اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
(مرتبہ: مہر محمد داؤد)
مارچ۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
مارچ ۲۰۲۳ء میں احمدیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دل بوجھل سا ہو رہا ہے۔ ان واقعات میں کالرہ کلاں گجرات میں ایک مسجد کی بے حرمتی اور فیصل آباد میں ایک مسجد پر حملے کی دھمکی شامل ہے۔گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن نے نیا ممبر بننے کےلیے بانی جماعت احمدیہ کے خلاف بد زبانی کرنا لازم کر دیا ہے۔مزید برآں احمدی طلبہ کا سکولوں سے اخراج اور اساتذ ہ سے امتیازی سلوک اور کوٹلی آزاد کشمیر میں کام کرنے والوں پر کام کی جگہوں اور ہمسایوں کی جانب سے تشدد نمایاں ہے۔
یہ تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ احمدیہ جماعت پر ظلم و ستم کا یہ بازارگرم ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے واقعات کی حکومت اور ملکی اداروں کی جانب سے مذمت کی جائے۔ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی طرف گامزن ہونا ہو گا جہاں ہر شہری اپنےالگ مذہبی عقائد کے باوجود محفوظ و مامون ہو۔
پولیس نے مسجد کو بری طرح سے نقصان پہنچایا
کالرہ کلاں،گجرات۔چوبیس پچیس مارچ ۲۰۲۳ء: اس جگہ پولیس نے معمولی سی بات کو وجہ بنا کر مسجد کی بے حرمتی کی۔اکیس تاریخ کو انسداد دہشتگردی فورس کا ایک اہلکار آیا اور مسجد کی تصاویر بنائیں۔ جب اس کو منع کیا گیا تو وہ چلا گیا اور اگلے روز دوبارہ آکر تصاویر بنا کر لے گیا۔چوبیس تاریخ کو ڈی ایس پی اور ایس ایچ او تھانہ لاری اڈہ اپنے ساتھ پولیس کے دستے لےکر آئے تا کہ میناروں کو مسمار کر یں۔ جماعت کےبزرگوں نے بتایا کہ مسجد ستر سال پرانی ہے اور اس پر مینارے بھی اتنے ہی پرانے ہیں۔ اس پر ڈی ایس پی نے کہا مساجد صرف مسلمانوں کی ہوتی ہیں۔اور میں نرمی سے پیش آرہا ہوں۔ اس نے احمدیوں کو دھمکاتے ہوئے کہاکہ ان پر مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ مسجد بھی سیل کی جا سکتی ہے۔ اس کےبعد اس نے موقع پر موجود احمدیوں کے موبائل فون ضبط کر لیے اور پولیس نےمسجد کے مینارے مسمار کرنے شروع کر دیے۔ اگلے روز پچیس مارچ کو یہ لوگ دوبارہ آئے اور مسجد کا گنبد بھی مسمار کر دیا۔ ملبہ کی وجہ سے تمام فرش اور سیڑھیاں متاثر ہوئیں۔
اس واقعے کےبعد جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے ڈی پی او کےپاس جا کر اس معاملے کے متعلق بات کی تو اس نے انتہائی بد تہذیبی کے ساتھ کہا کہ آپ لوگوں کو خود ہی مینارے اور محراب مسمار کر دینا چاہیے تھے۔ کیونکہ قانون آپ لوگوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔احمدی وفد نےکہاکہ وہ نسل در نسل اسی گاؤں میں رہ رہے ہیں اور کبھی کسی نے اس بات کی کوئی شکایت نہیں کی۔ اور ابھی بھی کسی گاؤں کے مکین نے اس بات کی شکایت نہیں کی۔ پولیس نےخود گاؤں کےحالات کشیدہ کیے ہیں۔ موصوف کے پاس اس بات کا کوئی جواب موجود نہ تھا۔
ڈسٹرکٹ بار گوجرانوالہ کا ممبر بننے کےلیے ختم نبوت والا حلف نامہ لازمی قرار
حافظ وزیر علی ملک سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ نے سرکاری لیٹر ہیڈ پیڈ پر درج ذیل حلف نامہ جاری کیا۔
حوالہ نمبر ۳۳/۲۰۲۳
بتاریخ:سات مارچ ۲۰۲۳ء
اس حلف نامے کی تحریر یوں ہے۔
تاجدار ختم نبوتﷺ زندہ باد
نوٹس اطلاع
تمام معزز اراکین کو مطلع کیا جاتا ہےکہ مورخہ ۲۳؍ فروری ۲۰۲۳ء بروز جمعرات جنرل ہاؤس اجلاس میں تحفظ ختم نبوت کےحوالے سےمنظور شدہ قرارداد کے مطابق ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی ممبر شپ حاصل کرنے کےلیےممبر شپ فارم میں درج ذیل حلف نامہ شامل کیا گیاہے جو کہ درج ذیل ہے۔آئندہ سے جو معزز ممبران ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کی ممبر شپ حاصل کریں گے وہ حضرت محمدﷺ آقائے نامدار کی ختم نبوتﷺکے حلف نامے کے تحت ہی ممبرشپ لیں گے۔لہذا اطلاعاً عرض ہے۔
