خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 25؍اگست 2023ء

گناہ سے سچی توبہ کرنے و الا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں (الحدیث)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو استغفاراور توبہ کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے

اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ اور استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارا اپنی اصلاح کا عہد کرنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا

’’روحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے

دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں۔ جب قبل از وقتِ بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہتا ہے، استغفار کرتا رہتا ہے تو پھر خداوند رحیم و کریم سے وہ بلا ٹل جاتی ہے لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی

آج کل دنیا میں جنگی حالات ہیں۔ ان حالات میں بھی دنیا کو محفوظ رکھنے کے لیے، اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم احمدیوں کو بھی بہت استغفار کرنی چاہیے

’’آفات اور بلیّات چیونٹیوں کی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں بجز اس کے کہ سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہوجاؤ۔‘‘

’’جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بے ادب دہریہ ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُرمعارف ارشادات کی روشنی میں استغفار اور توبہ کی حقیقت و افادیت پر بصیرت افروز بیان

مکرمہ آنسہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ، مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ آف سیالکوٹ، مکرمہ مسرت جہاں صاحبہ آف آسٹریلیا اور مکرم ناصر احمد قریشی صاحب آف امریکہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 25؍اگست 2023ء بمطابق 25؍ظہور 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی استغفار اور توبہ قبول کرنے والا ہے

بشرطیکہ وہ سچی توبہ ہو، صرف منہ سے الفاظ ہی نہ ادا ہو رہے ہوں۔ قرآن کریم میں اس بات کا مختلف جگہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ سچی توبہ کرنے والوں کو مال و اولاد سے نوازتا ہے (نوح:13)، عذابِ الٰہی سے بچنے کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ استغفار کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت جذب کرنے والا بنتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے استغفار کرنے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا (النساء:65) وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنےوالا اور بار بار رحم کرنے والا پاتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ حقیقی استغفار ہو، سچی توبہ ہو۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ

گناہ سے سچی توبہ کرنےو الا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔

جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے اور بدی کے نتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ (البقرۃ:223) اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کر تا ہے۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! توبہ کی علامت کیا ہے۔ کس طرح پتہ لگے گا صحیح توبہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ندامت اور پشیمانی علامتِ توبہ ہے۔

(کنز العمال جزء 4 صفحہ 261 کتاب التوبۃ حدیث 10428 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

پس حقیقی توبہ کرنے والا حقیقی پشیمانی اور ندامت دکھا کر جہاں گناہوں سے پاک ہوتا ہے وہاں اسے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملتی ہے۔ بار بار اللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ پاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ

سچی توبہ کرنے کی شرائط

کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی شرط یہ فرمائی کہ خیالاتِ فاسدہ اور تصوراتِ بد کو چھوڑ دے۔ پس جو خیالات بدلذات کی وجہ سمجھے جا سکتے ہیں ان کو مکمل طور پر ترک کرے۔ یہ بہت بڑا جہاد ہے جو انسان کو کرنا چاہیے تبھی توبہ کی طرف قدم اٹھے گا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ حقیقی ندامت اور پشیمانی ظاہر کرے۔ یہ سوچے کہ یہ لذات اور دنیاوی حظ عارضی چیزیں ہیں اور انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ ہر روز اس میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ تو پھر اس کے ساتھ کیوں انسان چمٹا رہے؟ پس خوش قسمت ہے وہ جو اس حقیقت کو سمجھ لے اور توبہ کرے، حقیقی پشیمانی کا اظہار کرے۔ یہ حقیقی پشیمانی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اور تیسری شرط یہ ہے کہ پکا ارادہ کرے کہ ان برائیوں کے قریب بھی نہیں جائے گا۔ اور یہیں رک نہیں جانا کہ برائیوں کے قریب نہ جانے کا عہد کر لیا اور بس کافی ہو گیا بلکہ اخلاق حسنہ اور پاکیزہ افعال اس کی جگہ لے لیں گے۔(ماخوذ ازملفوظات جلد اوّل صفحہ 138-139 ایڈیشن 1984ء)یہ ہے حقیقی توبہ اور یہ ہے حقیقی پشیمانی اور یہ وہ حالت ہے جب یہ حاصل ہو جائے تو خدا تعالیٰ پھر اپنے ایسے بندوں سے محبت کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام استغفار اور توبہ کی طرف ہمیں بار بار توجہ دلاتے ہیں۔

انسان غلطیاں کرتا ہے اور جب یہ غلطیاں بار بار دہرائی جائیں تو پھر ایک کے بعد دوسرے گناہ میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہیں۔ اس لیے ہر وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے دلوں کو ہمیں پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہمیشہ اس فکر میں رہنا چاہیے کہ کبھی حقوق اللہ اور حقوق العباد ضائع نہ ہوں۔

جیساکہ میں نے کہا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو استغفاراور توبہ کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے۔

