سیّدنا صہیبؓ
یَارَبِّ فَارحَمْنَا بِصَحْبِ نَبِیِّنَا
وَاغْفِرْ وَاَنْتَ اللّٰہُ ذُوآلاءِ
مکہ میں سردیوں کا موسم اپنے عروج پہ تھا۔ایک سُرخ و سفید خوبصورت جوان رعنا مکہ سے باہر ایک ٹیلے پرایک شان سے سینہ تان کے کھڑا تھا۔ جبکہ اس ٹیلے کے نیچے قریشِ مکہ کا ایک جتھا اس غرض سے کھڑا تھا کہ اس ٹیلے والے جوان کو جلد از جلد پکڑ کر اس کا خون بہایا جائے یا کم از کم اسے مار پیٹ کرمکہ لے جایا جائے اور قید کی سختیوں سے اس کا ایمان کمزور کیا جائے۔ مگر قریش جانتے نہ تھے کہ اس جوان کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی مضبوطی میں یوں بنایا تھا کہ اب وہ موت کے خوف سے آزاد ہو چکاتھا۔ اس جوان کا ایک مقصد تھا اور ہر بامقصد انسان کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے علاوہ ہر چیز کو ثانوی سمجھتا ہے اور اپنے مقصد کو پانے کی خاطر ہر کسی چیز کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔
اس جوان نے ایک گھن گرج سے بآواز بلند اس خون کے پیاسے گروہ کو پکارا اور کہا :’’اے قریش کے گروہ! تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ماہر تیراندازوں میں سے ہوں۔ اللہ کی قسم! تُم مجھ تک نہیں پہنچ سکتےجب تک کہ جتنے تیر میرے پاس ہیں وہ سب تمہیں مار نہ لوں۔ پھر میں اپنی تلوار سے تمہیں ماروں گا یہاں تک کہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہے۔‘‘
قریش مکہ یہ سن کر شش و پنج میں پڑ گئے کہ اب کیا کیا جائے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ جوان جو کہہ رہا ہے وہ حرف بہ حرف سچ ہے۔وہ مکہ کے بہادروں میں سے ایک بہادر ہے۔
یہ بہادر جوان کون تھا جسے اہلِ مکہ پوری کوشش کر کے پکڑنا چاہتے تھے؟اس خوبصورت جوان کا نام ’’صہیبؓ‘‘ جو کہ مکہ کے ایک نہایت امیر کبیر آدمی تھے۔
حضرت صہیبؓ کی اس للکار سے اہلِ قریش پریشان ہوگئے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگ گئے۔ آخر کچھ دیر بعد ان میں سے ایک بولا :’’صہیب تم ہمارے شہر مکہ میں بالکل خالی ہاتھ آئے تھے۔ اور ہمارے شہر میں ہی تم نے اپنی دولت کمائی اس لیے ہم تمہیں یہاں سے جانے نہیں دیں گے‘‘
حضرت صُہَیبؓ سارا معاملہ سمجھ گئے اور ان سے کہنے لگے : ’’تم لوگ اگر میرا مال چاہتے ہوتو میں تمہیں اپنے مال کے بارےمیں بتا دیتا ہوں کہ میرا مال کہاں ہے اور تم میرا راستہ چھوڑ دو۔‘‘
ان لوگوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ حضرت صہیبؓ نے اس گروہ کو اپنی تمام دولت کی تفصیل بتا دی۔ وہ لوگ حضرت صہیبؓ کو چھوڑ کر مکہ لوٹ گئے اور حضرت صہیبؓ اپنے مطلوب و مقصود پیارے محبوب حضرت محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے جانبِ مدینہ چل پڑے۔
بعض روایات کے مطابق حضرت صہیبؓ کی قریشِ مکہ کے ساتھ اس تجارت پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِؕ وَاللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ(البقرۃ: ۲۰۸)ترجمہ: اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔(ماخوذ از الطبقات الکبری لابن سعد جلد ۳ صہیب بن سنان دارلکتب العلمیہ )
آپؓ جب مدینہ پہنچے تو اس وقت رسول اللہ ﷺ قبا میں قیام پذیر تھے۔ حضرت صہیب نے اپنی ہجرت کا واقعہ آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:رَبِحَ الْبَيْعُ اَبَا يَحْيٰى رَبِحَ الْبَيْعُ اَبَا يَحْيٰى یعنی ابو یحییٰ نے نفع بخش تجارت کی، ابویحییٰ نے نفع بخش تجارت کی۔(مسندحارث،صفحہ۶۹۳،حدیث:۶۷۹)
