اللہ تعالیٰ ہمارے لیے جس طرح پہلے کافی تھا وہ آج بھی ہمارے لیے کافی اور آئندہ بھی انشاء اللہ کافی ہو گا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍ جنوری ۲۰۰۹ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ آپؑ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے لئے کافی ہوتے ہوئے آپؐ کوہمیشہ دشمنوں سے بچاتا رہا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس سچی غلامی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی دشمنوں نے مقدموں کی صورت میں یا اور مختلف حربے استعمال کرکے جو حملے کئے ان سے ہمیشہ آپؑ کو بچایا۔ حکومت کے پاس مخالفین نے شکایات کیں۔ یہاں تک کہ افسران اور پولیس والے آپ کے گھر کی تلاشی تک لینے آ گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے کافی ہونے کا ثبوت دیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو فرمایا کہ تم اپنے کام کئے جاؤ کفار کو اپنی کوششیں اور استہزا کرنے دو۔ ظلم کر رہے ہیں کرنے دو اور فرمایا کہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِیْنَ (الحجر: ۹۶) یقینا ہم استہزا کرنے والوں کے لئے تجھے بہت کافی ہیں۔ اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح دشمنان اسلام سے اللہ تعالیٰ نے بدلہ لیا اور ان کے مقابلہ میں کافی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے جو آنحضرتﷺ کو یہ فرمایا ہے کہ آپ اعلان کریں کہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران: ۳۲) کہ میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا تو آپ کی پیروی کا سب سے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ مقام عطا فرمایا جو تمام دنیا کو اس زمانہ میں دین واحد پر جمع کرنے کے لئے آپ کو ملا اور یہ سب آنحضرتﷺ کی کامل پیروی اور محبت تھی جس سے خداتعالیٰ نے بھی آپ سے محبت کی اور اس وجہ سے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض آیات یا ان کے کچھ حصے الہاماً فرمائے۔ پہلے بھی مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ(الحجر:۹۶) بھی آپ کے الہامات میں سے ایک الہام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار موقعوں پر آپ کی تائید میں سامان فرما کر دشمن کو ہمیشہ شرمندہ کیا اور دشمنوں کو کئی موقعوں پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب عزت کے معیار بدل جائیں یا ڈھٹائی کی انتہا ہو جائے تو پھر احساس مر جاتے ہیں۔ پھر آدمی مانتا نہیں کہ مجھے شرمندگی ہوئی۔ ایسے مواقع بھی آئے کہ ایسے بڑے بڑے جبہ پوش جواپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتے تھے۔ بڑا معززسمجھتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں آئے تو عدالتوں میں ان کو بڑی سبکی اٹھانی پڑی۔
مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک واقعہ ہے کہ جب اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو (عدالت میں ) کرسی پر بیٹھے دیکھ کر کرسی کا مطالبہ کیا تو جج نے ڈانٹ دیا۔ اور پھر وہاں سے نکل کر جب باہر عدالت کے دروازے پر کرسی پر بیٹھنے لگا تو وہاں بھی چپڑاسی نے یا چوکیدار نے کرسی پر بیٹھنے نہیں دیا۔ اگر انسان کو صرف احساس ہو تو اس طرح کی سبکیوں کے واقعات ہوتے ہیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہوئے۔ اس وقت تو بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔
