جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء کے پہلے اجلاس کی تقاریر
افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز مکرم مولوی محمد بن صالح صاحب امیر و مشنری انچارج گھانا کی زیر صدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ حافظ احتشام صاحب کو سورۃ الفتح کی آیات ۲۹تا۳۰کی تلاوت کرنے کی سعادت ملی۔ سجیل احمد صاحب نے ان آیات کا جرمن ترجمہ اور پھر سید حسن طاہر بخاری صاحب نے اردو ترجمہ از تفسیر صغیر پیش کیا۔ بعد ازاں مصور احمد صاحب نےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا:
یہ کیا اِحساں ترا ہے بندہ پرور
کروں کس منہ سے شکر اے میرے داور
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم صداقت احمد صاحب (مبلغ انچارج و نائب امیر جماعت احمدیہ جرمنی)نےکی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’صد سالہ جوبلی جماعت احمدیہ جرمنی۔ الٰہی افضال سے بھر پور ماضی اور روشن مستقبل‘‘ تھا۔ یہ تقریر اردو زبان میں تھی۔
مقرر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ جب بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے نبی بھیجتا ہے تو وہ ان کا معین و مدد گار ہو جاتا ہے ۔ انہیں کامیاب و کامران کرتا اور انہیں مخالفوں کے مقابلے میں غلبہ عطا کرتا ہے۔ ان کے دشمن ناکام و نامرادر ہتے ہیں۔
مقرر نے سورۃ الاحزاب آیت ۶۳ اور سورة المؤمن آيت ۵۲ پیش کی اور کہا کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو آنحضرت ﷺ کے کامل بروز اور امتی نبی کے طور پر بھیجا ہے تاکہ آپ کے ذریعہ سے اسلام کو از سر نو زندہ کیا جائے۔ پس اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہ جاری سنت دہرائی گئی۔ خدائے قادر و مقتدر کی تائید و نصرت شروع سے ہی آپ اور آپ کی جماعت کے شامل حال رہی۔ ہر دیوار جو آپ کی کامیابی کی راہ میں کھڑی کی گئی خدا کے فضل سے منہدم ہوئی اور ہر مشکل جس میں آپ کو مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی مشکل کشا خدا نے معجزانہ طور پر اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتے ہوئے اس کو دور کر دیا۔ آپ خد اتعالیٰ کی گود اور اس کی حفاظت کے سائے میں ترقیات پر ترقیات حاصل کرتے چلے گئے۔
مقرر نے کہا کہ اسلام کا تمام ادیان پر غالب آنا ایک الٰہی تقدیر ہے اور تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ غلبہ آخری زمانے میں مسیح موعود کے ذریعہ سے ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اس وقت جبکہ آپ گوشہ گمنامی اور کمزوری کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے الہاما ًغلبہ، فتوحات اور ترقیات کی خبریں دیں۔ علام الغیوب خدا سے خبر پا کر آپؑ نے اعلان فرمایا:خد اتعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ … میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا… ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ اور یہ کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔
یہ پیشگوئیاں تو عمومی غلبہ کار نگ رکھتی ہیں ۔لیکن اس روحانی انقلاب کی جھلک دکھاتے ہوئے آپ نے بعض قوموں کا نام لے کر بھی ذکر فرمایا ہے کہ خدا ان میں آپ کے سلسلہ کو پھیلا دے گا اور بالآخر وہ اسلام کی سچائی کی قائل ہو کر آپ کی جماعت میں شامل ہو جائیں گی۔ زار روس کا عصا آپ نے اپنے ہاتھوں میں دیکھا۔ اسی طرح روس میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنی جماعت ریت کے ذروں کی طرح دکھائی۔ اسی طرح آپ نے اہل مکہ کے فوج در فوج خدائے قادر کے گروہ میں شامل ہونے اور صلحائے عرب اور شام کے ابدال کے آپ کو قبول کرنے اور آپ پر درود بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے۔ یورپ اور مغربی اقوام کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ انہیں اسلام سے حصہ ملے گا اوراُن کے دل آفتاب صداقت سے منور کیے جائیں گے۔
