حضور انور کا دورۂ جرمنی اگست، ستمبر ۲۰۲۳ء (نواں روز، ۴؍ ستمبر ۲۰۲۳ء)
(۰۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) آج جرمنی میں حضور انور کے قیام کا نواں دن ہے۔ صبح فجر کی اذان طلحہ کاہلوں صاحب مربی سلسلہ نے دی اور حضور انور نے پانچ بجکر چالیس منٹ پر نماز فجر پڑھائی۔ جس کے بعد مربی سلسلہ نوید الحق شمس صاحب نے تفسیر کبیر میں سے سورت الرعد کی تیرہویں آیت کا درس دیا۔
آج جلسہ سالانہ پر آنے والے ان بیرونی وفود کی حضور انور سے ملاقات کا دن تھا جو جرمنی کے مشن کے تحت کام کر رہے ہیں یا جن ممالک میں جماعت جرمنی کے توسط سے مشن اور جماعتیں قائم ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کا انتظام باری باری مردانہ اور خواتین کی مسجد میں کیا گیا تھا۔ حضور ایدہ اللہ ملاقات کے لیے ساڑھے دس بجے بیت السبوح میں مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے تو قرغیزستان اور قازقستان کا 31 مرد و خواتین پر مشتمل وفد حضورِانور سے ملاقات کا متمنی تھا۔ مردوں نے اپنی ثقافت کی مظہر ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ ایک بچی وقفِ نو کی تحریک میں شامل تھی۔ حضور انور نے اراکینِ وفد سے گفتگو کر کے علاقائی صورتحال کے بارے میں معلومات لیں۔ ایک دوست نے بتایا وہ دس سال کے بعد دوبارہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے ہیں۔ جماعت جرمنی نے جس طرح ترقی کی ہے دعا کریں ہم بھی اسی طرح ترقی کر سکیں- ایک خاتون نے علاقے میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کا ذکر کیا۔ حضور سے راہنمائی چاہی اور دعا کی درخواست کی۔ حضورانور نے جواب میں فرمایا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے مسلمان اکٹھے ہوں اور متحد ہوکر حکمت اور ڈپلومیسی سے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ اوراگر پھر بھی ظالم باز نہ آئے تو ایسی جگہ سے ہجرت کر جانے کا ارشاد ہے۔ دعا کرتے رہنا چاہیے۔ خداکی مدد کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ اسی طرح ملاقات میں موجود دیگر خواتین و احباب نےاپنے اپنے مدعا بیان کر کے حضورِانور سے راہ نمائی اور دعا کی درخواست کی۔ حضورِانور نے سب کو دعائیں دیں اور آخر پر بچوں میں چاکلیٹ تقسیم فرمائیں۔ یہ ملاقات گیارہ بجے تک جاری رہی۔
البانین وفد بیس افراد پر مشتمل تھا۔ حضورِانور نے سلام دعا کے بعد دریافت فرمایا کہ جلسہ میں پہلی بار کون کون آیا ہے۔ پہلی بار شامل ہونے والوں سے ان کے تاثرات پوچھے۔ سب نے مثبت تاثرات بیان کیے۔ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بچوں کی بیماری پر اپنی ریسرچ کا ذکر کر کے دعا کی درخواست کی۔ نماز کے دوران توجہ قائم رکھنے کے لیے حضورِانور نے لاحول پڑھنے کی تلقین کی۔ جماعت البانیہ کے نائب صدر نے حضورِانور کو بتایا کہ ہم نے مشن ہاؤس کے رقبہ میں زیتون کے درخت لگائے ہیں جن سے ہم خالص زیتون کا تیل حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں نے اپنا ذہنی معذور بچہ حضور کے آگے کرکے کامل صحت کے لیے دعا کی درخواست کی۔ حضور انور نے بچہ کے بائیں کندھے کی طرف ہاتھ پھیر کر دعا دی۔ ملاقات میں موجود بچوں نے حضورِانور سے چاکلیٹ حاصل کیں۔
