سر جھکا بس مالکِ ارض وسما کے سامنے
امامِ دوراں،مسیح الزماں وامام المہدی سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام ایک اردو شعر میں فرماتے ہیں :
چاہیے تجھ کو مٹانا قلب سے نقشِ دوئی
سرجھکا بس مالکِ ارض و سما کے سامنے
ربّ کائنات اور عرشِ عظیم کے مالک، خدا ئے واحد و یگانہ نے،اپنی تحمید وتقدیس بیان کرنے اوراپنی بندگی کے اظہار واقرار کے لیے حضرتِ انسان کو پیداکیا تاکہ جس طرح وہ چاہتاہے، اُس کے فرمانبردار بندے عجزو نیاز،پورے انکسار اور فروتنی کے ساتھ اُس کے حضورقیام کریں اور رکوع وسجود کے ذریعہ اپنی کم مائیگی اور بے توقیری کا اعلان و اقرار کرتے رہیں۔ وہ اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھ کر اس کے احکامات کی بجا آوری میںلگے رہیں تاکہ عشق ومحبت کی منازل طے ہوں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِمبارک ہے:وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذّٰرِیٰت:۵۷)اور میں نے جنّ و اِنس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کہیں کا بھی ہو، وہ کسی بھی ملک اور معاشرے میں رہتا ہو،وہ کوئی بھی زبان یا بولی بولے،کسی بھی قوم اور علاقے سے اُس کا تعلق ہو، اُس کے دل کے نہاں خانوں میں اپنے پیدا کرنے والے کی جستجو اور اُسے پانے کی آرزو موجزن رہتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپے تجسس کی تسکین کے لیے اپنے پیدا کرنے والے کی تلاش میں سرگرداں رہتاہے۔ کیونکہ اُس کے خالق نے اُس کی صُلب میں اپنی تلاش کا مادہ ودیعت کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے: وَاِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَاَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ(الاَعرَاف:۱۷۳) اور(یاد کرو) جب تیرے ربّ نے بنی آدم کی صُلب سے ان کی نسلوں (کے مادّہ تخلیق ) کو پکڑا اور خود انہیں اپنے نُفوس پر گواہ بنادیا (اور پوچھا) کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! ہم گواہی دیتے ہیں۔ مبادا تم قیامت کے دن یہ کہو کہ ہم تو اس سے یقیناً بے خبر تھے۔
ابوالبشر آدم علیہ السلام سے لے کرامام الانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی تشریف آوری تک، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ذریعہ جو پیغام توحید اور پیغام زندگی نوع انسان کو دیا جاتا رہا۔آنحضرت ﷺکے ذریعہ اُسی پیغام کومزید نکھار کر،سجاسنوار کر اورکامل ومکمل صورت عطا کرکے قرآن شریف کی صورت میں دنیا میں اُتارا گیا۔ پس تمام انبیاء کا اسی عقیدے کی ترویج و اشاعت کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس والا صفات ہی بر حق ہے اور وہ اِس لائق ہے کہ اُس کی خالص عبادت کی جائے۔ سرجھکے توصرف اُسی کے آگے،گردنیں خم ہوں توصرف اُسی کے لیے اور جبین سجدہ ریز ہو توصرف اُسی کے سامنے۔
قرآن شریف سے پتا چلتا ہے کہ محبوبِ حقیقی نے نہ صرف اپنی تلاش کا مادہ انسانی سرشت میں ودیعت کیا ہے بلکہ اُس نے حضرتِ انسان کی تخلیق بھی اپنی فطرت کے مطابق کی ہے تاکہ اُن کے درمیان اُنس اور محبت کا رشتہ قائم ہو اور انسان اُس کے رنگ میں رنگین ہوکر اُس طرح زندگی گزارے جس طرح وہ چاہتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡھَا (الروم:۳۱) یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت کریمہ میںفرمایا ہے :صِبۡغَۃَ اللّٰہِ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً وَّنَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ (البَقَرَۃ:۱۳۹) اللہ کا رنگ پکڑو۔ اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہوسکتا ہے اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔پس محبوبِ حقیقی کی تلاش میں ازل سے جاری ہونے والا سفر ابدتک جاری رہے گا۔ایک ایسی ہستی کی تلاش کا سفر، جوچاہتے اورنہ چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طور پر اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ ایک ایسے محبوب کی تلاش کا سفرجوہرانسانی دل کے نہاں خانوں میں،اُس کی سوچوں اور اُس کے ذرّے ذرّے میں آباد ہے۔جس سے دور ہونااور اُسے دور کرنا ممکن نہیں۔
