الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ
(گذشتہ سے پیوستہ)آپؓ سخت سے سخت حالات کا بھی بڑے صبر اور حوصلے سے مقابلہ کرتیں۔ سناتی تھیں کہ ایک دفعہ بعض حالات کی وجہ سے بڑی پریشانی تھی۔ بڑے بھائی (حضرت مصلح موعودؓ) مجھ سے بالکل باپ والی شفقت فرماتے تھے۔ مجھے الگ لے گئے اور کہا ’’حفیظ! مجھے بتاؤ تمہیں کیا تکلیف ہے۔‘‘ مَیں یہ سن کر رو پڑی لیکن بولی کچھ نہیں۔ حضورؓ نے بڑے پیار سے کہا: ’’حفیظ گھبراؤ نہ بعض وقت ریس میں پیچھے رہنے والا گھوڑا سب سے آگے نکل جاتا ہے۔‘‘
حضرت سیّدہؓ کے مبارک وجود میں اپنے مقدّس والدین کا رنگ نمایاں تھا۔ آپؓ دعاؤں کا ایک بیش قیمت خزانہ تھیںاور مخلوقِ خدا کے لیے ایک درد مند دل رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا یہاں تک کہ زبان بھی مبارک تھی اور جو بات آپؓ کے منہ سے نکل جاتی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے پوری فرما دیتا۔ مکرمہ امۃا لقیوم ناصرہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری بیٹی ڈاکٹر بنی تو آرمی میں اپلائی کیا۔ بظاہر کامیابی کی کوئی امید نہ تھی کیونکہ فارم پر احمدی لکھا ہوا تھا۔ میں نے آپؓ کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کیا۔ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ عزیزہ نے انٹرویو اور پرچے میں بہت اچھے نمبر لیے اور منتخب کرلی گئی۔ میں نے آپؓ سے ذکر کیا تو آپؓ کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے اور رقت بھری آواز میں فرمایا: بیٹی سے کہنا کہ وہ ہمیشہ احمدیت کو ہر جگہ مقدّم رکھے اور کہیں بھی کسی موقع پر احمدیت کو نہ چھپائے اور نہ گھبرائے اللہ تعالیٰ اس کی ہر جگہ مدد فرمائے گا۔
مکرم عبدالسمیع نون صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے بھانجے محمد زبیر کے والدین چند سال قبل فوت ہوچکے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں وہ کینسر سے بیمار ہوا تو مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے درخواستِ دعا کی اور پھر ’بیت الکرام ‘کوٹھی پر دستک دی کہ وہاں ماں سے زیادہ شفیق ہستی رہتی تھی۔ جب میں نے دعا کے لیے عرض کیا تو چند ثانیے کے توقف کے بعد اپنے ربّ کریم پر توکّل کرتے ہوئے بڑے وثوق کے ساتھ پُرشوکت آواز میں فرمایا: ’’تم بےفکر ہو جاؤ اللہ تعالیٰ محمد زبیر کو ضرور شفا دے گا۔ سُچی بوٹی پلانا شروع کر دیں۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے محمد زبیر کو معجزانہ شفا عطا فرمائی۔
مکرمہ امۃالقدوس ندرت صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ امّی مجھے حضرت سیّدہ سے ملاقات کروانے لے گئیں۔ آپؓ نے میرے متعلق پوچھا تو امّی نے بتایا کہ بی اے فائنل میں ہے۔ پھر پوچھا کہ اس کا رشتہ کہیں طے ہوا ہے؟ امّی نے کہا کہ ابھی تو نہیں ہوا آپ دُعا کریں۔ اس پر آپؓ نے آنکھیں بند کیں اور کھول کر فرمانے لگیں: ’’مجھے تو اِس وقت ہی سبز جوڑے میں دُلہن بنی نظر آ رہی ہے۔‘‘ امّی نے کہا کہ’’اللہ تعالیٰ آپ کی زبان مبارک کرے۔‘‘ اس کے چند ماہ بعد ہی میرا رشتہ طے پا گیا۔ شادی کے بعد مَیں جرمنی آگئی۔ اللہ کے فضل سے ہماری شادی کو اکیس سال ہوگئے ہیں اور ماشاء اللہ ہمارے چار بچے ہیں۔
حضرت سیّدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی وفات ۶؍مئی ۱۹۸۷ء کو بعمر ۸۳؍سال ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو تین بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا فرمائیں۔
وہ عالی جناب اور عالی مقام