آپؑ کو اتنی فکر تھی کہ کوئی موقع ایسا نہیں آیا جب آپؑ نے جماعت کو اس طرف توجہ نہ دلائی ہو۔ اپنی مجالس میں اپنی تحریرات میں بار بار توجہ دلائی۔ پس ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام اور ارشادات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بیان کردہ ارشادات کو ہمیشہ سامنے رکھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ حق بیعت ادا کرنے والے بھی بنیں۔

اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ اور استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارا اپنی اصلاح کا عہد کرنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت جگہ توبہ کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں۔

استغفار کا فائدہ کیا ہے؟

یہ بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ (ہود:4)یادرکھو کہ دوچیزیں اس امّت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کوعملی طور پر دکھانے کے لئے۔ قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا۔ ’’صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اٹھانے او رپھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔‘‘ ویٹ لفٹنگ کرنے والے جو ہیں، ویٹ اٹھانے والے ہیں، ڈمبل اٹھانے والے ہیں، مختلف قسم کی ورزشیں کرنے والے ہیں، جس طرح ان کے ورزش کرنے سے جسمانی طاقت بڑھتی ہے ’’اسی طرح پر

روحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔‘‘

طاقت حاصل کرنی ہے تو استغفار کرو۔ ’’غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے جو خداتعالیٰ سے روکتے ہیں۔ پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ان پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔ یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں۔ ایک سَمِّی مادہ ہے‘‘ یعنی زہریلا مادہ ’’جس کا مؤکل شیطان ہے اور دوسراتریاقی مادہ ہے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمی قوت غالب آجاتی ہے۔‘‘ زہریلا مادہ غالب آ جاتا ہے۔ ‘‘لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہہ نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنی ہیں۔ یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آ جاوے۔‘‘ حقیقی استغفار یہ ہے۔ ’’غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو۔ اوّل رسول کی اطاعت کرو۔ دوسرے ہر وقت خدا سے مدد چاہو۔ ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چاہو۔ جب قوت مل گئی تو تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ (ہود:4) یعنی خدا کی طرف رجوع کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 67-68 ایڈیشن 1984ء)اللہ کی مدد چاہنے کے لیے بھی اس سے دعا کرنی پڑے گی۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ظاہر ہے کہ انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کے صدہا احکام کا اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔‘‘ انسان کمزور ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیے ہیں۔ ’’پس اس کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام کے ادا کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے۔‘‘ قدرتی بات ہے اتنے احکام ہیں ہو سکتا ہے کہ سارے احکام نہ ادا کر سکے۔ ’’اور کبھی نفسِ امارہ کی بعض خواہشیں اس پرغالب آجاتی ہیں۔ پس وہ اپنی کمزور فطرت کی رو سے حق رکھتا ہے کہ کسی لغزش کے وقت اگروہ توبہ اور استغفار کرے تو خدا کی رحمت اس کو ہلاک ہونے سے بچالے۔‘‘ حقیقی توبہ ہو، یہ کمزوری جو انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے اس کی وجہ سے اس کا حق بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کی حقیقی توبہ کو قبول کرے اور اسے بچا لے۔ ’’اس لئے یہ یقینی امر ہے کہ اگر خدا توبہ قبول کرنے والا نہ ہوتا تو انسان پر یہ بوجھ صدہا احکام کا ہرگز نہ ڈالا جاتا۔ اِس سے بلاشبہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا توّاب اور غفور ہے اور توبہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگروہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہرگز نہیں کرے گا۔‘‘ پس یہ شرط ہے ایسی توبہ ہونی چاہیے۔ ’’پس جب انسان اس صدق اور عزمِ محکم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے وہ اس گناہ کی سزا معاف کردیتا ہے اور

یہ خدا کی اعلیٰ صفات میں سے ہے کہ توبہ قبول کرکے ہلاکت سے بچا لیتا ہے اور اگر انسان کو توبہ قبول کرنے کی امید نہ ہوتو پھر وہ گناہ سے باز نہیں آئے گا۔‘‘

اگر امید ہی نہیں کہ توبہ قبول ہونی ہے تو پھر وہ گناہ کرتا چلا جائے گا۔ بہت سارے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا فائدہ جب انجام ہی ایسا ہونا ہے؟ نہیں۔ انجام کے وقت سے پہلے اگر توبہ کر لو تو اللہ تعالیٰ بچا لیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’عیسائی مذہب بھی توبہ قبول کرنے کا قائل ہے مگر اس شرط سے کہ توبہ قبول کرنے والا عیسائی ہو لیکن

اسلام میں توبہ کے لئے کسی مذہب کی شرط نہیں ہے۔ ہرایک مذہب کی پابندی کے ساتھ توبہ قبول ہوسکتی ہے اورصرف وہ گناہ باقی رہ جاتا ہے جو کوئی شخص خدا کی کتاب اور خدا کے رسول سے منکر رہے