آپؑ نے ایک دفعہ رویاء میں دیکھا کہ آپ لندن شہر میں ہیں اور انگریزی زبان میں نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت بیان فرمارہے ہیں۔ پھر اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ آپ نے بہت سے سفید پرندوں کو پکڑا ہے۔ آپؑ نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ اگر چہ آپ خود تو نہیں مگر آپ کی تحریریں مغربی اقوام میں پھیلیں گی اور بہت سے سفید لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی توفیق ملے گی۔پھر آپؑ فرماتے ہیں۔، یورپ اور امریکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس سلسلہ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج
نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار
کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع
پھر ہوئے ہیں چشمہ تو حید پر از جاں نثار
مقرر نے کہا کہ یہ غلبہ اور فتوحات بندوق یا تلوار کے زور سے نہیں بلکہ یہ دلائل اور دعا کے ہتھیار سے ہوں گی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے زیورک میں ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ جب صحافی نے سوال کیا کہ آپ یورپ میں اپنا مشن کیسے سر انجام دیں گے۔اس پر حضور نے برجستہ جواب دیا کہWe try to win the hearts یعنی ہم دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں گے۔
مقرر نے کہا کہ یورپ صدیوں سے مادیت اور مسیحیت کا گڑھ ہے اس کا مسلمان ہو نالار یب اسلام کی ایک بہت بڑی فتح ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی دلی تمنا تھی کہ یورپ میں جلد سے جلد اسلام کی اشاعت ہو ۔ اس حوالے سے آپ کے دل میں بہت تڑپ تھی ۔یورپی اقوام میں سے جرمن قوم غیر معمولی مقام رکھتی ہے اور اس کا کیریکٹر بہت بلند ہے۔ آپؑ نے جہاں دوسری اہم قوموں کو اسلام کی طرف دعوت دی وہاں جرمن قوم کی اہمیت اور عظمت کے پیش نظر اس عظیم قوم کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیم سے متعارف کرانا ضروری سمجھا ۔ آپ نے نہ صرف اس قوم کے پادریوں اور پیشواؤں کو مخطوط اور اشتہارات ارسال فرمائے بلکہ آپ کی آواز کی باز گشت جرمنی کے ایوانوں میں بھی سنائی دی۔ اس لحاظ سے جرمنی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن خوش قسمت ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دست مبارک سے اسلام کا زندگی بخش پیغام پہنچایا۔
آپؑ نے اپنے دعویٰ سے بھی بہت پہلے یعنی ۱۸۸۵ء میں جرمن شہزادہ بسمارک کو ایک خط کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی۔ جرمنی میں آپؑ کی تبلیغ کا اس قدر چر چاتھا کہ صوبہ بائرن کے ایک قصبہ Passing کی ایک خاتون مسنر کار ولا من نے ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں ایک مخلصانہ خط لکھا اور پوچھا کہ وہ دنیا کے اس حصہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہیں۔ اسی طرح اس نے آپؑ کو اپنا فوٹو بھجوانے کی درخواست کی اور لکھا کہ پیارے مرزا صاحب میں آپ کی مخلص دوست ہوں۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں جرمن زبان سیکھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔
خلافت اولیٰ میں برطانیہ میں تو جماعت کا مشن قائم ہو چکا تھا۔ لیکن جرمنی ابھی اس سعادت سے محروم تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جرمنی میں بھی مشن کھولنے کا فیصلہ فرمایا۔ ۱۹۲۲ء میں مولوی مبارک علی صاحب بنگالی لنڈن سے جرمنی بھجوائے گئے اور انہوں نے اپنی مساعی کا آغاز برلن سے کیا۔ اس کے بعد جلد ہی ملک غلام فرید صاحب ایم اے کو بھی جرمنی بھجوا دیا گیا ان دونوں کے ذریعہ دسمبر ۱۹۲۳ء میں جرمنی میں مشن قائم ہوا۔ یہ یورپ میں قائم ہونے والا دوسرا اسلامی مشن تھا۔ برلن میں مسجد کی تعمیر کے لیے نہ صرف پلاٹ خریدا گیا بلکہ مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جرمنی کے سیاسی اور معاشی حالات یکایک بدل گئے ۔ کساد بازاری عام ہو گئی اور قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ ہو گیا۔ ان حالات میں حضرت مصلح موعودؓ نے برلن میں مسجد تعمیر کرنے کا کام ملتوی کر دیا اور مبلغین سلسلہ کو جرمنی سے واپس بلا لیا۔