کہا جس کو اللہ نے دخت کرام
نظر سے کہاں ہو گئے ہیں نہاں
گہر ہائے آغوشِ نصرت جہاں
===========
دخترِ احمدؑ ، مسیح پاکؑ کی لختِ جگر
ہوں ہزاروں رحمتیں اس کی مبارک ذات پر
پاک طینت ، با صفا ، عالی گہر ، دختِ کرام
سیّدہ کی جان ، مہدی کی حسیں نورِ نظر
………٭………٭………٭………
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ سلمیٰ منیر باجوہ صاحبہ اور مکرمہ فوزیہ بشریٰ صاحبہ کے قلم سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرت کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کو ایک اَور فرزند کی بشارت دی گئی جسے حضورؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں شائع فرمایا۔ اس عربی الہام کا ترجمہ یہ ہے: نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا۔ خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے برہان کو روشن کردے گا۔ اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا۔ (صفحہ ۲۶۷ایڈیشن۲۰۰۹ء)
اس پیشگوئی کے مطابق ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ولادت ہوئی۔ آپؓ کی پیدائش گو بشارات الٰہیہ کے ماتحت ہوئی مگر انکسار کا یہ عالم تھا کہ آپؓ نے ایک دفعہ فرمایا’’میں جب اپنے نفس پر نگاہ کرتا ہوں تو شرم کی وجہ سے پانی پانی ہوجاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے جیسے کمزور انسان کی پیدائش کو بھی بشارات کے قابل خیال کرتا ہے۔ پھر اس وقت اس کے سوا سارا فلسفہ بھول جاتا ہوں کہ خدا کے فضل کے ہاتھ کو کون روک سکتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ لَامَانِع لَمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیْ لَمَا مَنَعْتُ…۔‘‘
حضرت صاحبزاہ صاحبؓ کو بچپن میں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوگیا،پلکیں گر گئی تھیں، آنکھوں سے پانی بہتا رہتا تھا۔ کئی سال تک انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ حالت اور تشویش ناک ہوگئی۔ آخر حضرت مسیح موعودؑ نے دعا کی تو حضورؑکو الہام ہوا ’’برَّق طفلیِ بشیر‘‘(میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہوگئیں) چنانچہ ایک ہفتہ میں اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو کامل شفا بخشی اور نہ صرف بصارت بلکہ بصیرت کی آنکھیں بھی ایسی روشن ہوئیں کہ مادی اور روحانی علوم کے دروازے آپؓ پر کھل گئے۔
جب آپؓ کی عمر قریباً تین سال تھی تو آپؓ کو شکر کھانے کی عادت ہوگئی۔ حضرت اقدسؑ کے پاس آپؓ پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے’’اباچِٹّی‘‘ (کیونکہ بولنا پورا نہیں آتا تھااور مراد یہ تھی کہ سفید رنگ کی شکر لینی ہے)۔ حضور علیہ السلام تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اٹھتے،کوٹھری میں جاکر شکر نکال کر دیتے اور پھر تصنیف میں مصروف ہوجاتے۔ تھوڑی دیر میں آپؓ پھر دست سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے اوریہ سلسلہ جاری رہتا۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ میری ہوش میں پہلا نظارہ منجھلے بھائی کے بچپن کا مجھے صاف یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کہیں باہر سے تشریف لائے تو گھر میں خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ آپؑ آکر بیٹھے اور سب مع حضرت امّاں جانؓ بھی بیٹھے تھے کہ ایک فراخ سینہ ،چوڑے منہ والا ہنس مکھ لڑکا سرخ چوگوشہ مخملی ٹوپی پہنے بے حد خوشی کے اظہار کے لیے آپؑ کے سامنے کھڑا ہو کر اچھلنے کودنے لگا۔ یہ میرے پیارے منجھلے بھائی تھے۔ حضرت اقدسؑ مسکرا رہے ہیں ،دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ’’جاٹ ہے جاٹ۔‘‘
