نماز تہجد میں مداومت اختیار کرنے کی تلقین
تیسری شرط بیعت: سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کےاحسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔
(اشتہار ’تکمیل تبلیغ‘، مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۲۰۶، ایڈیشن ۲۰۰۹ء)
… ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالےٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لےگا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو۔ اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اورسوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی در داور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے۔
(ملفوظات جلد۳صفحہ ۲۴۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اس زندگی کے کُل انفاس اگر دنیاوی کاموں میں گذر گئے،تو آخرت کے لئے کیا ذخیرہ کیا۔
تہجد میں خاص کراُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو۔درمیانی نمازوں میں بہ باعث ملازمت کے ابتلا آجاتا ہے۔رازق اللہ تعالیٰ ہے۔نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہیے۔ظہر و عصر کبھی کبھی جمع ہو سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گےاس لیے یہ گنجائش رکھ دی مگر یہ گنجائش تین نمازوںکے جمع کرنے میں نہیں ہو سکتی۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)