مقرر نے کہاکہ۲۰۲۳ء کا سال جماعت احمد یہ جرمنی کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال جماعت احمدیہ جرمنی کو قائم ہوئے سو سال ہو گئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہمارا صد سالہ جوبلی کا سال ہے اور اسے ہم اظہار تشکر کے طور پر منا رہے ہیں۔ سوسالہ سفر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار ترقیات سے نوازا ۔ جب دوسری جنگ عظیم جاری تھی تو حضرت مصلح موعود ؓ نے خداتعالیٰ سے خبر پا کر بتایا کہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر اس جنگ میں جرمنی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد احمدیت کا بہترین مقام جر منی ہو گا۔
چنانچہ جنگ عظیم دوم میں جرمنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ کے بعد اشاعت اسلام کے لیے جو نہی حالات سازگار ہوئے تو فوری طور پر حضرت مصلح موعودؓ نے جرمنی میں تبلیغی مشن کا از سر نو احیاء کرنے کی غرض سے تین مبلغین کو بھجوایا۔ ۲۰؍جنوری۱۹۴۹ءچودھری عبد اللطیف صاحب کو جرمنی میں داخلے کی اجازت ملی۔ ۲۵؍سال کے لمبے وقفہ کے بعد جرمنی میں اسلامی مشن کا احیاء عمل میں آیا اور اس طرح حضرت مصلح موعودؓ کی دیرنیہ خواہش پوری ہوئی۔ ہمبرگ میں اٹھارہ افراد پر مشتمل جرمنی کی پہلی جماعت قائم ہوئی۔ چرچ کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع شروع میں جرمن لوگ سمجھتے تھے کہ احمدیوں کی یہ تبلیغی سرگرمیاں چند روز کا کھیل ہیں۔ ایک کیتھولک اخبار نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ مغرب میں زیادہ کامیابی کی امید نہ رکھیں بہتر یہی ہے کہ اپنا بوریا بستر ابھی سے باندھ لیں اور واپسی کی ٹھان لیں۔ چودھری صاحب مسلسل ۱۰ سال تک تن تنہا جر منی میں دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔
۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جرمنی کا دورہ کیا۔ ۱۹۵۷ء میں ہمبرگ میںمسجد فضل عمر اور پھر ۱۹۵۹ء میں فرانکفرٹ میں مسجد نور کی تعمیر ہوئی۔ متعدد کتب کے جر من تراجم شائع ہوئے۔ جرمن ترجمہ قران کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔
۱۹۳۴ء میں احرار کی طرف سے جو فتنہ پیدا کیا گیا اس کے بعد حضرت مصلح موعود ؓ نے ۱۰ جنوری ۱۹۳۶ء کو خطبہ جمعہ میں احمدیوں کو دنیا میں پھیل جانے کی تحریک فرمائی۔
۱۹۵۳ء پھر ۱۹۷۴ء کے فسادات کے بعد احمدیوں نے مغربی ممالک کا رخ کیا ۔ اس سے جرمنی میں جماعت کو کسی حد تک تقویت ملی۔۱۹۸۴ء میں لگنے والا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ خدا تعالیٰ نے گویا گھسیٹ کر احمدیوں کو بیدار کیا اور اس کی تقدیر نے انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ خلافت احمدیہ کو بھی پاکستان چھوڑ کر انگلستان منتقل ہونا پڑا۔ ہر احمد ی چونکہ خلافت کا فدائی ہے اور خلیفہ وقت کے ساتھ انتہائی محبت کا تعلق رکھتا ہے۔ ان مہاجرین میں سے ایک بھاری تعداد کی منزل جر منی تھی ۔ اس ہجرت کے نتیجہ میں جرمنی کے طول و عرض میں بڑی تیزی کے ساتھ جماعتیں قائم ہو گئیں اور ترقیات کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے خلفا سلسلہ پر یہ بات ظاہر فرمائی کہ یورپ میں سب سے پہلے جرمنی نے اسلام قبول کرنا ہے اورسارے یورپ کی اس قوم نے قیادت کرنی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ اس حوالے سے خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ جر من قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اس روح کو بلند کرنے کے لیے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی۔
حضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۷۳ء میں جرمنی کے دورے کے دوران فرانکفرٹ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ پچاس سے سو سال کے اندر اندر اس آسمانی انقلاب کو دنیا عموماً اور جرمن قوم خصوصاً تسلیم کرلے گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک موقعہ پر فرمایاکہ مجھے جرمنی کا مستقبل بہت روشن دکھائی دیتا ہے انشاء اللہ عظیم جر من قوم تمام یورپ کی تمام پہلوؤں سے قیادت کرے گی۔ گو کہ جرمن قوم عیسائیت قبول کرنے میں سب سے آخر میں تھی لیکن انشاءاللہ اسلام قبول کرنے میں سب سے پہلے ہوگی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: انشاء اللہ اس قوم میں احمدیت پھیلے گی اور جس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے جر من احمدی اپنے ہم قوموں کے اس ظالمانہ رویے سے شرمندہ ہو رہے ہیں۔ آئندہ انشاء اللہ لاکھوں کروڑوں جر من ان لوگوں کے خدا اور انبیاء کے بارے میں غلط نظریہ رکھنے پر شرمندہ ہوں گے۔ جرمن ایک با عمل قوم ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگر آج کے احمدی نے اپنے فرائض تبلیغ احسن طور پر انجام دیے تو اس قوم کے لوگ ایک عظیم انقلاب پیدا کریں گے ۔
مکرم عابد خان صاحب کو حضور نے فرمایا: میری والدہ محترمہ نے بھی خواب میں دیکھا کہ انہیں جرمنی کی کنجیاں دی گئیں۔ پس ایک دن جرمنی میں اسلام کا بریک تھرو ہو گا اور بہت سارے مقامی لوگ اسلام کی سچی تعلیم کو قبول کر لیں گے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے احمدی انتہائی محنت سے کام کریں اور ممکنہ حد تک اس کی بہترین مثال قائم کریں۔
مقرر نے کہا کہ خلفائے احمدیت کے جرمنی میں اسلام کی ترقی کے بارے میں وقت کی مناسبت سے صرف چند ارشادات پیش کیے ہیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس بنیاد کے رکھے جانے کا ذکر فرمایا ہے اب خاکسار اس کی کچھ تفصیل آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلام احمدیت کی ترقی کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہو رہی ہے۔
تقریباً پچاس سال قبل جماعت احمدیہ جرمنی کے ترقیات کی طرف سفر میں تیزی آنا شروع ہوئی۔ پہلے پچاس سال تو بنیاد بنانے اور آئندہ ترقیات کے لیے راہ ہموار کرنے میں گزرے۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہاں جرمنی میں ہمارے کیا حالات تھے۔ ہم کہاں کھڑے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کہاں پہنچ چکے ہیں۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان موجودہ ترقیات کا اندازہ ہمارے وہ بھائی بخوبی کر سکتے ہیں جو پچھلے ۴۰، ۵۰ سالوں سے ادھر ہیں اور انہوں نے جماعت احمد یہ جرمنی کو ترقی کی غیر معمولی منازل طے کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
مقرر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے :
۱۹۸۲ء تک جرمنی میں صرف دو مشن ہاؤسز کام کر رہے تھے اب جماعتوں کی تعداد ۲۰۷ ہو چکی ہے۔ ۱۲ لوکل امارتوں کے ۸۵ حلقہ جات بھی ہیں۔
۸؍افراد سے شروع ہونے والی جماعت ۵۴ ہزار نفوس سے تجاوز کر چکی ہے۔ آج جر من جماعت یورپ کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔
پاکستان کے بعد سب سے زیادہ ۱۰ ہزار سے زیادہ واقفین نو جرمنی میں ہیں ۔
اسی طرح پاکستان اور انڈیا کے بعد سب سے زیادہ ۱۴۴۵۹؍موصیان جرمنی میں ہیں۔ ۵۰ فیصد چندہ دہندگان کو نظام وصیت میں شامل کرنے کا ٹارگٹ جماعت جرمنی نے اللہ کے فضل سے ۲۰۰۷ میں حاصل کر لیا تھا۔ اب ہمارا ٹارگٹ جرمنی کی تجنید کے پندرہ سال سے زائد عمر کے کل افراد کا ۵۰ فیصد حصہ نظام وصیت میں شامل کرنے کا ۷۱ فیصد ٹارگٹ بھی حاصل کر لیا ہے ۔
مالی لحاظ سے یورپ کی سب سے مستحکم جماعت جرمنی کی جماعت ہے اور اس کا بجٹ ۴۰ ملین یوروز سے تجاوز کر چکا ہے۔ ۱۹۸۲ء میں ہمارا بجٹ ۴۹۵۳۰؍جر من مارک تھا۔ وقف جدید و تحریک جدید میں قربانی خدا کے فضل سے مثالی ہے۔
۱۰۰ مساجد سکیم کے تحت اس وقت تک کل ۸۳ مساجد تعمیر ہو چکی ہیں یا پھر تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ مسجد فنڈ میں ہر سال تقریباً ساڑھے پانچ ملین یوروز کی قربانی کرنے کی توفیق جرمنی کے احمدیوں کو مل رہی ہے۔