انسانیت کے ایک نئے دَور کا آغاز
جب مقصودِ کائنات آئے یعنی محمد مصطفیٰ ﷺتشریف لائے توعبادت اوربندگی کے معیاریکسر بدل گئے کیونکہ خالقِ کائنات نے آپ کے ذریعہ اپنا دین مکمل کردیا اور قیامت تک کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی شریعت نازل کرکے انسان کامل ﷺ کو نوع انسان کے لیے اُسوۂ حسنہ قرار دے دیا۔ پس آپﷺ نے اپنے آسمانی آقا کے ساتھ عشق ومحبت اور اُس کی عبادت میں ایسے حسین رنگ بھرے، جن سے زمین وآسمان والے اب تک نا آشنا تھے۔آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نماز کی صورت میں ایک ایسی عبادت اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش کی جس کا عشر عشیر دیگر مذاہب میں پایا نہیں جاتا۔نماز کیا ہے ؟نماز اللّٰہ اکبر کی صدا سے شروع ہوتی ہے جس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اُس کی بڑائی بیان ہوتی ہے۔ سورت فاتحہ کی صورت میں اُس کی تعریف اور حمدوثنا کی جاتی ہے، اُس کی بڑائی کا اقرارواعلان ہوتاہے۔ رکوع میں صرف اُسی کے سامنے جھکنے کے عملی اقرار کے ساتھ اُس کی عظمت بیان کی جاتی ہے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے اُس کی تعریف بیان کی جاتی ہے جو دعاؤں کو سننے والا اور ہر تعریف کے لائق ہے۔ پھر سجدہ ریز ہوکر عملی رنگ میں یہ اعلان و اقرار کیا جاتا ہے کہ تو ہی میرا معبود حقیقی ہے میری جبین نیاز اگر جھکے گی تو صرف تیرے حضور اور تو ہی بلند شان والا ہے۔ گویا سجدہ خدا تعالیٰ کی بلند شان کا عملی اقرار اور اپنی کم مائیگی کا اظہار ہے۔سجدے کی حالت میں ایک بندۂ ناتواں دعاؤں کی صورت میںاپنی حاجات اُس کے حضور پیش کرتاہے۔ دونوں سجدوں کے درمیان بخشش، رحم،ہدایت،سلامتی، اپنی اصلاح، حصول رزق اور درجات کی بلندی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔پھر تشہد میں بیٹھ کریہ اقرارکیا جاتاہے کہ عبادتوں کی صورت میں ہر قسم کے تحفے اور تمام پاکیزہ قربانیاں صرف اُسی کو زیبا ہیں۔ اپنے نبی ﷺ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت وبرکت کی دعا مانگتے ہوئے یہ اعلان و اقرار کیاجاتاہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں پھر اپنے نبی کریم ﷺ پر درود پڑھاجاتاہے اور نماز کے آخر میں دنیا و آخرت میں کامیابی عطا ہونے کی دعا مانگتے ہوئے یہ عرض کی جاتی ہے کہ اُسے اور اُس کی نسل کو عمدگی سے نماز قائم کرنے والا بنادے۔ دعاؤں کی قبولیت کی التجا کی جاتی ہے اور آخرت کے روز اپنی، اپنے والدین اور تمام مومنوں کی بخشش کی دعا مانگی جاتی ہے۔ پھراپنی نماز کو ختم کرتے ہوئے بلاتخصیص رنگ ونسل و مذہب اپنی دائیں طرف والوں اور اپنی بائیں طرف والوں کے درمیان السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی صورت میں سلامتی اور برکت سے بھر پور تحفہ پیش کرتے ہوئے ایک بندۂ مومن یہ اعلان عام کرتا ہے کہ اے میری دائیں طرف بسنے والو!میں تمہارے لیے سلامتی چاہتا ہوں اور تمہارے لیے برکتوں کا متمنی ہوں اور اے میری بائیں طرف بسنے والو! تمہیں بھی سلامتی کا پاکیزہ تحفہ پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ تمہیں بھی برکتیں عطا ہوں۔ پس ہمار ے آقا ﷺنے کھڑے ہوکرکیے جانے والے عجزونیاز، جھک کر کی جانے والی وفاؤں، سجدہ ریز ہوکر مانگی جانے والی دعاؤں اور بیٹھ کر پیش کی جانے والی صداؤں کو ایک خوبصورت لڑی میں پَرو کر نماز کی صورت میں خوش نما مالا بنادی جوتسبیح وتحمیداورتقدیس سے بھرپور،دعاؤں کا خوبصورت مجموعہ اور ایک مکمل اور جامع عبادت ہے۔
