تحریرات حضرت مسیح موعودؑ کی روشنی میں قرآنِ کریم کا مقام اور مرتبہ اور محاسن
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۷؍ اپریل ۲۰۲۳ء)
قرآن کے نزدیک مذہب کا منصب کیا ہے اور انسانی قویٰ پر اس کا کیا تصرف ہے اور ہونا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ سوال کہ مذہب کا تصرف انسانی قویٰ پر کیا ہے انجیل نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔کیونکہ انجیل حکمت کے طریقوں سے دور ہے۔ لیکن قرآنِ شریف بڑی تفصیل سے بار بار اس مسئلہ کو حل کرتا ہے کہ مذہب کا یہ منصب نہیں ہے کہ انسانوں کی فطرتی قویٰ کی تبدیل کرے اور بھیڑئیے کو بکری بنا کر دکھلائے۔‘‘ یعنی طاقتور کو بالکل ہی کمزور بنا کر دکھائے ’’بلکہ مذہب کی صرف علت غائی یہ ہے کہ جو قویٰ اور ملکات فطرتاً انسان کے اندر موجود ہیں۔‘‘ جو صلاحیتیں ہیں جو طاقتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کو دی ہوئی ہیں ’’ان کو اپنے محل اور موقعہ پر لگانے کے لئے رہبری کرے۔
مذہب کا یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی فطرتی قوت کو بدل ڈالے۔ ہاں یہ اختیار ہے کہ اس کو محل پر استعمال کرنے کے لئے ہدایت کرے اور صرف ایک قوت مثلاً رحم یا عفو پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کے لئے وصیت فرمائے۔‘‘ یہ نہ کہے کہ صرف رحم کرو اور معاف کرو بلکہ ضرورت کے مطابق جس چیز کی اس موقع پر ضرورت ہے اسے استعمال کرنے کی تلقین کرے۔ اصل غرض اصلاح اور بہتری ہے اور یہ مقصد جس طرح بھی پورا ہو اسے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فرماتے ہیں کہ رحم یا عفو پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کے لیے وصیت فرمائے ’’کیونکہ انسانی قوتوں میں سے کوئی بھی قوت بری نہیں بلکہ افراط اورتفریط اور بداستعمالی بری ہے اور جو شخص قابل ملامت ہے وہ صرف فطرتی قویٰ کی وجہ سے قابل ملامت نہیں بلکہ ان کی بداستعمالی کی وجہ سے قابل ملامت ہے۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد12صفحہ340-341)
اس کی ایک چھوٹی سی مثال یوں ہے کہ ایک جسمانی طور پر طاقتور آدمی ہے اگر اپنی طاقت کے اظہار کے لیے وہ ظلم ہی کرتا رہے یا صاحبِ اختیار ہے تو ظلم کرتا رہے۔ دوسروں کے لیے نرم دلی نہ ہو۔ موقع محل پر اپنے قویٰ کا اظہار نہ ہو بلکہ اپنی برتری ثابت کرنا اور رعب قائم کرنا ہی مقصد ہو تو پھر ایسا شخص برا کہلائے گا۔ اس کی صلاحیتیں جو ہیں وہ بری نہیں لیکن اس کا استعمال برا ہے، اس کا عمل برا ہے۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آپ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد صداقتِ قرآن کو ثابت کرنا اور قائم کرنا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں:’’یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کرے۔ خدا نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآنِ شریف کو سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آ سکتا اور معقولات سے ایسی پُر ہے کہ ایک فلاسفر کو بھی اعتراض کا موقع نہیں ملتا۔‘‘(ملفوظات جلد 6صفحہ 167 ایڈیشن 1984ء)
پھر عظمتِ قرآن بیان فرماتے ہوئے آپؑ جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اس زمانہ کے حسبِ حال ہو توہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔‘‘ جس زمانے میں حضرت عیسیٰ آئے اس زمانے کے حسبِ حال تھی لیکن اب نہیں۔ ’’یہ فخر قرآنِ مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہرمرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اُس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘(ملفوظات جلد9 صفحہ 122 ایڈیشن 1984ء)
قرآن کریم پر تدبر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’رسم اور بدعات سے پرہیز بہتر ہے۔ اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے۔ بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تد برمیں لگاو ے۔‘‘(ملفوظات جلد 6صفحہ 266 ایڈیشن 1984ء) لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وظیفہ بتا دیں، چھوٹی سی بات بتا دیں تا کہ اسی پہ نظر ہو، ہم وقت لگائیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ نہیں قرآنِ شریف پر غور کرنے پر وقت لگاؤ۔
بعض لوگ وظائف میں ہی وقت صرف کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور جو وظائف اور ذکر کر رہے ہوتے ہیں ان کا مطلب ہی بعضوں کو نہیں آتا اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی روحانی بہتری کا واحد ذریعہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا اس کے بجائے یہ وقت قرآن کریم پر غور پر خرچ کرو تو زیادہ بہتر ہے۔ روحانی ترقی اسی سے حاصل کر سکتے ہو۔
غیر احمدی مسلمانوں میں تو بہت سی بدعات اس ذریعہ سے راہ پا گئی ہیں لیکن بعض احمدی بھی اس کے زیر اثر آ گئے ہیں اس لیے ہمیں بچنا چاہیے اور قرآن شریف کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