پچھلے دس سالوں میں جرمنی بھر میں کل ۷۲ ملین تبلیغی فلائیرز تقسیم ہوئے اس بابرکت کام میں پندرہ ہزار افراد جماعت نے حصہ لیا ۷۹۶۱؍ٹیمیں بھجوائی گئیں اور ۷۴۸۲۰؍ مقامات پر فلائیرز تقسیم ہوئے۔ تین ملین کلو میٹر سے زائد کا سفر کیا گیا۔ ہر ماہ تقریباً پندرہ لاکھ لوگ ہماری ویب سائٹ پر آکر معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح پچھلے دس سالوں میں ۷۲۴۷؍تبلیغی سٹینڈ، ۲۴۱۸؍تبلیغی نشستیں، ۵۲۳ پریس کانفرنسز، ۲۲۳؍بڑی جبکہ ۱۹۶۶؍چھوٹی نمائشیں، ۱۰۰؍شہروں میں بل بورڈ، ۲۳۰؍میئر ز کے ساتھ ملاقات کی گئی۔
اس وقت جرمن، عربی اور ترکی زبان میں تین ہاٹ لائنین چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں اور سالانہ تیس ہزار کالز موصول ہوتی ہیں۔
آذر بائی جانی، چینی، روسی، یوکرائینی، ازبک اور فارسی کی ویب سائٹس جرمنی سے کام کر رہی ہیں اسی طرح ان زبانوں میں یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے چینلز بھی کام کر رہے ہیں۔ جرمن ریڈیو Stimme des Islams کے ساتھ ساتھ ترکی اور عربی میں بھی ریڈیو کام کر رہے ہیں۔
البانیہ، بوز نیا، میسی ڈونیا، رومانیہ، سلوینا، چیک ریپبلک، سلواکیا، کروشیا، سربیا، آئس لینڈ، بلغاریہ، ہنگری،مالٹا سمیت۳۰؍ممالک میں جماعت جر منی کو اسلام احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق ملی۔ جرمنی اشاعت اسلام کے کام میں یورپ کی قیادت کرے گا والی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔
سابق سوویت یونین کے سات ممالک اسٹونیا، لٹویا، لیتھوینیا، آذربائیجان، آرمینیا، جارجیا اور مالدووا میں جماعت کا پودا لگانے، رجسٹریشن کرانے، مشن قائم کرنے، مبلغین کو بھجوانے وغیرہ کے بنیادی کام کرنے کی توفیق جماعت احمد یہ جرمنی کو ملی ہے اور سابق سوویت یونین کے دس ممالک میں جامعہ احمد یہ جرمنی سے فارغ التحصیل مبلغین مصروف عمل ہیں۔
جلسہ سالانہ جرمنی کا آغاز بھی خلافت ثالثہ کے دور میں ہوا۔ پہلا جلسہ ۱۹۷۵ء میں ہمبرگ میں ہوا۔ جس میں ۷۰ کے قریب افراد نے شرکت کی۔ جلسہ سالانہ ہمبرگ، فرانکفرٹ، ناصر باغ، من با ئم، کالسروئے سے ہوتا ہوا اس سال خدا کے فضل سے سٹٹ گارٹ کے وسیع و عریض ہالز میں منعقد ہو رہا ہے۔
خلفائے احمدیت نے یو کے کے بعد سب سے زیادہ جرمنی کے جلسوں کو رونق بخشی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں ہونے والے جلسہ میں ۴۲ ہزار افراد نے شرکت کی اور اس سال توقع ہے کہ ۵۰ ہزار لوگ اس جلسہ میں شامل ہوں گے۔ ہیو مینٹی فرسٹ جرمنی اور النصرت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔
جرمنی کے دو صوبوں میں جماعت احمدیہ جرمنی کو عیسائیوں کے دو بڑے فرقوں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے برابر حقوق مل چکے ہیں۔ ۵ ملین مسلمانوں میں سے کسی اور مسلمان تنظیم کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ ان دونوں صوبوں میں سکولوں کے لیے اسلامیات کے نصاب کی تیاری کے عمل میں جماعت کو شامل کیا جاتا ہے۔
۲۰؍اگست ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے با قاعدہ جامعہ احمدیہ جرمنی کا افتتاح فرمایا۔ پہلے یہ بیت السبوح کی عمارت میں تھا پھر Rietstadt میں الگ سے ایک خوبصورت عمارت تیار ہوئی جس کا افتتاح حضور انور نے ۲۰۱۲ء میں فرمایا۔
اس وقت تک ۱۲۲ مربیان تیار ہو چکے ہیں جو جر منی کے علاوہ دیگر یورپی ممالک، روس اور سابقہ روسی ریاستوں میں خدمات کی توفیق پارہے ہیں۔ اس وقت جرمنی میں ۱۳۵ مربیان خدمت دین کی توفیق پار ہے ہیں۔ الحمد للہ
جماعت جرمنی کو چار خلفاء سے براہ راست روحانی فیض حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جرمنی کا دورہ کیا۔ چھ دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور ۳۱ بارحضرت خلیفۃ المسح الرابعؒ تشریف لائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی جماعت جر منی کو برطانیہ کے بعد سب سے زیادہ فیض حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد تقریباً ہر سال ہی حضور پر نور جرمنی تشریف لاتے رہے۔ کووڈ کے سالوں کے علاوہ صرف ایک سال حضور تشریف نہ لا سکے ۔