میں مسلمان ہوں اور نبی حضرت محمدﷺکے آخری،حتمی اور غیر مشروط خاتم النبیین ہونے پر ایمان رکھتا / رکھتی ہوں۔میں ایسے کسی بھی شخص کو نبی نہیں مانتا/ مانتی ہوں جو حضرت محمدﷺ کے بعد لفظ ’’نبی ‘‘کی کسی بھی تشریح یا کسی بھی ممکنہ حوالے سےنبی ہونے کا دعویٰ کرے۔یا نبوت کے ایسے مدعی نبی یا مذہبی مصلح،یا مسلمان ہی نہیں مانتا / مانتی ہوں۔میں [نقلِ کفر کفر نباشد] مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی سمجھتا/ سمجھتی ہوں اور اس کے لاہوری یا قادیانی گروپ سے تعلق رکھنےوالے پیروکاروں کو غیر مسلم سمجھتا/ سمجھتی ہوں۔
احمدیوں کے معاشرتی مقاطعہ کی وجہ سے دو احمدی طلبہ کو سکول سے نکال دیا گیا
بھڑی شاہ رحمان،ضلع گوجرانوالہ،مارچ ۲۰۲۳ء: دوسرے علاقوں کی طرح اس جگہ بھی احمدیوں کے خلاف سرگرمیاں جاری ہیں۔ مولویوں کو مسجدوں میں بلا کر احمدیوں کا معاشرتی مقاطعہ کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ کئی احمدی دکانداروں سے دکانیں خالی کروا لی گئی ہیں اور لوگوں کو مجبور کیا جارہاہے کہ وہ احمدیوں کےساتھ تجارت بندکر دیں۔
دو احمدی طلبہ کو اسلام کی توہین کا الزام لگا کر سکول سے نکال دیا گیا اور اس کے علاوہ سرکاری سکول میں اسلامیات کے لیکچر کے دوران احمدی طلبہ کو ہراساں کیا گیا۔
طلبہ کے لیےاحمدیت مخالف سوالنامہ
پشاور،مارچ ۲۰۲۳ء:پشاور ماڈل سکول میں تین احمدی طلبہ پڑھتے ہیں۔ سکول کے اساتذہ پوچھتے ہیں کہ کلاس میں کیا کوئی قادیانی (احمدی) ہے۔ مفتی محمد عمران نے معروضی سوالات کے پرچے میں یہ سوال شامل کیے۔
۱۔ختم نبوت پر آیات اور احادیث کی تعداد کتنی ہے؟
۲۔آنحضرتؐ نے کتنے جھوٹے مدعیان کی پیشگوئی کی؟
۳۔کس امام نےکہا کہ اگر کوئی جھوٹے مدعی نبوت سے کوئی ثبوت بھی مانگے تو اسلام سے خارج ہے؟
۴۔پہلے جھوٹے مدعی نبوت کا نام بتائیں؟
۵۔آئین میں کس تاریخ کو قادیانیوں (احمدیوں ) کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا؟
احمدی طلبہ کے لیے تکلیف دہ صورتحال
ڈان اخبار نے ۶؍مارچ ۲۰۲۳ء کو لکھا کہ قومی نصاب کونسل نے اقلیتی طلبہ کے لیے مذہبی کتابوں کی اشاعت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ احمدی طلبہ اس کے باوجود اسلامیات کا ہی انتخاب کرتے ہیں لیکن ان کواس بات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ایک احمدی سکالر نے اس کا حل بھی پیش کیا جو کہ قابل عمل بھی ہے لیکن مولویوں کے دباؤ کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا جارہا۔اقلیتی طلبہ کو ان کی اپنی مذہبی کتب پڑھنے کی اجازت ہوگی۔ لیکن احمدی طلبہ کےلیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔ملک کے اندر ایک بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔ قومی نصاب کونسل نے وفاقی حکومت کے زیر نگرانی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے سات اقلیتی گروہوں کے طلبہ کےلیے ان کی مذہبی کتب کی اشاعت کی منظوری دی ہے۔ اس میں ہندو،سکھ،مسیحی،بہائی، زرتشتی،خالصہ اور بدھ مت شامل ہیں۔یہ ایک بڑا سنگ میل ہے۔ ان کتابوں میں ان مذاہب کی مستند حوالوں کے ساتھ تعلیم موجود ہو گی اور طلبہ ان کتب کے ذریعے اپنے مذہب اور روایات کے متعلق سکول کے اندر ہی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔لیکن احمدیوں کے پاس کوئی بھی حق انتخاب نہیں ہے۔احمدی طلبہ کے ساتھ پاکستان میں یہ معاملہ اپنی نوعیت میں یگانہ ہے۔
٭…پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور اپنے مذہب پر عمل پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
