سچے نبی کا انکار کرنے والے کامیاب نہیں ہوسکتے
سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ(یونس: ۱۸) پس جو اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا۔ یقیناً مجرم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دونوں طر ح کے مجرم کامیاب نہیں ہوں گے۔ نہ وہ کامیاب ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتے ہوئے یہ کہے کہ مَیں خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ نہ وہ کامیاب ہوسکتے ہیں جو ایک سچے نبی کا انکار کرنے والے ہوں۔ پس اس سے بھی ظاہر ہے کہ دو قسم کے لوگ ہیں جو سزا سے نہیں بچ سکتے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ایک وہ جو غلط دعویٰ کرکے اسے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کریں اور دوسرے وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے والے کا مقابلہ کریں اور یہ ایسی بات ہے جو ہر عقل رکھنے والا سمجھ سکتا ہے۔ تبھی تو فرعون کی قوم کے ایک آدمی نے کہا تھا کہ وَاِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗۚ وَاِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ(المومن: ۲۹) کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اگر وہ سچا ہے تو اس کی کی ہوئی بعض انذاری پیشگوئیاں تمہارے متعلق پوری ہو جائیں گی۔
پس ان مسلمانوں کے لئے بھی جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح مو عود کو نہیں مانتے غور کرنے کا مقام ہے۔ مسلمانوں کے پاس تو ایک ایسی جامع اور محفوظ کتاب ہے جس کی حفاظت کا خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایاہے اور غیر بھی باوجود کوشش کے اس میں کسی قسم کی تحریف تلاش نہیں کر سکے۔ چودہ سو سال سے وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جمع کرکے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ یہ قصے کہانیاں نہیں، تمہاری حالت بھی پہلی قوموں جیسی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس: 18) کہ مجرم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے، تسلی دلا دی ہے کہ بےشک جھوٹے دعویدار ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اور کامیابی کا معیار کیا ہے؟ یہ ہے کہ اپنی تعلیم اور بعثت کے مقصد کو وہ دنیا میں پھیلا نہیں سکتے جس طرح خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے پھیلاتے ہیں۔ بے شک ان کی چھوٹی سی جماعت بھی بن سکتی ہے۔ ان کے پاس دولت بھی جمع ہو سکتی ہے۔ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن جو خداتعالیٰ کی طرف سے دعویدار ہو کر آتا ہے وہ ایک روحانی مقصد کو لے کر آتا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ جنوری ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍ فروری ۲۰۰۹ء)