بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہونے کی دعا استغفار کہلاتی ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا تو مخلوق کے لئے عام حالات میں بھی غضب بہت کم ہے اور رحم زیادہ ہے۔ …اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ کہہ کر کہ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(النساء:۶۵) کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پاتے، اس پر ایک طرح کا افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مَیں جو اتنا رحیم و کریم ہوں، مَیں توبہ قبول کرنے والا ہوں، اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹنے والا ہوں لیکن انسان پھر بھی اپنے نفس پر ظلم کرنے وا لا ہے اور بخشش طلب نہیں کرتا۔…
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں [استغفار] کے معنے بیان کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ … سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے‘‘۔ (ریویو آف ریلیجنز جلد۱ نمبر ۵؍ مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۸۷-۱۸۸)
یعنی جو استغفار کر رہا ہے اس کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتاکہ بشری کمزوری کبھی ظاہر نہ ہو۔ انسان ہے، بشر ہے کمزوریاں ظاہر ہوتی ہیں۔ شیطان ہر وقت حملے کی تاک میں ہے۔ جب انسان روحانی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے تو شیطان فوراً حملہ کرتا ہے۔ اس لئے شیطان سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب مسلسل انسان استغفار کرتا رہے اور مسلسل خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں رہے۔ تبھی اللہ تعالیٰ کی حمایت اور نصرت کے حلقے میں ایک انسان رہ سکتا ہے۔ ورنہ جیسا کہ ایک جگہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ شیطان تو انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہا ہے جہاں کمزوری آئی شیطان نے حملہ کیا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ستمبر ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء)