جلسہ سالانہ کے مقاصد عالیہ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍ جون ۲۰۱۳ء)
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کو آج سے اپنے جلسہ سالانہ کے انعقاد کی توفیق مل رہی ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ تین دن تک جاری رہے گا۔ دنیا کے بعض اور ممالک خاص طور پر امریکہ اور کبابیر وغیرہ کے بھی جلسے ان دنوں میں ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے امراء نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہی دنوں میں ہمارا بھی جلسہ ہو رہا ہے، اس لئے ہمارا بھی ذکر کر دیا جائے۔ اس وقت امریکہ میں تو بہت صبح ہو گی۔ کبابیر میں بھی جمعہ کا وقت شاید گزر چکا ہو۔ امریکہ کا جمعہ تو اس وقت شایدپانچ یا چھ گھنٹے کے بعد شروع ہو گا۔ تاہم آخری دن یعنی اتوار کو اُن کا اختتام کا وقت بھی تقریباً یہی ہے جب یہاں انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ کا اختتام ہو رہا ہو گا۔ تو اس لحاظ سے وہ بھی جلسہ کے اختتامی خطاب اور دعا میں شامل ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
ایک ہی دنوں میں مختلف ممالک کے جلسوں کا انعقاد اس لحاظ سے فائدہ مند بھی ہو جاتا ہے کہ لائیو (Live) خطبات سے مختلف ممالک کے لوگ جو اپنے ملکوں کے جلسوں کے لئے جمع ہوتے ہیں، استفادہ کر لیتے ہیں، ان میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور جماعت کی ایک بڑی تعداد تک خلیفۂ وقت کی بات پہنچ جاتی ہے۔ بیشک دنیا میں جماعت کا ایک خاصہ حصہ جلسوں کے لائیو پروگرام کو سنتاہے۔ لیکن پھر بھی میرے اندازے کے مطابق ایک بہت بڑی تعداد ہے جو نہیں سن رہی ہوتی۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا امریکہ والے یا بعض اور جگہوں کے احمدی جن کے ہاں ان دنوں میں جلسے ہو رہے ہیں، آخری دن کے جلسے میں شامل ہو جائیں گے، لیکن آج جمعہ پر بھی بہت سوں کی توجہ ہو گی۔ بیشک اُن ممالک کے وقت سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن کیونکہ جلسہ کی نیت سے اکثر لوگ آئے ہوتے ہیں، بلکہ جلسہ میں شامل ہی جلسے کی نیت سے ہوتے ہیں، اس لئے اپنے اپنے وقتوں کے مطابق جہاں بھی ہوں، خطبہ یا تقریریں سن لیتے ہیں۔ یعنی عام حالات کی نسبت زیادہ بڑی تعداد یہ سن لیتی ہے۔
آج کے خطبہ میں مَیں جلسہ سالانہ کے حوالے سے جلسہ کے مقاصد کے بارے میں یاددہانی کروانا چاہتا ہوں۔ یعنی وہ مقاصد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے بیان فرمائے ہیں۔ یاددہانی کی ضرورت رہتی ہے تا کہ جلسے کے دنوں میں خاص توجہ رہے اور بعد میں بھی ان باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت کے مطابق ان کا اظہار ہر احمدی کے عمل سے ہوتا رہے۔ اس بات کا انحصار بھی انسان کی اپنی توجہ پر ہے کہ کتنی دیر توجہ قائم رہتی ہے۔ آجکل کیونکہ دنیا کے دوسرے کاموں اور بکھیڑوں میں بھی انسان پڑا ہوا ہے اس لئے اکثر دنیا داری غالب آ جاتی ہے جس سے فرائض اور نوافل کی ادائیگی میں سستی پیدا ہو جاتی ہے۔ جلسوں میں شامل ہونے کے بعد بعض احمدی مجھے لکھتے ہیں کہ جلسے کے تین دنوں میں ہماری کایا پلٹ گئی ہے۔ یہ تین دن تو یوں گزرے جیسے ہم کسی اَور ہی دنیا میں تھے۔ ایک خاص روحانی ماحول تھا۔ دعا کریں کہ بعد میں بھی یہ حالت قائم رہے۔ تو بہر حال یہ حالت ہے جو جلسے کے دنوں میں غالب ہوتی ہے اور اس کا اثر ہر شامل ہونے والے پر ہوتا ہے۔ اور ہر ایک کی ایمانی حالت کے مطابق یہ اثر رہتا ہے۔ بعض تو جلسہ کے فوراً بعد یہ بھول جائیں گے اور بھول جاتے ہیں کہ جلسے کی تقریریں سننے کے دوران ہم نے اپنے آپ سے کیا کیا عہد کئے تھے۔ اپنے خدا سے عہد کئے تھے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں گے۔ بعض چند دن اس اثر کو قائم رکھیں گے۔ بعض چند ہفتے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو چند مہینے تک یہ اثر قائم رکھیں گے۔ یہ حقائق ہیں جن سے ہم آنکھیں نہیں پھیر سکتے۔ اور چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اس نیک ماحول کا اثر سالوں رہتا ہے۔ پس اکثریت کیونکہ تھوڑا عرصہ اثر رکھتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بار بار نصیحت کرنے کا بھی فرمایا ہے۔ بار بار ایسے ماحول کے پیدا کرنے کا کہاہے جو مومنوں کو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ اُن کو اپنے عملوں کی خودنگرانی کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسوں کا اجراء فرما کر ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ جس سے ہمیں اپنی اصلاح کا اور روحانی غذا کے حصول کاایک اجتماعی موقع مل جاتا ہے۔ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا، اب مَیں اس وقت جلسہ کے مقاصد اور اس کی غرض و غایت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں ہی کچھ کہوں گا۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ جلسہ پر آنے والوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک احمدی کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ مَیں شروع کروں انتظامیہ مجھے رپورٹ دے کہ آخر تک آواز صحیح جا رہی ہے؟ یا آخر میں جو بیٹھے ہوئے ہیں کوئی ہاتھ کھڑا کر کے بتا دیں کہ آواز ٹھیک ہے؟اچھا ٹھیک ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی اُن میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۳۹۴)
ان چند فقرات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک حقیقی احمدی کے لئے زندگی کا پورا لائحہ عمل بیان فرما دیا ہے۔ فرمایا کہ جلسہ میں شامل ہونے والوں میں ایسی تبدیلی ہو کہ وہ زُہدمیں ایک نمونہ ہوں۔ انسان اگر غور کرے تو اس ایک لفظ میں ہی اتنی بڑی نصیحت ہے کہ برائیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو دنیاوی تسکین کے سامان سے روکنا، دنیاوی خواہشات سے روکنا، اپنے جذبات کو، غلط جذبات کو ابھرنے سے روکنا۔ اس طرح روکنا کہ تمام دروازے ان خواہشات کے بند ہو جائیں تا کہ خواہش پیدا ہی نہ ہو۔