فخر زمین اورنازِ فلک ﷺ کا اپنے ربّ کی خاطر عہدشباب سے ہی دنیا کی رعنائیوں سے بے رغبت اور کنارہ کش ہوجانا،خلعت نبوت عطا ہونے کے بعداپنے دن کے آرام اور راتوں کی نیندوں کو قربان کرکے خدمت دین اور خدمت انسانیت میں مگن رہنا۔ اپنے ربّ کی عبادت میں خشوع وخضوع سے بھرپور لمبے قیام اور رکوع وسجودمیں شب گزاری کرنا۔ اُس کے حضور گڑگڑانا اور عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا، محبوب ِازلی وابدی کے لیے خلوت نشین ہوکر محویت اور استغراق کے عالم میں التجائیں کرنا، تضرع اور حضور ِدل سے دعائیں مانگناآپ کی زندگی کامعمول تھا۔پس آپ کے دل کے راز دان یارازلی و ابدی نے آپ کے ہر ہر عمل کو قبول ومنظور کیا اور اُسے سند عام عطا کرتے ہوئے آپ کو رہتی دنیا تک اسوۂ حسنہ قراردے دیا اورآپؐ کی زبان مبارک سے یہ اعلان فرمایا : قُلۡ اِنَّ صَلَا تِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ (الانعام:۱۶۳) تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاںاور میرا جینااور میرا مرنااللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔پس آپ کو بھیجنے والا چاہتا ہے کہ آپ کے ماننے والے بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو اپنا مقصدِ حیات بنالیں۔ جیسا کہ اُس نے فرمایا ہے : فَاذۡکُرُواللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِکُمۡ (النسآء:۱۰۴) اللہ کو یاد کرو کھڑے ہونے کی حالت میں بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوئوں پر بھی۔
سو جانناچاہیے کہ انسان کامل ﷺکے مقدس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا جو ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا اُس کی وجہ سے عشق ومحبت میں ڈوبی نمازوں کے بعد بھی آپ کے دل میں اپنے محبوب کے لیے تشنگی اور بےقراری باقی رہتی تھی اس لیے عبادت کے اختتام پر اپنے آسمانی آقا کے حضور عرض کرتے: اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیۡ عَلٰی ذِکۡرِ کَ وَ شُکۡرِکَ وَحُسۡنِ عِبَادَتِکَ (سنن ابو داؤد کتاب الوتر بَابٌ: فِی الاِستِغفَارِ حدیث:۱۵۲۲) اے میرے اللہ! مجھے اپنے ذکر،اپنے شکر اور خوبصورت عبادت کی توفیق عطا فرما۔پس ہمیں اپنی خوش قسمتی اور خوش بختی پر نازاں و فرحاں ہونا چاہیے کہ محبوبِ خدا، سید الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ کے غلام دَر ہیں۔آپؐ نے ہمیںوہ تمام آدابِ زندگی و بندگی سکھلادیے جو قبولیت کی معراج تک لے جانے والے ہیں گویاآپﷺ نے ہمیں وہ راہیں بتلادیں جو درِ محبوب کو وَا کرنے والی ہیں۔امام الزماںسیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب کشتی ٔنوح میں فرماتے ہیں:’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہرایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔اے محرومو!اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۲۱۔۲۲)
حضور علیہ السلام نے ایک اَور جگہ فرمایا ہے :’’وہ جو خدا کی طرف منقطع ہوتے اور اُس کی محبت کے خیموں میں رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ زندہ اور اسی کے لئے مرتے ہیں اور اس پر توکل کرتے اور دل کی سچائی سے اس کی اطاعت اختیار کرتے ہیں اور رواں آنسوئوں کے ساتھ اس کے حکم کی پیروی کرتے اور اس کی رضا مندی کی راہوں میں فنا ہوتے ہیں اور اس کے غموں میں گداز ہوتے اور اس کے انس کے ساتھ بقا پاتے ہیں اور اس کے لئے رات کو خوابگاہوں سے علیحدہ ہوتے اور اُس کی بندگی کرتے ہیں اور قیام اور سجود میں رات کاٹتے ہیں اور غفلت نہیں کرتے اور بے آرامی اُن کو پکڑتی ہے۔ پس اپنے دوست کو یاد کرکے روتے ہیں اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہوتے ہیں اور رات کے وقتوں میں فریاد کرتے اور آہیں مارتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس طرف کھنچے جاتے اور پھیرے جاتے ہیں۔ اُن پر مصیبتیں پڑتی ہیںاور وہ برداشت کرتے ہیں۔آگ میں داخل کئے جاتے ہیں۔پس کہا جاتا ہے کہ سلام پس بچالئے جاتے ہیں۔وہی سچے ثنا خوان اور خدا کے مقر ب اور ہمرازہیں۔اور اُن کو خوشخبری ہو اور اُن کے ہم صحبتوں کو کیونکہ وہ شفاعت کرنے والے اور شفاعت قبول کئے گئے ہیں۔ اور یہ وہ مرتبہ ہے جو بجز درگاہ کے پیاروں کے اَور کسی کو نہیں ملتا۔اور اسی کے بیان کے لئے اسلام آیا ہے تاکہ نقصان کے گڑھے سے لوگوں کو نکالے اور تقدس کے احاطے میں پہنچاوے اور سعادت کے مقام تک رہبری کرے۔‘‘(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ ۱۰تا۱۲)