سوا گیارہ بجے یہ ملاقات ختم ہونے پر حضورِانور کوسوو کے وفد سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے جو ۲۸ افراد پر مشتمل تھا۔ ان میں ایک دوست میونسپیلٹی کے سیکرٹری تھے جن سے حضور انور نے ان کے شہر کی آبادی کا پوچھا تو انہوں نے 65 ہزار بتائی۔ ایک مہمان کی رائے تھی کہ اتنا آرگنائزڈ مسلمانوں کا فنکشن پہلے نہیں دیکھا جس پر حضورِانور نے فرمایا کہ مسیح موعودؑ نے امت کو اکٹھا کرنا ہے۔ اس کے پیچھے چلیں گے تو فائدہ میں رہیں گے ورنہ ایسے ہی لڑتے رہیں گے۔ آپ اپنے ملک میں مسلمانوں کو یکجا کریں۔ ان کو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی سے آگاہ کریں۔ کوسوو میں 94 فیصد مسلمان ہیں وہاں حکمت کے ساتھ پیغام پھیلائیں۔ حضورانور نے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں اور یہ ملاقات ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہی۔
اس کے بعد باری باری وفود کی ملاقاتوں کا سلسلہ دوپہر سوا ایک بجے تک جاری رہا۔ جن ممالک کے وفود نے حضورِانور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ان میں بوسنیا کا وفد چالیس مردو و خواتین پر مشتمل تھا۔ مقدونیہ، کروشیا، سربیا، آذربائجان اور ترکیہ کا مشترکہ وفد، ہنگری و رومانیہ کا مشترکہ وفد، چیک رپبلک اور سلوواکیہ کا مشترکہ وفد شامل تھے۔ حضورِانور سب سے انفرادی تعارف حاصل کرتے، وفد میں موجود احمدیوں اور زیر تبلیغ افراد کا پوچھتے اور سوال کرنے کا موقع فراہم کرتے جن کے جواب حضور انور کی طرف سے دیے جاتے۔ مقامی مبلغین ترجمانی کے فرائض ادا کر رہے تھے۔ حضورِانور سوال کے جواب کا ترجمہ ہونے کے بعد اندازہ لگا لیتے تھے کہ سوال کرنے والے کو جواب کس قدر سمجھ آیا ہے۔ حضور انور نے تبلیغی سوالوں اور اسلامی تعلیم کے جوابات پر بعض اوقات کنفرم کیا کہ سوال کرنے والا مطمئن ہے۔ بوسنیا کے سیکرٹری تبلیغ جو بوسنیا کے ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں نے الیس اللہ بکاف عبدہ کی دو انگوٹھیاں بابرکت کروانے کے لیے حضور انور کی خدمت میں پیش کیں۔
دو فیملیوں نے صاحبِ اولاد ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ نوجوانوں سے حضورپُرنور نے ان کی تعلیم کی تفاصیل دریافت فرمائیں۔ بعض وفود میں صدر لجنہ بھی موجود تھیں جن کو حضورِانور نے لجنہ سے متعلق ہدایات دیں۔ وفود میں سربیا کے الیکشن کمشن کے ممبر، کروشیا کی وکیل اور صحافی، پوسٹ گریجویٹ اور یونیورسٹی پروفیسر بھی شامل تھے۔ چیک رپبلک اور سلوواکیہ کا وفد جس میں چار مرد اور چار خواتین شامل تھیں نے بغیر ترجمان کے انگریزی میں گفتگو کی۔ اس وفد میں یونیورسٹی آف پراگ کے ایک پروفیسر بھی شامل تھے جن کا جماعت سے تعلق نوجوانی میں 1965ء میں سوئزرلییڈ میں قائم ہوا۔ ہر ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے بچوں اور طلبہ و طالبات کو تحفہ میں چاکلیٹ عطا فرمائیں۔ سوا ایک بجے ملاقاتوں کے اختتام پر حضور انور نمازوں کی تیاری کے لیے قیام گاہ تشریف لے گئے اور دو بجے واپس آکر نماز ظہر وعصر پڑھائیں جس سے قبل اذان دینے کی سعادت حافظ اویس احمد صاحب کے حصہ میں آئی۔
