درسِ توحید: وہ دیکھتا ہےغیروں سے کیوں دل لگاتے ہو
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیرغورنظم رسالہ تشحیذالاذہان دسمبر۱۹۰۸ء سے لی گئی ہے اور درثمین میں چالیسویں نظم ہے۔اس کے پانچ اشعار ہیں۔
۱
وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو
جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں
غیر :ghair،خدا کے علاوہ Whatever is alternative to God
دل لگانا :Dil lagaanaa محبت کرناTo love, to dedicate ones heart
بُت: but،مورتی پوجا کے لیے بنایا گیا مجسمہ Idol,daities,images, a greatly loved and admired person or thing
اللہ تعالیٰ کی ان گنت صفات میں سے ایک صفت بصیر ہے جس کا مطلب ہے بہت دیکھنے والا۔ وہ سارے جہانوں کی ہر چیز کودیکھتا ہے کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ ایک خدا کے سوا غیروں سے پیار کر پسند یدہ نہیں صرف اُسی سے محبت کرنا واجب ہے۔ اس نے ہمیں پیدا کیا اور ہر چیز جو ہمارے پاس ہے اس کی ہی عطا کی ہوئی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور دینے والا نہیں۔ کوئی اور دے ہی نہیں سکتا۔ جب سب نعمتیں وہ عطا فرماتا ہے تو اسی سے دل لگانا چاہیے اسی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عبادت کے لائق سمجھنا کسی بت کسی مصنوعی دیوی دیوتا کسی آسمانی زمینی چیز مقبرے یا کسی انسان کو اللہ کی خصوصیات میں حصہ دار بنانا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کو شرک کہتے ہیں۔
۲
سورج پہ غور کر کے نہ پائی وہ روشنی
جب چاند کو بھی دیکھا تو اُس یار سا نہیں
غور کرنا :ghaur karnaa،سوچنادھیان کرنا To ponder, think over
سورج بے حد روشن چمکدار خوب صورت گرمی پہنچانے والا دن رات اور موسموں کو بدلنے والا انسانی زندگی قائم رکھنے میں مدد دینے والا نظام شمسی کا مرکزی ستارہ ہے اور چاند ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی بکھیرتا ہوا انتہائی حسین رات کو ستاروں کے جھرمٹ میں آسمان سجانے والا زمین پر بہت سے اثرات ڈالنے والا قدرت کا شاہکار ہے۔ نا سمجھ لوگ کوئی بڑی سی طاقت ور چیز دیکھ کر اس کو پوجنے لگتے ہیں۔ لیکن غور کرنے سے علم ہوتا ہے کہ یہ عبادت کے لائق نہیں عبادت کے لائق وہ واحد خدا ہے جو ان کو پیدا کرنے والا ہے۔ وہ نور ہی نور ہے ان سیاروں ستاروں سے بہت زیادہ روشنی اور فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھنے والا ہے۔ یہ تو اس نے پیدا کیے ہیں اس کے حکم کے غلام ہیں۔
۳
واحِد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے
سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں
واحد :waahid،ایک احد one
لاشریک :laa shareek جس کا کوئی شریک نہ ہو، اللہ تعالیٰ Without any partner
لا زوال :laa zawaal جس ہر زوال نہ آئے،جس کی ترقی، بلندی اور عروج میں کبھی کمی کمزوری اور نقص نہ ہو No decline
Eternal, imperishable, everlasting
فنا: fanaaنیستی، موت، ہلاکت،بربادی، Destruction, eternal death, mortality
جب اللہ تعالیٰ کے لیے واحد کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہاں صفات کی وحدانیت مراد ہوتی ہے کہ وہ صفات میں واحد ہے یعنی اپنی صفات میں کامل ہے اور اس کے سوا کوئی اور وجود نہیں جو صفات کے لحاظ سے کامل ہو ( تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ ۵۲۵) وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کو زوال نہیںہوگا کبھی کمزور نہیں پڑے گا۔ طاقت میں کمی نہیں ہوگی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ دنیا کی ہر چیز ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی دنیا فانی ہے لیکن اللہ تعالیٰ لا فانی ہے اس لیے اسی کی عبادت کرنا بنتا ہے جو چیزیں فنا ہونے والی ہیں وہ عبادت کے لائق نہیں ہو سکتیں وہ تو خود محتاج ہیں جبکہ اللہ پاک کسی کا محتاج نہیں۔
۴
سب خیر ہے اِسی میں کہ اُس سے لگاؤ دِل
ڈھونڈو اُسی کو یارو! بتوں میں وفا نہیں
بھلائی اور نیکی اسی میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے محبت نہ کریں اسی سے اپنے دل کو لگائیں۔ اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے رہیں وہ وفادار ساتھی ہے ہر مشکل میں کام آتا ہے بن مانگے دیتا ہے بار بار رحم کرنے والا مہربان ہے جبکہ بت اور ان کے سوا جن کو خدائی صفات والا تصور کیا جاتا ہے کسی بھی کام نہیں آتے۔ وہ تو اپنے بھی کسی کام نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ کو جاننے پہچاننے اور اس سے جڑ جانے کا طریق بھی اُس نے خود بتایا ہے۔
۵
اِس جائے پُر عذاب سے کیوں دِل لگاتے ہو
دوزخ ہے یہ مقام یہ بُستاں سرا نہیں
جائے پرعذاب :ja-e pur azaab
A place of torture تکلیفوں سے بھری ہوئی دنیا۔
بستاں سرا :bustaan saraa باغ کی طرح Like a garden
حضرت اقدس علیہ السلام نے اس شعر میں دنیا کو عذابوں سے بھری ہوئی اور جہنم جیسی تکلیف دہ جگہ فرمایا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی اس دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا ہے۔(سنن نسائی)
دنیا کوئی خوب صورت باغ باغیچہ یا پھولوں کی سیج نہیں۔ بظاہر تو دنیا میں پہاڑوں آبشاروں سبزہ زاروں پھولوں پرندوں موسموں کا حسن نظر آتا ہے۔ آرام اور عیش کے سامان ہیں۔لیکن اس میں کھوجانا اور اس کی لذتوں کو ہی اپنا پہلا مقصد سمجھ لینا خدا سے دور لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے دنیا کی خوب صورتی اللہ تعالیٰ کی یاد دلانے کے لیے ہے اگر اس کی لذتیں مقصد سے دور لے جائیں تو عذاب بن جاتی ہیں۔ ایک آزمائش ہیں ایک وقت میں دنیا اور دین دونوں سے محبت نہیں کر سکتے۔ ہماری سب سے بڑی خوشیاں ہماری اعلیٰ لذات اللہ تعالیٰ کے قریب جانے میں ہیں۔ اپنے محبوب سے ملنے کی جنت الفردوس اصلی حقیقی اور قائم رہنے والی ہے۔اس کے حسن کے سامنے ہر خوب صورتی کم درجے کی ہے۔