خدا تعالیٰ نے جس کو مسیح و مہدی بنانا مناسب سمجھا، بنا دیا
ایک عیسائی عورت نے بھی جرمنی میں مجھ سے ایک سوال کیا کہ دُور دراز پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک شخص کو کیوں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا دیا، یہ کس طرح ہو گیا، جس کا پیغام بھی باہر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ چھوٹی سی جگہ ہے، اس زمانے میں کوئی ذرائع نہیں تھے۔ تو مَیں نے اس سے یہی کہا تھا کہ جواب تمہارے سوال میں ہی آ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی رحمت کا خزانہ کھولا تو اس پیغام کے پہنچانے کے لئے انتظام بھی کر دیا۔ آج جرمنی میں بھی تم یہ پیغام سن رہی ہو۔ تمہیں بھی یہ پیغام پہنچ گیا ہے۔ دنیا کے ۱۸۹؍ ممالک میں یہ پیغام پہنچ گیا ہے۔ تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ مقام بخشا گیا جو غالب ہے، جو سب عزتوں کا مالک ہے، جو اپنے پیاروں کو غلبہ عطا فرماتا ہے بلکہ اس سے منسلک مومنین کی جماعت سے بھی وعدہ ہے کہ غلبہ عطا فرمائے گا۔ عرب کہتے ہیں کہ عرب سے باہر مسیح و مہدی کس طرح ہو سکتا ہے؟باقی دنیا میں بسنے والے مسلمان کہتے ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ پنجابی کس طرح مسیح و مہدی ہو سکتا ہے؟ حدیثوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ یہ نشانیاں پوری نہیں ہوئیں، ظاہری معنوں کو دیکھتے ہیں۔ اس پیغام پر غور نہیں کرتے جو احادیث میں بیان ہوا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کرکے فرمایا کہ پہلے انبیاء سے بھی یہ سوال ہوا تھا۔ آنحضرتﷺ سے بھی یہی سوال ہوا اور ظاہر ہے جب آپؐ کے عاشق صادق نے مبعوث ہونا تھا، تب بھی یہی سوال ہونا تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں عزیز ہوں، مَیں وہاب ہوں۔ تم لوگ جو قرآن کریم پڑھنے والے ہو اس بات پر غور کرو۔ رحمت کے خزانوں کا بھی مَیں مالک ہوں، تم نہیں۔ جس کو مسیح و مہدی بنانے کے لئے مَیں نے مناسب سمجھا، بنا دیا۔ قرآن میں بھی جیسا کہ مَیں نے کہا بیان فرما دیا کہ جب آئندہ کبھی موقع آئے تو اس پر غور کرو تاکہ تمہیں ٹھوکر نہ لگے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے کہ پیغام کو سمجھنے والے بنیں۔ یہ بات بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی کہ جس پر اپنی رحمت اتارتا ہوں، جسے انعام سے نوازتا ہوں، پھر اس کی مدد بھی کرتا ہوں۔ اور مدد کرنے اور فتح دینے کا اعلان بھی صفت عزیز کے تحت بڑے زور دار طریق سے فرمایا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَْغلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ۔ (المجادلۃ:۲۲)
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹؍اکتوبر ۲۰۰۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍نومبر ۲۰۰۷ء)