اگر ہم چشم تصور میں اسلام کے دَور اوّل کو اپنے سامنے لائیں تو معلوم ہوگا کہ نورِ ہدایت سے معمور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں سے ہر ایک مینارِ نور اور ہدایت کا سرچشمہ دکھائی دیتا ہے۔ اس قدر عالی مرتبت میرے اور آپ کے پیارے صحابہؓ کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اس دنیا کے نہ تھے بلکہ انہوں نے یادِ الٰہی اور عبادتِ خداوندی کو اپنی زندگیوں کا مقصد بنالیا تھا اور خدا تعالیٰ کی ذاتِ اقدس والا صفات اُن کا مرکزو محور تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر دنیا داری کرتے اور مخلوق خدا سے حسن واحسان کا سلوک رَوا رکھتے۔ وہ اپنے محبوب ازلی کو خوش کرنے کے لیے اپنے اوقات کا زیادہ تر وقت مسجدوں میں گزارتے اور قیام اور رکوع وسجود میں گریہ وزاری کے ذریعہ اپنی بندگی کا اظہار کرتے۔مسجدوں میں دینی مجالس منعقد کرتے،خود بھی دین سیکھتے اور دوسروں کو بھی سکھاتے۔ بازاروں میں اس غرض سے جاتے تاکہ سلام اور سلامتی کے تحفے تقسیم کرسکیں۔ احباب رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے تاکہ وہ مولیٰ کریم خوش ہوجائے۔وہ بیوگان اور یتیموں کا خیال رکھتے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔وہ ہمسایوں کے ہمدرد اور مہمان داری میں پیش پیش رہنے والے پاک وجود تھے گویا اُن کا اوڑھنا بچھونا حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کا قیام تھا۔
اسلام کے دَور آخر میں بھی صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایاکی بے شمار مثالیں اور حیرت انگیز نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس ہاتھ میںاپنے ہاتھ دینے والوں نے اوّلین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بہترین نمونے قائم کیے اور ہمارے لیے اپنا مبارک اسوہ بطور یادگار چھوڑ دیا تاکہ ہم بھی اوّلین وآخرین کے نقشِ پا پر چلتے ہوئے بعد میں آنے والوں کے مینارۂ نور ثابت ہوں۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ہادی وآقاﷺ، آپ کے مقدس صحابہؓ، مسیح موعود علیہ السلام اورآپ علیہ السلام کے مقدس صحابہ ؓکے نقش قدم پر چلا جائے اور اُن سے راہ نمائی لیتے ہوئے اپنی زندگیوں کوگزارا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی صورت میں ایک روحانی نظام جاری وساری ہے۔خلفائے مسیح موعود علیہ السلام کی زندگیاں اور اُن کے ارشادات، روحانیت سے بھرپور اورہمارے لیے قابل تقلید نمونہ ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک کی زندگی کا اوّلین مقصد اسلام کے زندگی بخش پیغام کی ترویج و اشاعت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کا قیام رہاہے۔اب خلافت خامسہ کا مبارک وبابرکت دَور سایۂ خدا وندی میں جاری وساری ہے۔جس کے ذریعہ برکات ورحمت خداوندی کا نزول روز کا معمول ہے۔ خلیفہ وقت کی زندگی ہمارے لیے روشنی کا ایک ایسا مینار ہے جو اندھیروں سے نور کی طرف راہ نمائی کرنے والا ہے کیونکہ یہ خدا نما وجود خدا تعالیٰ سے ملانے والا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جوشخص خلوص نیت سے خلافت کے ساتھ وابستہ ہوا وہ ہرغم اور ہرفکر سے آزاد ہوگیا کیونکہ جو خلافت سے وابستہ ہوجاتا ہے خلافت اُسے خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کردیتی ہے۔ پس جو خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوگیا اُسے دنیا کے غم وحزن سے بھلا کیا واسطہ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہماری تما م ترقیات، کامیابیوں، خواہشات کی تکمیل،دل کی تسکین،گھروں کے آرام،معاشرے کے استحکام،دنیا میں امن کے قیام اور ہر نیک مقصد کے بابرکت انجام کی ایک ہی پاکیزہ اور بابرکت راہ ہے کہ ’سجدہ ریز ہوجا اور قرب حاصل کرنے کی کوشش کر‘۔(العلق:۲۰)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری نیتوں کوپاکیزہ بنادے اور ہمارے اعمال میں برکت عطا فرمادے۔ آمین یا رب العالمین