٭…احمدی اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ اپنا لٹریچر شائع نہیں کر سکتے۔احمدی طلبہ اسلامیات کا انتخاب نہیں کر سکتے۔صرف اخلاقیات کا انتخاب کر سکتے ہیں۔جب احمدیوں نے اسلامیات کا انتخاب کرنا چاہا تو ان کو کہا گیا کہ وہ غیر مسلم ہیں اور وہ اسلامیات اور قرآن نہیں پڑھ سکتے۔ دوسرے مذاہب کے طلبہ کے پاس انتخاب کا حق موجود ہےکہ وہ اسلامیات یا اخلاقیات میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں اور اب تو ان کے اپنے مذاہب کی کتب بھی موجود ہیں۔ لیکن احمدیوں سے یہ حق چھین لیا گیاہے۔ احمدی لٹریچر پر پہلے سے پابندی عائد کی جا چکی ہے۔یہ حرکت احمدیوں کو مزید تفریق کا شکار کر دے گی اور احمدیوں کو نشانہ بنانا اور آسان ہو جائے گا۔
اس سب کا ایک حل یہ ہے کہ ہر کسی کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس بھی مضمون کا انتخاب کرنا چاہے وہ آزاد ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے ہندومت یا بدھ مت کے متعلق علم حاصل کرنا چاہے تو وہ آزاد ہو۔ اس طرح سے طلبہ کو ایک دوسرے کے مذاہب کے متعلق بھی علم ہو گا اور ایک بہتراور قدرے برداشت والا معاشرہ بھی وجود میں آئے گا۔اور اس سے یہ بات بھی یقینی بنے گی کہ ہر طالبعلم کے پاس یکساں اور برابری کی سطح پر علم حاصل کرنےکے مواقع موجود ہیں۔
کوٹلی آزاد کشمیر میں جارحیت
کوٹلی آزاد کشمیر،پچیس مارچ۲۰۲۳ء:کوٹلی میں عدالت کے احاطے میں ایک احمدی اشٹام فروش محمد رفیق کو ایک مولوی نے دھمکی دے کر کہا کہ اپنے نام کی تختی وہاں سے ہٹا دے۔محمد رفیق نے اپنے کام کی جگہ پر اپنے نام کی تختی آویزاں کر رکھی ہے۔پچیس تاریخ کو ایک مولوی آیا اور کہا کہ کیونکہ وہ قادیانی ہیں اس لیے وہ اپنے نام کے ساتھ محمد نہیں لکھ سکتے۔ اور اگر انہوں نے یہ تختی نہ ہٹائی تو وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا۔
کوٹلی کا ہی ایک اور واقعہ ہے۔ کوٹلی شہر کے مربی صاحب احمدیوں کے گھروں میں دورے کرتے ہیں۔ ایک احمدی کےہمسائے نے کہا کہ ایک آدمی اور ایک عورت احمدیوں کے گھروں میں آتے جاتے ہیں میں ان کو قتل کر دوں گا۔ کہا جاتا ہے کہ دھمکی دینے والا شخص نشے کی عادت میں مبتلا ہے۔
ایک اور احمدیہ مسجد کے متعلق دھمکی
چک ۵۶۵گ ب،فیصل آباد،بائیس مارچ ۲۰۲۳ء: ایک پولیس والے نے مسجد کا دورہ کیا اور پھر صدر جماعت کو تھانے میں بلایا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے دو لوگوں نے مسجد کے میناروں کے متعلق شکایت درج کروائی ہے۔ایس ایچ اوتھانہ نے فریقین کو بلا کر یقین دہانی کروائی کہ معاملہ قانون کے مطابق حل ہو گا۔ اور ڈی سی او فیصل آباد کو اس معاملے کے متعلق آگاہ کر دیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہےکہ تحریک لبیک ایک سیاسی پارٹی ہے اور شدت پسندی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے۔گذشتہ سال اس گروہ نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا اور حکومت اس وقت سے ان سے خوف زدہ ہے اور جب بھی یہ کوئی احمدیت مخالف کام کریں تو وہ ان کو خوش کرنے میں لگ جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ٹوئٹ
اقوام متحدہ،۱۱؍مارچ ۲۰۲۳ء:جناب انٹونیوگوٹیریس نے ایک ٹوئٹ کی ہے جو قابل تذکرہ ہے۔ہمیں یقین ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اور خاص کر پاکستان کے مسلمان ان کی اسلاموفوبیا پر ٹوئٹ کو سراہیں گے۔کیونکہ ایک لحاظ سے وہ ساری دنیا کی نمائندگی کررہے ہیں۔اس ٹوئٹ کےپیچھے کی سوچ اور دانش کو ایک عام فہم آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہےکہ کسی کو بھی اپنے عقیدے کی وجہ سے تعصب کا سامنا نہ کرنا پڑے اور کسی ذی روح کو کسی ہٹ دھرم سے پالا نہ پڑے۔ ہمیں انسانیت کے اتحاد کے لیے کام کرنا ہوگا اور مذہبی عدم برداشت کا قلع قمع کرنا ہو گا۔ یہ ٹوئٹ صرف اسلاموفوبیا(اسلام کا خوف) سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر عقیدے کے خوف سے تعلق رکھتی ہےاور پاکستان میں احمدیوں سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ اداروں کو اس بات کاجائزہ لینا چاہیے اور احمدیوں سے متعلق قوانین اور ان کے استعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