخل ہوتا ہوں اور سلام عرض کرنے کے بعد حضور انور کے سامنے والی نشست پر بیٹھ جاتا ہوں۔
کئی بار پر حضورانور پہلے سے ہی اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اس لیے میں انتظار کرتا ہوں تاکہ حضورِانور میری رپورٹ ملاحظہ فرمانے کے لیے توجہ فرمائیں۔ بالعموم چند لمحات یا کچھ منٹوں کے بعد حضور انور مجھے فرماتے ہیں کہ تم کیا لائے ہو؟ یا تمہاری کیا رپورٹ ہے؟
بعد ازاں میں حضور انور کی خدمت میں روز مرہ کی میڈیا بریفنگ پیش کرتاہوں جس میںخبروں کا خلاصہ پیش ہوتا ہے،جماعتی بھی اور دنیاوی امور کے متعلق بھی۔ بسا اوقات میں کچھ ایسےتبصرے یا خیالات بھی شامل کر لیتا ہوں جو میرے نزدیک حضور انور کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں۔کبھی کبھار میں ایک ہلکی پھلکی storyبھی شامل کر لیتا ہوں جو میں خیال کرتا ہوں کہ حضور انور اس سے لطف اندوز ہو ں گے۔ یقینی طور پر حضور انور کی مسکراہٹ یا تبسم کا مشاہدہ کرنے کا ہر موقع انمول ہوتا ہے۔
کبھی کبھار چند مضامین ایسے ہوتے ہیں جن میں اسلام پر بہتان تراشی کی گئی ہوتی ہے یا دہشت گرد حملوں کی تفصیلات ہوتی ہیں۔ ایسے مواقع پر میں حضور انور سے راہنمائی حاصل کرتا ہوں کہ بطور پریس اینڈ میڈیاآفس ہمارا کیا رد عمل ہونا چاہیے؟ ہمارا پریس اینڈ میڈیا آفس نہایت خوش قسمت ہے کہ ہمیں روزانہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے حضور انور کی راہنمائی میسر ہوتی ہے۔
پھر دیگر ممالک کی جماعتیں ہیں، اپنےمسائل میںانہیں مدد اور راہنمائی درکار ہوتی ہے۔اس لیے وہ ہمارے دفتر کے ذریعہ حضور انور کو اپنے سوالات بھجواتے ہیں۔ایسے مواقع پر حضور ا نور ساتھ ساتھ راہنمائی فرماتے جاتے ہیں۔حضورانور کی راہنمائی نہایت پُر حکمت ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔کئی مواقع پر جہاں کوئی (دہشت گرد) حملہ ہوتا ہے جس میں کئی لوگ جاں بحق ہو جاتے ہیں، حضور انور ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کی مذمت آپ کی طرف سے شائع ہو جبکہ بعض مواقع پر آپ ہدایت فرماتے ہیں کہ ان کی مذمت ہمارے دفتر کی طرف سے جائے۔ ایک برکت جو خاص طور پر مَیں نے خلافت کے زیرِ سایہ محسوس کی وہ یہ ہے کہ حضرت خلیفة المسیح کے ایسے الفاظ ایسی تاثیر رکھتے ہیں جو ہمیں یقین سے بھر دیتے ہیں۔
بسا اوقات میری ٹیم اور میں کچھ دن یا ہفتے کسی معاملے پر سوچ بچار میں گزارتے ہیں اور اس کے بارے میں ہماری آرا مختلف ہوتی ہیں۔ تاہم جونہی حضور انور کی طرف سے ہمیں کوئی راہنمائی یا ہدایت موصول ہوتی ہے تو ہم اپنے سابقہ خیالات کو پسِ پشت رکھ کر پورے وثوق کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیںکہ حضور انورنے جو فرمایا وہی درست ہے۔
کبھی کبھار کسی معاملے کے متعلق حضور انور کا جواب ہمارے لیے ابتدائی طور پر نہایت حیران کن ہوتا ہے لیکن ہمارا پختہ ایمان ہے کہ حضور انور کا ہر ارشاد پُر حکمت ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حکمت اور حضور انور کے الفاظ کے پوشیدہ فوائد کھل کر روزِ روشن کی طرح واضح ہوتےجاتے ہیں۔
