ایشیا (رپورٹس)

شاہدرہ ٹاؤن، لاہور کی مسجد کے محراب اور مناروں کو شہید کردیا گیا۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون

(ابو سدید)

لاہور ہائیکورٹ کے جماعتی مساجد کی حفاظت کے حالیہ حکم کے باوجود پولیس نے جماعت احمدیہ شاہدرہ ٹاؤن، لاہور کی مسجد کی بے حرمتی کرتے ہوئے اس کی محراب اور مناروں کو توڑ کر شہید کردیا۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو جان بوجھ کر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پولیس کا فرض ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو اپنےعقیدے پر عمل کرنے کےحق کی حفاظت کرے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

لاہور ہائیکورٹ کے حالیہ واضح حکم کےمطابق جماعت احمدیہ کی وہ مساجد جو ۱۹۸۴ء کے آرڈیننس سے پہلے کی تعمیر شدہ ہیں ان کو مسمار یا ان کے تعمیراتی ڈیزائن میں ردّو بدل نہیں کیا جاسکتا۔

پولیس انتظامیہ کو لاہور ہائیکورٹ کا یہ حکمنامہ دکھائے جانے کے باوجود پولیس نے مورخہ ۸؍ستمبر ۲۰۲۳ء کو صبح ساڑھے گیارہ بجے قبل از نماز جمعہ جماعت احمدیہ شاہدرہ ٹاؤن، لاہور کی مسجد کی بے حرمتی کرتے ہوئے اس کے محراب کو توڑ کر شہید کردیا۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون۔ اور جب اس تکلیف دہ کارروائی  پر بھی تسلی نہ ہوئی توکچھ دیر بعد مسجد کے منار بھی شہید کردیے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون

تفصیلات کے مطابق مورخہ ۸؍ستمبر ۲۰۲۳ء کی صبح پندرہ سے بیس پولیس اہلکار جماعت احمدیہ شاہدرہ ٹاؤن کی مسجد کے پاس آئے اور احمدیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ خود اپنی مسجد کی محراب کو توڑ کر منہدم کردیں۔ مقامی احمدی احباب نے پولیس کو لاہور ہائیکورٹ کے حکمنامے کے بارے میں آگاہ کیا اور واضح کیا کہ یہ مسجد ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تعمیر شدہ ہے۔ لیکن انہوں نے احمدیوں کی ایک نہ سنی اور ہتھوڑوں اور دیگر اوزار کے ساتھ پہلے محراب کو شہید کیا پھر کچھ دیر بعد مناروں کو بھی توڑ کر شہید کردیا۔ پولیس اہلکاروں نے پہلے مسجد والی گلی کو دونوں اطراف سے بند کیا اورپھر مزدوروں کو اپنی نگرانی میں محراب اور منارے توڑنے کا حکم دیا۔ پولیس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ عدالتی حکم کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی قبیح کارروائی سرانجام دے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا مذمتی بیان

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے مورخہ ۸؍ستمبر ۲۰۲۳ء کو X یعنی ٹویٹر پر جاری کیے جانے والے اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے: آج ۸؍ستمبر کی صبح کے وقت شاہدرہ ٹاؤن میں موجود جماعت احمدیہ کی مسجد کے ایک حصہ اور مناروں کی پولیس کی طرف سے توڑ پھوڑ کرنا لاہور ہائیکورٹ کے حالیہ حکم کی بےشرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ خلاف ورزی کرنے کے برابر ہے۔ یہ مذکورہ حکم لاہور ہائیکورٹ نے جماعت احمدیہ کی مساجد کی حفاظت کے حوالے سے جاری کیا ہے۔

 اس افسوسناک واقعہ کے ذریعہ ایک بار پھر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو جان بوجھ کر اور منظم طریق پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے  سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پولیس کا فرض ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے حق کی حفاظت کرے۔ صوبائی حکومت کو مجرموں کو پکڑ کر جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ مسجد کے ہونے والے نقصان کی مرمت کرانی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔

نیا دور کی کوریج

نیا دور میڈیا،  ۲۰۱۷ء میں قائم کیا جانے والا ایک ویب چینل ہے جو بیک وقت اردو اور انگریزی میں خبریں، تجزیے، فیچر، بلاگ، ویڈیوز اور تفصیلی جائزے پیش کرتا ہے۔اس نے مورخہ ۸؍ستمبر ۲۰۲۳ء کو سانحہ شاہدرہ ٹاؤن کی تفصیل خبر شائع کی ہے۔ جس کی سرخی اس طرح ہے:

لاہور میں جماعت احمدیہ کی ۱۹۴۷ء سےقبل تعمیر کی گئی عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ

نیا دور۔ 8Sep, 2023

06:02pm

جماعت احمدیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہور کے شاہدرہ ٹاؤن میں پولیس نے اپنی نگرانی میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے محراب کو مسمار کروایا ہے۔ ایک پیغام اور اس کے ساتھ موجود ویڈیوز میں احمدیہ کمیونٹی کا کہنا تھا کہ تقریباً 15 سے 20 پولیس اہلکار احمدیوں کی عبادت گاہ پر پہنچے اور کمیونٹی کے اراکین سے رضاکارانہ طور پر محراب کو گرانے کا مطالبہ کیا۔

کمیونٹی ممبران نے محراب کو گرانے سے انکار کیا اور لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیا جس میں ۱۹۸۴ء کے قانون کے نافذ ہونے سے پہلے تعمیر کیے گئے کسی بھی ڈھانچے کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ مزید بتایا گیا کہ زیر بحث عمارت اور ڈھانچہ ۱۹۴۷ء سے پہلے تعمیر کیے گئے تھے۔ عدالت کے حکم سے آگاہ کیے جانے کے باوجود پولیس نے عمارت کا محاصرہ کر لیا اور نامعلوم افراد کو تحفظ فراہم کیا جنہوں نے عمارت کی محراب کو توڑا۔ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ ایک سے دو لوگوں نے محراب کو گرایا جبکہ دیگر نے سیمنٹ تیار کیا۔

لاہور میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے محراب اور مینار کی مسماری کاواقعہ احمدیہ ہال کراچی کے چند دن پہلے کے واقعہ سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ لاہور میں پولیس اپنی نگرانی میں احمدیوں کی عبادتگاہ کے محراب تڑوا رہی ہےجبکہ کراچی میں پولیس نے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں احمدیہ ہال کراچی کی مسماری کو روک نہ سکی تاہم اس نے تین شر پسندوں کو موقع سے پکڑا اور اس کا مقدمہ بھی درج کیا۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں، ایک تاریخی فیصلے میں، لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں میں مساجد سے مشابہ تعمیر ات (محراب اور مینار وغیرہ) جو کہ توہین مذہب کے قانون کے نفاذ سے قبل تعمیر کی گئی ہیں، ان کو زبردستی تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کو ’’جاری جرم‘‘ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔عدالت نے یہ فیصلہ اس وقت جاری کیا جب اس نے وزیر آباد میں ایک صدی پرانی احمدیوں کی عبادت گاہ کے نگرانوں کی جانب سے قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے شہری عرفان الیاس کی شکایت پر نومبر ۲۰۲۲ء میں وزیر آباد سٹی پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کے بعد ضمانت کی درخواست کی تھی۔

فیصلے کے مطابق، ایک ایف آئی آر توہین رسالت کے قانون کے تحت درج کی گئی تھی، جس میں دفعہ 298-B اور 298-C کا اطلاق احمدیہ کمیونٹی کی جانب سے موتی بازار، وزیر آباد میں مینار کے ساتھ تعمیر کردہ عبادت گاہ پر کیا گیا تھا۔ چونکہ مینار کو ایک تعمیراتی خصوصیت اور اسلام کے لیے مذہبی علامت سمجھا جاتا ہے، اس لیے ایف آئی آر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جائیداد بنانے والوں نے توہین رسالت کے قانون کی متعلقہ شقوں کی خلاف ورزی کی ہے اور ’’مسلم آبادی کے مذہبی جذبات کی توہین کی ہے جو کہ اہل علاقہ کے لیے درد اور دائمی اذیت کا باعث ہے‘‘۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button