آج بھی مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ مان کر جو اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ تو حاصل کر سکتے ہیں اور نہ کر سکے اور نہ کر سکیں گے انشاء اللہ لیکن ہم آپ کے سچے ہونے اور آنحضرتﷺ کے غلام صادق ہونے کے ثبوت کے نظارے ہر روز دیکھتے ہیں۔ پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کے ہر موقع پر کافی ہونے کا اظہار، جس کے نظارے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دکھاتا ہے اور اس سے ایمان بڑھتا ہے اور یہ نظارے جو ہم دیکھتے ہیں تو مَیں یہ کہوں گا کہ ہر احمدی کو اس پر غور کرتے ہوئے اپنے ایمان میں ترقی کرنی چاہئے صرف سرسری طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے اس کے اُن بندوں میں شمار ہونے کی دعا کرنی چاہئے جن کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ کافی ہو جاتا ہے اور یہ صرف اس صورت میں ہو گا جب ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے آنحضرتﷺ کی حقیقی پیروی کرنے والے اور آپ کے عاشق صادق کے ساتھ تعلق میں بڑھنے والے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ہر روز ایک نئی شان سے پورا ہوتا دیکھتے ہیں۔ آج ہم ہی ہیں جو آنحضرتﷺ سے سچا، حقیقی اور عاشقانہ تعلق رکھنے والے ہیں۔ پس ہمارے مخالف اور ہمارے دشمن ہم پر جھوٹے الزام لگانے اور استہزا کرنے اور بدنام کرنے کے لئے جتنا بھی زور لگا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جس طرح پہلے کافی تھا وہ آج بھی ہمارے لئے کافی اور آئندہ بھی انشاءاللہ کافی ہو گا۔
یہ علمائے سُوء اور ان کے پیچھے چلنے والے بلکہ پاکستان میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگ جو آج کل انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کو اپنے زعم میں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یا تضحیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا ایک حالیہ واقعہ سن لیں۔ ہمارے احمدیوں پر کچھ عرصہ ہوا ایک کیس ننکانہ میں بنا تھا اور کیس یہ تھا کہ مولویوں نے کوئی اشتہار لگایا تھاجس کے بارہ میں کہا گیا کہ کسی احمدی نے اس کو دیوار سے پھاڑ دیا یا کچھ احمدیوں نے پھاڑ دیا۔ حالانکہ قطعاً بے بنیاد الزام تھا اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کو سامنے بھی گالیاں دی جائیں تب بھی صبر کرتے ہیں۔ اتنی زیادہ صبر کی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے ہمیں کی گئی ہے اور صبر کرنے کے لئے کہاگیا ہے کہ ہم نے انتقام لینے کی نہ کوشش کی اور نہ بدلہ لینے کی۔ اگر ان کو عقل ہو تو نظر آئے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مختلف موقعوں پر اپنے مسیح کی جماعت کو تنگ کرنے والوں سے انتقام لیتا ہے۔ بہرحال اس الزام پہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ چھوٹی عدالت میں پیش ہوا۔ وہاں ضمانت نہیں ہوئی۔ ردّ ہو گیا۔ پھر ہائیکورٹ میں پیش ہوا۔ ہائیکورٹ کے جج صاحب رانا زاہد محمود صاحب ہیں۔ انہوں نے اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لئے جو فیصلہ دیا وہ عجیب ظالمانہ فیصلہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایسے ملزم عدالتوں سے دادرسی کا استحقاق نہیں رکھتے جو پاک ہستیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک جو سب سے مقدس ہستی ہے وہ تو آنحضرتﷺ کی ذات ہے۔ اور ایک احمدی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرتﷺ کی شان میں گستاخی کر ے۔ ہم تو آپ کے حقیقی غلام کے غلام ہیں۔ اور نہ ہی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کی شان میں کبھی گستاخی کریں۔ ان جج صاحب کے نزدیک آج کل کے بکاؤ مولوی اگر مقدس ہستیاں ہیں تو ان کے لئے گوہم کہتے کچھ نہیں لیکن ان کی شان میں تعریف بھی نہیں کر سکتے، یہ ان ججوں کا جو ابن الوقت لوگ ہیں مقام ہے کہ ان کی شان میں تعریفیں کریں۔ ہم تو ہمیشہ آنحضرتﷺ اور تمام مقدس لوگوں کی شان کو بڑھانے والے، تعریف کرنے والے اور ان کا مقام پہچاننے والے ہیں۔ تو یہ ہے آج کل کی عدلیہ بلکہ آج کل کیا ایک عرصہ سے پاکستان کی عدلیہ کا یہ حال ہے۔ ان سے تو ہمیں کوئی توقع نہیں ہے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک رکھنے والے لوگ ہیں۔ اسی سے مانگتے ہیں اور اسی کے آگے جھکتے ہیں اور یہی ہمارے لئے کافی ہے۔ لیکن یہ لوگ ضرور اس پکڑ کے نیچے آئیں گے اور آ بھی رہے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کو جھوٹا کہے گا۔