حضرت امّاں جانؓ آپؓ کو خاص محبت اور پیار کی نگاہ سے دیکھتی تھیںاور بشیر کی بجائے بشریٰ کہہ کر پکارتی تھیں۔ کبھی کبھی ’منجھلے میاں‘بھی کہا کرتی تھیں۔
طبیعت میں سنجیدگی اور حجاب بہت جلدی پیدا ہو گیا تھا۔ بہت کم بولتے اور کم ہی بےتکلّف ہوکر سامنے آتے۔ ویسے طبیعت میں لطیف مزاح بچپن سے تھا۔ ایسی بات کرتے چپکے سے کہ سب ہنس پڑتے اور خود وہی سادہ سا منہ بنائے ہوتے۔ حضرت امّاں جانؓ فرماتی تھیں کہ اوّل تو بچوں کو کبھی میں نے مارا نہیں، ویسے ہی کسی شوخی پر اگر دھمکایا بھی تو میرا بشریٰ ایسی بات کرتا کہ مجھے ہنسی آ جاتی اور غصہ دکھانے کی نوبت نہ آنے پاتی۔ ایک دفعہ شاید کپڑے بھگو لینے پر ہاتھ اٹھا کر دھمکی دی تو بہت گھبرا کر کہنے لگے ’نہ امّاں کہیں چوڑیاں نہ ٹوٹ جائیں۔‘ اور حضرت امّاں جانؓ نے مسکرا کر ہاتھ نیچے کر لیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی آنکھیں بچپن میں خراب ہوگئیں اور یہ تکلیف سات سال تک رہی۔ ۱۹۰۱ء میں اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو معجزانہ شفا عطا فرمائی تو آپؓ باقاعدہ طور پر تعلیم الاسلام سکول میں داخل ہوئے۔ ۱۹۱۰ء میں آپؓ میٹرک کے امتحان میں سکول میں اوّل آئے۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۱۲ء میں ایف اے کیا۔ آپؓ بی اے میں زیرتعلیم تھے کہ اچانک کالج چھوڑ دیااور قادیان آکر حضرت خلیفۃا لمسیح الاولؓ سے قرآن وحدیث پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ محترم میر محموداحمد صاحب ناصرکی روایت ہے کہ کسی طالب علم نے اسلام یااحمدیت کے متعلق کوئی ایساسوال کیا جس کا آپؓ فوری جواب نہ دے سکے تو اس کا آپؓ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک مَیں قرآن پورے طور پرنہ پڑھ لوں گا کالج نہیں جاؤں گا۔ حضرت قاضی محمد اکمل صاحبؓ سے فرمایا: ’کالج تو پھر بھی مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں،ممکن ہے کہ قرآن مجید وحدیث پڑھنے کا موقع، وہ بھی نورالدین ایسے پاک انسان سے پھر نہ مل سکے۔‘
۱۹۱۴ء میں آپؓ نے بی اے اور ۱۹۱۶ء میں ایم اے عربی کرلیا۔ اس طرح حضرت مسیح موعودؑکی خواہش اور پیشگوئی پوری ہوگئی۔ آپؓ سے حضرت امّاں جانؓ نے بیان فرمایا تھا کہ جب تم شاید دوسری جماعت میں ہوگے کہ ایک دفعہ چارپائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مارتے دیکھ کر حضرت اقدسؑ نے تبسم فرمایا اور پھر فرمایا: اس کو ایم اے کرانا۔
۱۲؍ستمبر ۱۹۰۲ء کو آپؓ کا نکاح حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوریؓ کی صاحبزادی محترمہ سرور سلطان صاحبہ سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا گیا۔ خطبہ نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا اور ایجاب و قبول کے بعد کھجوریں تقسیم کی گئیں۔ آپؓ کے خسرمولوی غلام حسن صاحبؓ نے ۱۷؍مئی ۱۸۹۰ء میں بیعت کی تھی۔ رجسٹر بیعت میں بیعت کا نمبر۱۹۲ ہے اور سکونت اصلی میانوالی ضلع بنوں ہے۔
مئی ۱۹۰۶ء میں آپؓ کی شادی کی تقریب عمل میں آئی آپؓ حضرت میرناصر نواب صاحبؓ ،حضرت مصلح موعودؓ اور دیگر احباب کے ساتھ قادیان سے ۱۰؍مئی۱۹۰۶ء کو پشاور روانہ ہوئے اور۱۶؍ مئی کو واپس قادیان پہنچ گئے۔