ان کاتذکرہ ہم صرف اور صرف تحدیث نعمت کے طور پر کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَاَما بنعمة ربک فحدث (الضحی :۱۲) یعنی تو اپنے رب کی نعمتوں کا ضرور تذکرہ کر تارہ۔ پس خدا کی نعمتوں کا ذکر ہوتےرہنا چاہیے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: عجز و نیاز اور انکسار ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن حکم آیت کریمہ واما بنعمة ربک فحدث (الضحی:۱۲) نعماء الہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے۔
مقرر نے کہا کہ اس سال جہاں جماعت کو جرمنی میں قائم ہوئے ایک سو سال ہوئے ہیں اس کے ساتھ ہی ہم نئی صدی میں داخل ہو رہے ہیں۔ ۱۰۰ سال پورے ہونے پر ہم ایک منزل پر پہنچے ہیں۔ ہمارا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد اس سے بڑھ کر اور بلند منازل کی طرف ہمارے قدم اٹھنے ہیں اور احمدیت کی ترقیات اور فتوحات کے نئے دور میں ہم نے داخل ہونا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس نئے دور میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلنے والے ہیں کہ ہم سابقہ ترقیات کو بھول جائیں گے اور ہر آنے والا دن غیر معمولی فتوحات کے ساتھ طلوع ہو گا۔ انشاء اللہ
پس اس سنہری اور روشن دور کو قریب سے قریب ترلانے کے لیے ہمیں انتہائی محنت، جانفشانی اور دعا سے کام لینا ہو گا۔ پہلے سے بڑھ کر جدوجہد کرنی ہو گی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد ہم نے کیا ہے اس کو پورا کرنا ہو گا۔ خدمت دین کے لیے اپنی جان، مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ہمارے اوپر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ شکر کا اظہار اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرنے اور ان کو با حسن ادا کرنے کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے۔
اس ترقی کو جاری رکھنے اور اس میں تیزی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین کی خاطر قربانیاں کرنے والوں اور دین کی خدمت کرنے والوں کی قدر کرتے رہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے پچھلے سو سال میں کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت میں حصہ ڈالا اور ان کو بھی جو اس وقت خدمات دینیہ میں مصروف ہیں ہمیں اپنی دعاؤں میں یا درکھنا چاہیے۔
مقرر نے کہا کہ جرمنی میں احمدیت کی فتح اور کامیابی ایسا امر ہے جو آسمان پر قرار پا چکا ہے اور ناممکن ہے کہ زمینی حربے اور منصوبے اس کو محو کر سکیں۔ یہ خدا کے وسیع پلان کا حصہ ہے۔ اس عظیم قوم کے بارے میں جو پیشگوئیاں کی گئی ہیں ان کے پورا ہونے کے دن بہت ہی قریب ہیں اور اس کے آثار ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں، کروڑوں جرمن احمدیت کے پر امن حصار میں آجائیں گے اور جرمنی کے طول و عرض میں احمدی ہی احمدی آباد ہوں گے۔
خدا خود ہی جبر و استبداد کو برباد کر دے گا
وہ ہر سواحمد ی ہی احمدی آباد کر دے گا
صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہوگی
جہاں میں احمدیت کامیاب و کامراں ہو گی
مقرر نے حضور انور کے ان الفاظ پر تقریر ختم کی۔ حضور فرماتے ہیں کہ یہ دور… انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے… میں یہ بات علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دور کو اپنی بے انتہا تائید و نصرت سے نوازتا ہو اترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ ۔ اور کوئی نہیں جو اس دور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی یہ ترقی رکنے والی ہے۔ خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کا قدم آگے سے آگے انشاء اللہ بڑھتا رہے گا۔
٭…٭…٭
مکرم شیراز احمد رانا صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
صدق سے میری طرف آئو اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم باسل اسلم صاحب نے جرمن زبان میں کی جس کا موضوع ’’حضرت مسیح موعودؑ کےذریعہ: روحانی خزائن کی تقسیم‘‘ تھا۔