آج شام بھی حضور انور نے وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ حضور انور ساڑھے پانچ بجے دوبارہ
مسجد بیت السبوح تشریف لائے تو گھانا، کیمرون اور سیرالیون کے وفود نے کھڑے ہو کر حضور انور کو خوش آمدید کہا۔
کیمرون کے وفد میں ایک زیر تبلیغ مسجد کے امام بھی تھے جنہوں نے جلسہ کی کامیابی کے بارے میں اپنی حیرانگی کا اظہار کیا۔
سیرالیون نے ہیومینٹی فرسٹ کی کارکردگی بتلائی۔ ایک سول انجینیر نے بتایا کہ وہ 16 مساجد کی تعمیر کی نگرانی کر چکے ہیں اور اب 17 وین زیر تعمیر ہے۔
حضور نے شام کی ملاقاتوں میں بڑے وفود ہونے کے باوجود ہر ایک سے انفرادی تعارف حاصل کیا اور ان کے حالات دریافت کیے۔ طلبہ سے ان کی پڑھائی کی تفصیل معلوم کی۔ اور جلسہ سالانہ جرمنی کے بارے میں مہمانوں کے تاثرات لیے۔
آج شام کی ملاقات میں درج ذیل ممالک کے وفود نے حضور انور سے باری باری ملاقات کا شرف حاصل کیا
بلغاریہ، برکینافاسو، سینیگال، بینن، جارجیا، پولینڈ، یوگنڈا، گیمبیا، الجیریا، بنگلہ دیش، فلسطین، لیٹویا اور لیتھوینیا۔ حضور انور نے ملاقاتوں کے دوران افریقن ممالک کی صدران لجنہ کو ہدایت دیں کہ وہ تجنید کے شعبے کی طرف توجہ دیں۔
بلغاریہ کی ایک طالبہ کو جو زبانوں میں اعلیٰ ڈگری حاصل کر رہی ہیں حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ جماعت کا اہم لٹریچر کا آپ نے ترجمہ کرنا ہے۔ برکینافاسو کے وفد میں موجود ڈاکٹر عبدالناصر کو سپیشلسٹ بننے کی تلقین فرمائی۔ انہوں نے عرض کی کہ میں آنکھوں کا سرجن بننا چاہتا ہوں۔ جارجیا سے عائشہ جو سوشل جسٹس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں نے حضور انور کو بتایاکہ ہمارے ملک میں مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
الجزائر کے وفد میں سب احمدی مرد اسیر راہ مولیٰ رہ چکے تھے، بعض پر ابھی مقدمات چل رہے ہیں۔ ایک حاضر دوست پر دس مقدمے بنے۔ حضورِانور نے ان سب کو تسلی دی اور فرمایا کہ مشکل وقت ہے۔ مشکل وقت میں ثابت قدم رہنے کا ثواب بھی زیادہ ہے۔ اچھے دن بھی انشاء اللہ آئیں گے۔
ایک مصری احمدی نوجوان جو سٹراسبرگ فرانس میں فزکس میں پی ایچ ڈی اور ایک طالبہ جو الجزائر میں فزکس میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں نے حضور انور سے راہ نمائی اور دعا کی درخواست کی۔
الجزائر کی ہی ایک احمدی بچی نے حضور انور سے اجازت طلب کی کہ مجھے جلسہ کی کامیابی میں خدا کا ہاتھ نظر آتا ہے میں فیس بک پر جلسہ کی اپنی تصاویر شئیر کر سکتی ہوں۔ حضور انور نے ان کو سمجھاتے ہوئے ایسا نہ کرنے کی تلقین کی۔
وفود سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ شام آٹھ بجکر بیس منٹ تک جاری رہا جس کے دوران باربار انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے جن کی تفاصیل قارئین یقیناً الفضل کی اشاعت میں ملاحظہ کریں گے۔ ملاقاتوں کے اختتام پر حضورِانور اپنے دفتر میں تشریف لے آئے اور عشاء کی نماز تک مصروف رہے۔ اذان باسل احمد عارف صاحب مربی سلسلہ نے دی جس کے بعد سوا نو بجے حضور انور نے نماز مغرب و عشاء پڑھائیں۔ اس کے بعد حضور اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔ آج بھی مساجد کے چاروں ہال نمازیوں سے پر تھے۔
٭…٭…٭