۷؍اگست ۱۹۰۷ء کو آپؓ کی پہلی بیٹی صاحبزادی امۃالسلام صاحبہ پیدا ہوئیں۔ اس طرح حضورؑنے اپنی پہلی پوتی کو بھی دیکھ لیا۔ آپؓ کی عمر اُس وقت تیرہ سال تھی۔ بیٹی کی پیدائش پرآپؓ اس قدر شرمائے کہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے۔ آپؓ کو خداتعالیٰ نے کُل گیارہ بچے عطا فرمائے جن میں سے دو صغرسنی میں فوت ہوگئے۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیںکہ آپؓ ہم بہن بھائیوں سے بہت شفقت کا سلوک فرماتے۔ جب کبھی ہم جلسہ سالانہ یا دوسرے موقع پر گھر جاتے تو ہر ایک کے لیے بہت اہتمام فرماتے تھے۔ خود تسلی کرتے کہ کمرے اور غسل خانے میں ہر چیز موجود ہے۔ ہمیں شرم آتی تھی لیکن خود ذوقاًیہ اہتمام فرماتے تھے۔ ہم واپس چلے جاتے تو کمرے میں آکر دیکھتے کہ کوئی چیز بھول کر چھوڑ کر تو نہیں گئے۔ اگر کچھ ہوتا تو اطلاع دیتے کہ فلاں چیز تم یہاں چھوڑ گئے ہو، میں نے رکھوا لی ہے پھر آؤ تو یاد سے لے لینا۔ فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ میں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں لیکن دراصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے دعا گو رہتا ہوںکہ انہیں اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے اور دین کا خادم بنا دے۔
٭…آپؓ حضرت مصلح موعودؓ سے بے حد محبت کرتے تھے اور حضورؓ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی معاملات میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے۔
محترم ملک حبیب الرحمٰن صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بار میرے ایک عزیز کو سلسلہ کی طرف سے کچھ سزا ملی۔ عزیز کو یہ گلہ تھا کہ سزا کی سفارش کرنے والے افسر نے معاملات کی پوری تفتیش نہیں کی اور جانبداری سے کام لیاہے۔ وہ چاہتے تھے کہ حضرت میاں صاحبؓ بحیثیت صدر نگران بورڈ تحقیقات کریں۔ اُن کی خواہش پر مَیں نے حضرت میاں صاحبؓ سے اس بارہ میں تذکرہ کیا تو آپؓ نے فرمایاکہ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ اس دوست کی اکثرباتیں درست ہیں اور تحقیقات پوری طرح ہونی چاہئیں تھیں لیکن چونکہ سزا امام وقت کی طرف سے ہے لہٰذاوہ دوست پہلے بلاشرط معافی مانگیں اس کے بعد ان کے عذرات کی طرف توجہ دی جائے گی۔ چنانچہ جب انہوں نے معافی نامہ لکھ دیا تو آپؓ نے نہایت پیار بھرے دل کے ساتھ حضرت کے حضور سفارش کر کے انہیں معافی دلا دی۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک طرف آپؓ کی اطاعت کا یہ حال تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہر حکم پر سمعنا و اطعنا کی تصویر بنے رہتے تھے تو دوسری طرف صداقت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایسی جرأت کے ساتھ جو صرف توحید پرستوں کو حاصل ہوتی ہے اپنی سچی رائے دینے سے قطعاًنہیںہچکچاتے تھے۔ خواہ وہ حضورؓ کی رائے اور مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ محض حضور ؓکی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنی دلی رائے کو بدلنا آپؓ کا شیوہ نہیں تھا۔ کئی مرتبہ آپؓ کو مسائل میں اختلاف ہوتا تھا کئی مرتبہ دوسرے امور میں۔ فرماتے تھے کہ رائے کے اختلاف میں انسان بےاختیار ہے البتہ جب حضرت صاحب میری رائے کے خلاف فیصلہ فرمادیتے ہیں تو بے چوں وچراں اس پر عمل کرتا ہوں۔ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بے کم و کاست اپنی صحیح رائے بیان کرے اور اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ جب صاحب امر فیصلہ کر دے تو پھرتسلیم و رضا کے ساتھ اس پر عمل کرے۔