حضرت صہیبؓ کے والد کا نام سنان اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت قعید تھا۔ آپ کا آبائی وطن موصل تھا۔ آپ موصل کے ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔آپ کے گھرانے کے تعلقات کسریٰ سے بھی تھے۔ رومیوں نے جب آپ کے آبائی علاقے پر حملہ کیا تو حضرت صُہَیبؓ کو قیدی بنا لیا اور اپنے ساتھ روم لے گئے۔حضرت صُہَیبؓ نے رومیوں میں پرورش پائی۔ اس بنا پرآپ صہیب الرومیؓ بھی کہلائے۔
ان کی زبان میں لکنت تھی۔ کَلب نے انہیں رومیوں سے خرید لیا (یہ ایک اَور شخص تھا) اور انہیں لے کر مکہ آ گیا۔ پھرعبداللہ بن جُدْعَان نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ حضرت صُہَیب عبداللہ بن جدعان کی وفات تک اس کے ساتھ مکے میں رہے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوگئی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت صُہَیبؓ کی اولاد کہتی ہے کہ حضرت صُہَیبؓ جب عقل و شعور کی عمر کو پہنچے تو روم سے بھاگ کر مکےآگئے اور عبداللہ بن جدعان کے حلیف بن گئے اور ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ۳ صفحہ۱۷۰ صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت۲۰۱۷ء)
حضرت صہیبؓ کے قبولِ اسلام کے متعلق جاننے کے لیے ہم چلتے ہیں ’’دارِ ارقم‘‘
دارِارقم کو اسلام میں ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ مکہ میں کوہِ صفا پر واقع یہ ایک گھر تھا جس کے مالک حضرت ارقمؓ تھے انہوں نےابتدائے اسلام میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں اسلام قبول کر کے یہ گھر اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کر دیا تھا۔اس گھر میں بہت سے جید صحابہ کرام نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔
جب سیّدی آقا و مولا ﷺ فداہ امی و ابی نے رسالت کا دعویٰ کیا تو یہ خبر حضرت صہیبؓ تک بھی پہنچی اور آپؓ نے اس کی تحقیق کرنا شروع کر دی۔
ابتدائے اسلام کی ایک رات تھی، ہر طرف خاموشی کا پہرہ تھا۔ دارِارقم کے باہر حضرت عمارؓ کھڑے تھے۔ اتنے میں وہ خوبصورت جوان وہاں آجاتا ہے۔ عمارؓ اپنے اس دوست کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ’’ یہاں کیسے آئے ہو؟‘‘
صہیبؓ نے جواب دیا ’’پہلے تم بتاؤ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ حضرت عمارؓ کے دوبارہ استفسار کرنے پر حضرت صہیبؓ نے ہمت کرکے بتایا کہ اس گھر میں موجود ایک ہستی سے ملاقات اور ایک دو سوال کرنے آیا ہوں۔تب عمارؓ نے بےساختہ مسکراہٹ سے اپنے دوست کو کہا اچھا چلو اکٹھے ہی اندر چلتے ہیں۔ جب آپ دونوں دوست اندر گئے تو آپ کا استقبال حضور اکرمﷺ نے کیا اور آپ کے سامنے اسلام پیش کیا۔ حضور اکرمﷺ کے ہاتھ پر آپ نے اسلام قبول کیا اور سارا دن دارِارقم میں گزارا۔ اگلے دن جب شام ہوئی تو چھپتے چھپاتے وہاں سے نکلے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ۳ صفحہ۱۷۱صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت۲۰۱۷ء)
دارِارقم سے نکلے تو رات گہری تھی مگر ایمان کی ایسی شمع ان کے دل میں جل اُٹھی تھی جو تمام کائنات کو روشن کرسکتی تھی۔ رؤسائے مکہ کو جب حضرت صہیبؓ کے ایمان کا علم ہوا تو بڑے غیظ و غضب سے اتنی اذیتیں آپؓ کو دینے لگے جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ان تکالیف کی وجہ سے آپؓ کو پتا بھی نہ چلتا کہ آپؓ کیا کر رہے ہیں۔
