حضرت مسیح موعودؑ کی نظم ’’محاسنِ قُرآنِ کریم‘‘ کے چند اشعار پر تضمین
زندہ وہی ہے جو کہ خدا میں ہوا فنا
مرضی کو اپنی چھوڑا پئے مرضیٔ خدا
حاصل اُسی کو ہوتی ہے اُس یار کی لِقا
’’جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا
اَے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما‘‘
جو متقی ہے اُس کا محافظ ہے خود خدا
کبرو غرور و بُخل اِسی سے ہوا فنا
تقویٰ سے میل ہو تو ملے مرضیٔ خدا
’’جڑ ہے ہر ایک خیر و سعادت کی اتقا
جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اس کا سب رہا‘‘
شوخی و عُجب کرتے ہیں داخل وبال میں
پھنستے ہیں اِس سے نَخوت و غفلت کے جال میں
خوبی اِسی میں ہے کہ ہو نرمی خصال میں
’’بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اِسی سے دخل ہو دارُالوِصال میں‘‘
دنیامیں موت سے تو کوئی بھی بچا نہیں
کچھ دائمی نہیں ہے کسی کو بقا نہیں
اُس یار کے سوا ہے کسی میں وفا نہیں
’’اے حُبِّ جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں
اس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں‘‘
سینے میں عشقِ مولیٰ کا جوش و تپاک ہو
دیوِ لعینِ فِسق و معاصی ہلاک ہو
جامہ فریب و ضِدّ و تعصّب کا چاک ہو
’’ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل و سینہ پاک ہو
نفسِ دَنی خدا کی اِطاعت میں خاک ہو‘‘
(تنویر احمد ناصر۔ قادیان)