مکرم سید مختار احمد ہاشمی صاحب رقمطراز ہیں کہ ایک دن آپؓ نے فرمایا کہ جو شخص امام وقت کے ایسے حکم کی اطاعت کرتا ہے جس کو اس کا اپنا دل اور دماغ بھی تسلیم کرتا ہے تو یہ اطاعت درحقیقت امام وقت کی اطاعت نہیں کہلاسکتی بلکہ یہ تو اس کے اپنے دل و دماغ کی اطاعت ہے۔ دراصل امام وقت کی اطاعت یہ ہے کہ وہ ایسے حکم کو انشراح صدر سے تسلیم کرے جس کو بظاہر اس کا دل و دماغ ماننے کو تیار نہ ہو۔
مکرم چودھری عبدالعزیز ڈوگر صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپؓ نماز عید کے لیے تشریف لائے تو مسجد کے اس حصہ میں تشریف فرما ہوگئے جہاں لوگوں کی جوتیاں رکھی تھیں۔ آپؓ بیمار تھے اور ان دنوں نگران بورڈ کے صدر بھی تھے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ کے لیے پہلی صف میں محراب کے پاس جگہ رکھی ہے۔ فرمایا’نہیں نہیں میری جگہ ان جوتیوں میں ہی ہے۔‘ خاکسار نے عرض کیا کہ کیا مَیں اعلان کروا دوں کہ چونکہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے عید کے بعد ملتے ہوئے دوست احتیاط سے کام لیں۔ فرمایا: ’’ہر گز نہیں یہ مقام صرف اور صرف حضرت خلیفۃ ا لمسیح کا ہے۔ جو دوست ملنے آجائیں گے ان سے مصافحہ کروں گا۔‘‘
اسی طرح مجلس شوریٰ کے دوران ایک دوست نے تعریفی کلمات سے آپؓ کو مخاطب کیا تو آپؓ نے فوراً ہاتھ اٹھا کر منع فرمایا کہ مَیں ہر گز ہر گز ایسے کلمات کا مستحق نہیں ہوں۔ یہ صرف حضرت خلیفۃ ا لمسیح کے لیے جائز ہے۔ میری تو کوئی حیثیت نہیں۔ مَیں ایک ادنیٰ خادم سلسلہ ہوں۔
٭… آپؓ نے جماعت کے ہر طبقے کو نہایت عمدہ قابل عمل نصائح فرمائیں۔ تربیت اولاد کے سنہری گُربیان کرتے ہوئے فرمایا۔ اوّل: مرد دیندار اور با اخلاق بیویوں کے ساتھ شادیاں کریں تاکہ نہ صرف ان کا گھر ان کی اپنی زندگی میں جنت کا نمونہ بنے بلکہ اولاد کے لیے بھی نیک تربیت اور نیک نمونہ میسر آئے۔ دوم: ہر عورت خود بھی دیندار بنے، دین کا علم سیکھے اورپھر دین کے احکام کے مطابق اپنا عمل بنائے۔ سوم:بچوں کی تر بیت کا آغازان کی ولادت کے ساتھ ہی ہو جانا چاہیے اور ماں باپ کو یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ ہمارے ہر فعل کو دیکھ رہے ہیں اور ہمارے ہر قول کو سن رہے ہیں۔ چہارم: بچپن میں ہی اپنے بچوں کے دلوں میں ایمان بالغیب کا تصور راسخ کر دیں جس کا مرکزی نقطہ خدا ہے اور باقی ارکان فرشتے اور کتابیں اور رسول اور یوم آخر اور تقدیر خیر و شر ہیں۔پنجم: اپنے بچوں کو بچپن سے ہی نماز کا پابند بنائیں۔ ششم :بچوں میں بچپن سے ہی انفاق فی سبیل اللہ کی عادت ڈالیں اور یہ احساس پیدا کریں کہ ہر چیز جو اُنہیں خدا کی طرف سے ملی ہے خواہ وہ مال ہے یا دل و دماغ کی طاقتیں ہیں ،علم ہے یا اوقات زندگی ہیں، ان سب میں سے خدا اور جماعت کا حصہ نکالیں۔ ہفتم:اپنے بچوں کو ہمیشہ شرک خفی کے گڑھے میں گرنے سے ہوشیار رکھیں۔ دنیا کی ظاہری تدبیروں کو اختیارکرنے کے باوجود ان کا دل اس زندہ ایمان سے معمور رہنا چاہیے کہ ساری تدبیروں کے پیچھے خدا کا ہاتھ کام کرتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ ہشتم:بچوں کو ماں باپ اور دوسرے بزرگوں کا ادب سکھایا جائے۔ نہم:بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا کریں۔ دہم: ماں باپ کا فرض ہے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے خدا کے حضور دعا کرتے رہیں کہ وہ انہیں نیکی کے رستہ پر قائم رکھے اور دین اور دنیا کی ترقی عطا کرے اوران کا حافظ و ناصر ہو۔