جب مسلمان ہجرتِ مدینہ کرنے لگے تو ایک روایت کے مطابق مکہ سے سب سے آخری مسلمان جو مدینہ کے لیے روانہ ہوئے وہ حضرت علیؓ اور حضرت صہیبؓ تھے۔ حضرت صہیبؓ کو ان کی ہجرت کے خوف سے کفار نے قید کر لیا تھا۔سخت سردیوں کے موسم میں جب آپ کے پہرہ دار کچھ غافل ہوئے تو آپؓ موقع غنیمت جان کر بھاگ نکلے۔ خبر ہونے پر کفار نے آپؓ کا تعاقب کیا، مکہ سے باہر آپؓ ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور جب ٹیلہ پر کفار سے تجارت کے بعد دوبارہ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو آپؓ کے پاس زادِراہ کے طور پر قریباً آدھ کلو آٹا ہی تھا جسے آپؓ نے ابوا کے مقام پر پکایا حتیٰ کہ آپؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔(الطبقات الکبری)
حضرت صُہَیب جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپؐ قبا میں تھے۔آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی تھے۔ اس وقت ان سب کے سامنے تازہ کھجوریں تھیں جو حضرت کلثوم بن ہِدْمؓ لائےتھے۔ سفرِ ہجرت کے دوران حضرت صُہَیبؓ کو آشوبِ چشم ہو گیا تھا، آنکھوں کی تکلیف ہو گئی تھی اور انہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ سفر کی وجہ سے تھکان بھی تھی۔ حضرت صُہیبؓ کھجوریں کھانے کے لیے لپکے تو حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! صُہَیب کی طرف دیکھیں اسے آشوبِ چشم ہے اور وہ کھجوریں کھا رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاحاً فرمایا کہ تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تمہیں آشوبِ چشم ہے، آنکھیں سوجی ہوئی ہیں، بہ رہی ہیں۔ حضرت صُہَیبؓ نے عرض کیا میں اپنی آنکھ کے اس حصہ سے کھا رہا ہوں جو ٹھیک ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ مسکرا دیے۔
پھر حضرت صُہَیبؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے محبت بھرا گلہ کیا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہجرت میں مجھے ساتھ لے کر جائیں گے مگر آپ چلے آئے اور مجھے چھوڑ دیا۔
پھر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے مجھے ساتھ لے کر جانے کا وعدہ کیا تھا تاہم آپؐ بھی تشریف لے آئے اور مجھے چھوڑ آئے۔ قریش نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے محبوس کر دیا اور میں نے اپنی جان اور اپنے گھر والوں کو اپنے مال کے عوض خریدا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سودا نفع مند ہے۔(سیر الصحابہ جلد دوم، الطبقات الکبری)
یہاں سے حضرت صہیبؓ کی رسول اللہ ﷺ سے محبت کا ایک نیا باب شروع ہوا جو آپؓ کی وفات تک جاری و ساری رہا۔ آپؓ نے اپنے آقا و مطاع ﷺ کے ہمرا ہ ہر غزوے میں شرکت کی۔ آپؓ خود فرماتے ہیں کہ جس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے مَیں اس میں موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی بیعت لی میں اس میں موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی سریہ روانہ فرمایا مَیں اس میں شامل تھا اور آپؐ جس غزوے کے لیے بھی روانہ ہوئے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھا۔ مَیں آپؐ کے دائیں طرف ہوتا یا بائیں طرف۔ لوگ جب سامنے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں لوگوں کے آگے ہوتا۔ جب لوگ پیچھے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں ان کے پیچھے ہوتا۔ اور میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے اور اپنے درمیان نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ آپؐ کی وفات ہو گئی۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ)