مقرر نے سورة الجمعہ کی آیات ۳-۴ کی تلاوت و ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ اگر ہم خزانوں کے بارے بات کرتے ہیں تو مال، دولت، املاک یا پھر علم اور تعلیم جیسے الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔ نیز بعض ایسے بھی ہوں گے جن کے نزدیک معاشرتی اثر و رسوخ اور اقتدار ایک خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے بھی افراد ہیں جو اپنے خاندان اور انسانوں کے باہمی تعلقات کو اپنا خزانہ تصور کرتے ہیں۔ غرض ہر دنیاوی و مادی خیر یا وجود جو ہے، جس کی ہم اپنی زندگی میں بہت قدر کرتے ہیں، اسے خزانہ کا نام دیا جا سکتا ہے اور دیا جاتا بھی ہے۔
مقرر نے لفظ خزانہ کے معنی بتاتے ہوئے کہا کہ خزانہ کہتے ہیں جمع کی ہوئی اشیاء، قیمتی اشیاء کا ذخیرہ یا ایسی شے، جس کی اس کے مالک کے نزدیک بڑی قدر و قیمت ہے، جسے وہ اپنی ملکیت میں رکھنا بڑی اہمیت دیتا ہے ۔
مقرر نے کہا کہ لہذا جب ہم خزانوں کی بات کرتے ہیں تو لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی میں ہمارے لیے وہ کیا ہے جو ہمارے نزدیک قیمتی ہے؟ قیمت کا معیّن کرنا خالصۃً ایک ذاتی و انفرادی شعور کے نتیجہ میں ہونے والا عمل ہے جو کہ مختلف عوامل اور بیرونی اثرات کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ نیز دیگر امور بھی اس process میں اثر انداز ہوتے ہیں جیسے اس شے کے معنے، نفع، اس سے جذباتی ربط، کلچرل اور سماجی اقدار و غیرہ۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہر چیز کی قیمت میں تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔ جو آج قیمتی لگتا ہے، وہی کل بے معنی لگنے لگتا ہے۔ اس کے بر عکس جو آج کم اہمیت کا حامل ہو مستقبل میں اس کی قدر بڑھ بھی سکتی ہے۔ ہر انسان کی اپنی ترجیحات اور قیمت مقرر کرنے کے معیار ہیں۔
اگر ہم حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور ان سے منسلک ان روحانی خزانوں کے بارے بات کریں تو اس وقت تک ان کی قدر اور احترام سمجھ نہیں سکتے جب تک ہم آپؑ کے وجود کی اہمیت اور مسیح موعودؑ کےمقام و مرتبہ کا ادراک نہ حاصل کر لیں۔
اس کے بعد مقرر نے آپؑ کی تحریرات میں سے حضرت مسیح موعودؑ کے مقام و مرتبہ کے بارے بتایا۔
مقرر نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مقام و مرتبہ کے بارے یاد رہے کہ نہ انسان نہ کوئی ادارہ نہ کوئی حکومت تھی جس نے آپ کو اس مشن کے لیے چنا بلکہ اس عالم کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی تھا جس نے آپ کو مامور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خود یہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور اس زمانے کو اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا زمانہ قرار دے دیا۔
مقرر نے سورۃ الکوثر کے حوالہ سے بتایا کہ کوثر کے مختلف معانی میں سے ایک معنی یہ ہےالرجل الکثیر العطاء و الخیر یعنی ایک ایسا شخص جو بہت سخی یعنی عطا کرنے والا ہو اور نیکیوں کو کثرت سے پھیلانے والا ہو۔
حضرت مصلح موعودؓ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سورہ کوثر میں کوثر کے لفظ سے جس بہت سخاوت کرنے والے روحانی فرزندکی خبر دی گئی ہے، اس سے مسیحِ محمدی ہی مراد لیا جائے گا۔اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے، کہ رسول کریمؐ کو ایک ایسے روحانی فرزند کی خبر دی گئی تھی جو آپ کو عطا ہونا تھا جس نے لوگوں کو بہت سا مال عطا کرنا تھا۔اسی لئے آنحضرتؐ نے آنے والے مسیح کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ وَیُفِیْضُ المَالَ حتّیٰ لا یَقْبَلَہُ اَحَد یعنی آنے والا مسیح خزانے تقسیم کرے گا، اتنی تعداد میں کہ انہیں کوئی قبول کرنے والا نہ ہو پائے گا۔
اس پیشگوئی میں مذکور الفاظ کہ “کوئی نہیں ہو گا جو انہیں قبول کر پائے گا” ہمیں واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ مسیح موعودؑ کے تقسیم کردہ خزانے دنیاوی دولتیں نہیں ہوں گی بلکہ یہ کہ آپ کا ورثہ خالصۃً روحانی و لدنّی نوعیت کا ہوگا۔ کیونکہ اگر دنیاوی دولتیں ہوتیں تو لوگ اسے کبھی رد نہ کرتے۔ مادی دولت، مالی کشائش، تعیّش کے سامان اور ایک آسودہ زندگی کی حرص آج کے دور میں کھلم کھلا نظر آتی ہے۔