آپؓ میں نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ سارے کام اِبْتِغَاءً لِوَجْہِ اللّٰہ کیا کرتے تھے۔ آپؓ کی کتب مولوی فخر الدین صاحب ملتانی شائع کرتے تھے۔ آپؓ نے کبھی کسی تصنیف کے بدلہ میں ان سے کسی رنگ میں کچھ نہیں لیا۔ حتیٰ کہ اپنی تصنیف کردہ کتاب کا نسخہ بھی قیمتاً خریدتے۔ وہ اصرار کرتے کہ اپنی تصنیف کا کم از کم ایک نسخہ تو ہدیۃًلے لیا کریں۔ مگر آپؓ ہمیشہ یہ کہہ کر انکارکر دیتے کہ یہ بھی ایک گونہ معاوضہ ہے اور مَیں اس معاملہ میں اپنے ثواب کو مکدّر نہیں کرنا چاہتا۔
آپؓ ہر حالت عُسر ویُسر میں تقدیر الٰہی پر راضی رہتے اور شکوہ و شکایت کو کبھی بھی زبان پر نہیں لاتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے ذکر سے ایسا حظ اٹھاتے تھے کہ پاس بیٹھا انسان بھی فوراًمحسوس کرلیتاتھا کہ آپؓ کو دنیا میں اگر کوئی ہستی سب سے زیادہ محبوب ہے تووہ آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔ آپؓ اپنی کتاب ’’چالیس جواہرپارے‘‘کے ’’عرض حال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حدیث ’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘یعنی خدائے ودود کسی محبت کرنے والے شخص کو اس کی محبوب ہستی سے جدا نہیں کرے گا۔ یہ حدیث میں نے بچپن میں پڑھی تھی لیکن آج تک جو مَیں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں میرے آقاؐ کے یہ مبارک الفاظ میری آنکھوں کے سامنے رہے ہیںاور مَیں اس نکتہ کو کبھی نہیں بھولاکہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ سب برحق ہے مگر دل کی روشنی اور روحانیت کی چمک خدا اور اس کے رسولؐ کی سچی محبت کے بغیرحاصل نہیں ہوسکتی۔
مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت میاں صاحبؓ نے مجھے ایک مسودہ املاءکرایا تو اس میں مَیں نے جلد ی میں ﷺ کی بجائے ’صلعم‘لکھ دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’صلعم‘ لکھنا ناپسندیدہ ہے،جب اتنی طویل و عریض عبارتیں لکھی جا سکتی ہیں تو صرف رسول کریم ﷺ کے نام کے ساتھ ہی تخفیف کا خیال کیوں آجاتا ہے۔ پھر اپنی قلم سے ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھ دیا اور مزید فرمایا کہ مجھے انگریزی میں محمدؐ کا مخفف’MOHD‘ لکھا ہوا دیکھ کر ہمیشہ ہی رنج پہنچا ہے، نامعلوم کس نے یہ مکروہ ایجاد کی ہے۔
محترم ہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی کے نام خط کی ابتدا میں مَیں نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ۔ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم ۔ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد لکھ دیا۔ آپؓ فرمانے لگے کہ آپ نے حضرت مسیح موعودؑکے ساتھ صلوٰۃ اور سلام دو چیزیں لکھی ہیں اور حضرت ﷺ کے ساتھ صرف صلوٰۃ۔ یہ طریق درست نہیں۔ یہ آقا ہیں اور وہ غلام اس مقام پر وَعَلیٰ عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد لکھنا کافی ہے۔ البتہ اگر کہیں الگ لکھنا ہو تو الصلوٰۃ والسلام لکھنے میں حرج نہیں۔
محترم مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیںآپؓ گھر کی مجالس میں احادیث ، نبی کریم ﷺ کی زندگی کے واقعات اور حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے رہتے تھے۔ میرے اپنے تجربے میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہوگا۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی حضرت نبی کریم ﷺ یا حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر پر آپؓ کی آنکھیں آبدیدہ نہ ہوئی ہوں۔ بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان فرماتے تھے اور پھر ان کی روشنی میں کوئی نصیحت کرتے تھے۔
(آئندہ سوموار کے شمارہ میں جاری ہے)
………٭………٭………٭………