حضور انو ر کی دفتر جلسہ سالانہ کو راہنمائی
حضور انور نے ۷؍ اگست ۲۰۱۶ء کو جلسہ سالانہ یوکے کے انتظامات کا معائنہ فرمایا۔جماعت احمدیہ یوکے ا س حوالہ سے نہایت خوش قسمت ہے کہ ہر سال حضور انور جلسہ سالانہ کے انتظامات کا تفصیلی معائنہ فرماتے ہیں ۔حسبِ روایت یہ معائنہ جلسہ سے قبل اتوار کے روز ہوتا ہے اور اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔در حقیقت حضور انور جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات پر خاص نظر رکھتے ہیں۔ اس حوالہ سے مَیں نے مکرم محمد ناصر خان صاحب افسر جلسہ سالانہ سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ جلسہ سالانہ یوکے کے حوالہ سے کوئی بھی بڑا فیصلہ حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں، راہنمائی اور منظوری کے بغیر نہیں ہوتا۔
مکرم ناصر خان صاحب نے بتایا کہ سب سے پہلے حضور انور خود جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کمیٹی کی منظوری عطا فرماتے ہیں۔ بعد ازاں حضور انور از راہ شفقت خاکسار اور کمیٹی کے دیگر ممبران کو مستقل ملاقات کا شرف بخشتے رہتے ہیں اور ہمارے سوالات کے جوابات مرحمت فرماکر درست سمت میں ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔
مکرم ناصر خان صاحب نے جلسہ سالانہ کے شاملین کے متعلق حضور انور کی محبت کے بارے میں بتایا کہ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ کس طرح حضور انور جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے آرام اور سہولت کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں۔
گذشتہ سال ملاقات کے دوران حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ مارکی میں فرش کو زیادہ آرام دہ بنائیں کیونکہ کئی گھنٹوں تک مہمانوں کو نیچے فرش پر بیٹھنا ہوتا ہے۔اس ہدایت کی روشنی میں ہماری توجہ ایک خاص قسم کا آرام دہ اور نرم فرش تیار کرنے کی طرف مبذول ہوئی جس سے احباب کو بیٹھنے میں کافی سہولت ہوئی ۔
مکرم افسر صاحب جلسہ سالانہ نے مزید بتایا کہ حضور انور جلسہ سے ایک ہفتہ قبل جو خطبہ ارشاد فرماتے ہیں وہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہوتا ہے۔ کیونکہ بالعموم حضور انور جلسہ کے کارکنان اور رضاکاروں کو ہدایات سے نوازتے ہیں اور ایسے پہلوؤں کو اجاگر فرماتے ہیں جن کی طرف ہمیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
آپ نے مجھے بتایا کہ کس طرح حضور انور جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے بارے میں فکر مندی کا اظہار فرماتے ہیں۔ آپ نے ۲۰۱۵ء کے جلسہ سالانہ کا ایک واقعہ سنایا جب اشانٹی قبیلہ کے بادشاہ جن کا مقامی لوگ بہت احترام کرتے ہیں گھانا سے سفر کر کے جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔ جب بادشاہ جلسہ سالانہ میں خطاب کرنا چاہتے تھے تو ان کا ذاتی پروٹوکول ایسا تھا کہ وہ سٹیج ایریا میں اپنے جوتے اتارنے پر رضامند نہ تھے۔ اس سے ایک مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کیونکہ سٹیج پر نماز بھی پڑھی جاتی ہے اور اسی وجہ سے سٹیج پر تشریف لے جانے والے جملہ احباب کو اپنے جوتے اتارنے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ کس طرح حل ہوا اس کے بارے میں مکرم ناصر خان صاحب نے بتایا کہ ہمارا یہ خیال تھا کہ سٹیج سے نیچے ساتھ ہی ایک مائیکرو فون رکھ دیا جائے تاکہ بادشاہ جلسہ سے مخاطب ہو سکیں اور اس طرح سٹیج پر آئے بغیر اپنے جوتوں میں ہی خطاب کر سکیں۔ تاہم جب ہم نے حضور انور کو اس کے بارے میں بتایا تو آپ نے اس تجویز کو قبول نہ فرمایا۔
مکرم خان صاحب نے مزید بتایا کہ حضور انور کو ہم سے توقع نہیں تھی کہ ہم کسی طرح بادشاہ کو ناراض کریں، اس لیے آپ نے ہدایت فرمائی کہ عارضی طور پر ایک کارپٹ سٹیج پر بچھا دیا جائے جو سیڑھیوں سے ڈائس تک ہو۔اس طرح بادشاہ اس کارپٹ پر اپنے جوتوں کے ساتھ چل سکے گا۔ اور اس کی تقریر کے بعد اس کارپٹ کو ہٹادیا جائے۔ حضور انور کے الفاظ نہایت پُر حکمت تھے جس سے جہاں مقامِ نماز کا تقدس بھی برقرار رہا وہاں بادشاہ کو ناراض کیے بغیر اس کے مراتب کا خیال بھی رکھا گیا۔
بُک شاپ کا دورہ
حضور انور نے (معائنہ کے دوران)بُک شاپ کا بھی دورہ فرمایا جہاں مکرم ارشد احمدی صاحب نے حضور انور کو نئی کتب سے متعارف کروایا جو جلسہ سالانہ کے موقع پر احباب کے لیے دستیاب ہونی تھیں۔ حضور انور نے مکرم ارشد صاحب اور مکرم امیر صاحب یوکے سے کتاب کشتی نوح کے نئے ایڈیشن نیز حضور انور کی اپنی کتاب World Crisis and the Pathway to Peace کے متعلق ان کی رائے معلوم کی ۔بالخصوص حضور انور نے دونوں کتابوں کے سر ورق کے ڈیزائن کے حوالے سے ان کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ یہ دونوں سرورق ر بہت عمدہ ڈیزائن کیے گئے تھے اور ان کتابوں کے مضامین سے خوب مطابقت رکھتے تھے۔ جہاں اکثر جماعت کی کتب کے سرورق سادہ ہوتے ہیں وہاں ان کتابوں کے ڈیزائن جذبات اور تمثیلی رنگ میں ان کے مضامین کی خوب عکاسی کر رہے تھے۔بعد ازاں حضور انور نے فرمایا کہ دراصل ان دونوں کتابوں کے سرورق کا ڈیزائن میں نے خود بنوایا ہے۔
یہ سننا بہت ہی دلچسپ تھا کہ حضور انور نے ان کتب کے ڈیزائن خود بنوائے تھے اور یہ اس بات کی ایک اَور مثال تھی کہ کس طرح حضور انور ذاتی دلچسپی سے جماعت کی راہنمائی فرماتے ہیں۔
یہ بھی ایک دلچسپ امر تھا کہ حضور انور نے پہلے مکرم امیر صاحب اور مکرم ارشد صاحب سے ان کتب کے ٹائٹلز کے بارے میں ان کی رائے دریافت فرمائی اورپھر ان کی رائے سننے کے بعد انہیں بتایا کہ آپ نے یہ سرورق خودڈیزائن کروائے ہیں۔اگر حضور پہلے انہیں بتا دیتے تو شاید خلافت سے محبت اور احترام کے باعث وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہ کرتے جبکہ حضور انور ان کی تنقیدی رائے سننا چاہتے تھے۔
اس میں ہم سب کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ حضور انور اس قدر عاجز ہیں کہ آپ دوسرے احباب کی رائے بھی سنتے ہیں اور صرف تعریف سنناہی پسند نہیں فرماتے جبکہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو دوسروں سےاپنی تعریف کروانےکے متلاشی رہتے ہیں۔
(مترجم:’’ابو سلطان‘‘ معاونت :مظفرہ ثروت)