پس جو خزائن حضرت مسیح موعودؑ لے کر آئے انہیں دنیاوی مال و دولت پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ قدیم سے روحانی کتب اور انبیاء کا یہ طریق چلا آیا ہے کہ روحانی معارف اور علوم کو خزانوں اور دولت کا نام دیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انبیاء اپنے پیچھے دینار اور درہم نہیں چھوڑ کر جاتے ہیں، بلکہ علم و حکمت ان کی اصل میراث ہے
مقرر نے کہا کہ جو خزائن ہمارے زمانے کے نبی حضرت مسیح موعودؑ لائے ہیں وہ ایمان کے خزانے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا حقیقی تصور، قربِ الٰہی کے راستے، ملائکہ کی حقیقت، حضرت خاتم النبیّینؐ کا حقیقی مقام و مرتبہ، عصمتِ انبیاء، حضرت عیسیٰ کی پیدائش، حالاتِ زندگی اور واقعہ صلیب، مسیح کی آمدِ ثانی، ظہورِ امام مہدی، دجالی طاقتوں کی علامتیں، یاجوج ماجوج کی حقیقت، روح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالتیں، حیات بعد الموت، غرض حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی ملفوظات اشتہارات اور ۸۵ سے زائد کتب میں ایک روحانی اور علمی خزانہ ہمارے لیے پیچھے چھوڑا جو انسان کی ہستی کی غرض و غایت اور بنی نوع انسان کی تاریخِ ارتقاء پر روشنی ڈالتا ہے۔ پھر حضرت آدمؑ کا واقعہ، نوحؑ اور آپ کی کشتی کا واقعہ، موسیٰؑ کی کہانی، عیسی ابن مریم کا صلیب سے زندہ بچ جانا اور ان کی کشمیر کی طرف ہجرت کو علم طب اور تاریخ کے عقلی دلائل اور قرآنی دلائل سے ثابت کیا۔
پھر حضر ت مسیح موعودؑ نے فلسفی مباحثات کے زمانے کے عین دوران خدا کا وہ تصور پیش کیا جو مغربی فلسفیوں کے خیالات کے بالکل بر عکس ہے۔ آپ نے ہر ایک فردِ واحد کو اس طرف بلایا اور تلقین فرمائی کہ اس خدا سے ایک گہرا تعلق پیدا کرے ۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے گناہوں کی بخشش کا مضمون بھی ہمیں سمجھا دیا۔
یہ تھیں صرف چند مثالیں ان خزانوں کی جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تحریرات میں کھول کر رکھ دیے۔ ہر ایک تصنیف فی ذاتہٖ ایک علم کا خزانہ ہے۔ جن روحانی خزانوں کی پیشگوئی آنحضرتؐ نے پہلے سے کر دی تھی وہ درحقیقت حضرت مسیح موعودؑ کا مجموعہ تصنیفات ہے جو آپ نے ورثہ میں چھوڑا اور جو “روحانی خزائن” کے نام سے مشہور ہے۔
مقرر نے کہا کہ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم پہلوں سے ملنے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہونے کے لیے اپنی روحانی اور اخلاقی حالت کو بہتر بنائیں۔ آج، ان تکنیکی ترقیوں کی وجہ سے، ہم میں سے ہر ایک کے پاس ان روحانی خزانوں کو حاصل کرنے کاموقع ہے، چاہے وہ پریس کے ذریعے ہو یا ڈیجیٹل شکل میں، ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت جرمنی دنیا کی پہلی قوم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کا اپنی قومی زبان میں مکمل ترجمہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ صرف وہی لوگ اس جام سے حقیقی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس کے لائق ہیں۔ اگر کوئی روحانی طور پر محروم ہے اور روحانی دنیا کا شعور نہ رکھتا ہو تو ایسا شخص اس روحانی علم کے سمندر سے جو آپؑ کی تصنیفات میں موجود ہے، بے بہرہ رہے گا۔
آپؑ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔
پس یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس سلطان القلم مسیح و مہدیؑ کو ماننے کی توفیق ملی اور اس نے ہمیں ان روحانی خزائن کا وارث ٹھہرایا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان بابرکت تحریروں کا مطالعہ کریں۔ تاکہ ہمارے دل، ہمارے سینے اور ہمارے ذہن اس روشنی سے منور ہوجائیں۔ اللہ کرے ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات کے ذریعہ سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معاشرہ میں امن و سلامتی کے دیے جلانے والے بن سکیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(خلاصہ تقاریر تیار کردہ ذیشان محمود، سیرالیون)