ایک مرتبہ حضرت رسول اللہﷺنے فرمایا:’’اسلام لانے میں سبقت رکھنے والے چار ہیں۔ مَیں عرب میں سبقت رکھنے والا ہوں۔ صُہَیبؓ روم میں سبقت رکھنے والا ہے۔ سلمانؓ اہلِ فارس میں سبقت رکھنے والا ہے۔ اور بلالؓ حبشہ میں سبقت رکھنے والا ہے‘‘(اسدالغابہ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حضرت صہیب سے خاص انسیت تھی۔ حضرت صُہَیبؓ کی زبان میں عجمیت تھی یعنی عربوں والی فصاحت نہیں تھی۔ زَید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ وہ حضرت صُہَیبؓ کے ایک باغ میں داخل ہوئے جو عالیہ مقام میں تھا۔ حضرت صُہَیبؓ نے جب حضرت عمرؓ کو دیکھا تو کہایا ناس! یا ناس!حضرت عمرؓ کو لگا کہ اَلنَّاس کہہ رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا اسے کیا ہوا ہے؟ یہ لوگوں کو کیوں بلا رہا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ وہ اپنے غلام کو بلا رہےہیں جس کا نام یُحَنَّسْ ہے۔ زبان میں گرہ کی وجہ سے وہ اسے ایسا کہہ رہے ہیں۔
آپ کی حضرت عمر سے محبت اور بے تکلفی وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اے صُہَیبؓ! تین باتوں کے علاوہ میں تم میں کوئی عیب نہیں دیکھتا۔ اگر وہ تم میں نہ ہوتیں تو میں تم پر کسی کو فضیلت نہ دیتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو عرب کی طرف منسوب کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان عجمی ہے۔ اور تم اپنی کنیت ابو یحییٰ بتاتے ہو جو ایک نبیؑ کا نام ہے۔ اور تم اپنا مال فضول خرچ کرتے ہو۔
حضرت صُہیبؓ نے جواب میں کہا جہاں تک میرے مال فضول خرچ کرنے کاتعلق ہے تو میں اسے وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں خرچ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ فضول نہیں کرتا۔ جہاں تک میری کنیت کا تعلق ہے تو وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو یحیٰیرکھی تھی اور میں اس کو ہرگز ترک نہیں کروں گا۔ اور جہاں تک میرے عرب کی طرف منسوب ہونے کا تعلق ہے تو رومیوں نے مجھے کم سنی میں قیدی بنا لیا تھا اس لیے میں نے ان کی زبان سیکھ لی۔ مَیں قبیلہ نَمِرْ بِن قَاسِطْ سے تعلق رکھتا ہوں۔
حضرت عمرؓ حضرت صُہَیبؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں اعلیٰ گمان رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے تو آپؓ نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ صُہَیبؓ پڑھائیں گے اور تین روز تک مسلمانوں کی امامت کروائیں گے یہاں تک کہ اہلِ شوریٰ اُس پر متفق ہو جائیں جس نے خلیفہ بننا ہے۔
حضرت صُہَیبؓ کی وفات ماہ شوال ۳۸؍ ہجری میں ہوئی، بعض کے مطابق ۳۹؍ ہجری میں وفات ہوئی۔ وفات کے وقت حضرت صُہَیبؓ کی عمر تہتر برس تھی، بعض روایات کے مطابق ستر برس تھی۔ آپؓ مدینہ میں دفن ہوئے۔(اسد الغابہ جلد۳صفحہ ۴۱صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت۲۰۱۶ء)
حضرت صہیبؓ کثرت سے شب بیدار تھے اور خوب عبادت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ زوجۂ محترمہ نے اس معاملے میں آپ سے بات کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک اللہ نے رات کو سکون کے لیے بنایا ہے مگر میرے لیے نہیں، مزید فرمایا : بے شک ! صُہیب جب جنّت کا ذکر کرتا ہے تو اس کا شوق بڑھ جاتا ہے اور جب جہنّم کو یاد کرتا ہے تواس کی نیند اُڑ جاتی ہے۔(تفسیر ابنِ کثیر)