اور یہ بالکل غیرممکن ہے کہ انسان محض اپنے عمل سے نجات پاسکے بلکہ یہ خدا کا احسان ہے کہ کسی کی وہ توبہ قبول کرتا ہے اور کسی کو اپنے فضل سے ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ وہ گناہ کرنے سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 189-190)

ایک شخص آپؑ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ اس نے پوچھا کہ

مَیں کیا وظیفہ پڑھا کروں؟

آپؑ نے فرمایا :

’’استغفار بہت پڑھا کرو۔

انسان کی دو ہی حالتیں ہیں۔ یا تو وہ گناہ نہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچا لے۔ سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے۔‘‘ کہ نہ وہ گناہ کرے اور نہ ہی گناہ کے بد انجام ظاہر ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے اور وہ کبھی دوبارہ گناہ نہ کرے۔ یہ سامنے رکھتے ہوئے استغفار پڑھنی چاہیے۔ ’’ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہئے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچائے مگر

استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل سے چاہئے۔

نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو۔ یہ ضروری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 320 ایڈیشن 1984ء)

اب منہ سے صرف استغفار کر دینا یا لکھ دینا کہ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ۔ اب آئندہ غلطیاں نہیں ہوں گی۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ جب تک یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ ہو کہ انسان ان غلطیوں کی طرف دوبارہ کبھی نہیں جائے گا جو سرزد ہو چکی ہیں۔

استغفار کے معنی

سمجھاتے ہوئے ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا۔ استغفار کے یہی معنی ہیں کہ ظاہر میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور گناہوں کے کرنے والی قوت ظہور میں نہ آوے۔

انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے۔

اور عوام کے واسطے استغفار کے دوسرے معنی بھی لیے جاویں گے کہ جو جرائم اور گناہ ہو گئے ہیں ان کے بدنتائج سے خدا بچائے رکھے اور ان گناہوں کو معاف کر دے اور ساتھ ہی آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے۔ فرمایا بہرحال یہ انسان کے لیے لازمی امر ہے وہ استغفار میں ہمیشہ مشغول رہے۔ فرمایا یہ جو بلائیں نازل ہوتی ہیں قحط کی صورت میں یا کسی اَور صورت میں ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لوگ استغفار میں مشغول ہو جائیں۔

آج کل دنیا میں جنگی حالات ہیں۔ ان حالات میں بھی دنیا کو محفوظ رکھنے کے لیے، اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم احمدیوں کو بھی بہت استغفار کرنی چاہیے۔

فرمایا مگر استغفار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو اَسْتَغْفِرُاللّٰہ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہ کہتے رہیں۔ اصل میں غیر ملک کی زبان کے سبب لوگوں سے حقیقت چھپی رہی ہے۔ عرب کے لوگ تو ان باتوں کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے ملک میں غیر زبان کی وجہ سے بہت سی حقیقتیں مخفی رہی ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا۔ سو تسبیح یا ہزار تسبیح پڑھی مگر جو استغفار کا مطلب اور معنی پوچھو تو بس کچھ نہیں۔ ہکا بکا رہ جائیں گے۔ انسان کو چاہیے کہ حقیقی طور پردل ہی دل میں معافی مانگتا رہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں ان کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے کہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق دے اور معصیت سے بچائے رکھے۔ فرمایا خوب یاد رکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا۔ اپنی زبان میں بھی استغفار ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے۔ کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ۔ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ کہتا پھرے اور دل کو خبر تک نہ ہو۔ یاد رکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے۔ اپنی زبان میں ہی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنی چاہئیں اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے۔ زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے۔ اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے۔ بغیر دل کے صرف زبانی دعائیں عبث ہیں۔ فضول ہیں۔ ہاں

دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں۔ جب قبل از وقتِ بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہتا ہے، استغفار کرتا رہتا ہے تو پھر خداوند رحیم و کریم سے وہ بلا ٹل جاتی ہے لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی۔

بلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہیے اور بہت استغفار کرنا چاہیے۔ اس طرح سے خدا بلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے۔ اگر کوئی شخص بیعت کر کے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا۔ اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں۔ اگر بیعت کے بعد بھی وہی بدخلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ؟

چاہیے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اور اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا اور یہی حقیقی استغفار کا نتیجہ ہونا چاہیے۔

خوب یاد رکھو کہ صاف ہو کر عمل کرو گے تو دوسروں پر تمہارا ضرور رعب پڑے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بڑا رعب تھا۔ ایک دفعہ کافروں کو شک پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کریں گے تو وہ سب کافر مل کر آئے اور عرض کی کہ حضور بددعا نہ کریں۔ سچے آدمی کا ضرور رعب ہوتا ہے۔ چاہیے کہ بالکل صاف ہو کر عمل کیا جاوے اور خدا کے لیے کیا جاوے تب ضرور تمہارا دوسروں پر بھی اثر اور رعب پڑے گا۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد9صفحہ 372تا 374 ایڈیشن 1984ء)

پھر ایک موقع پر فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ سے ڈرنا اور متقی بننا بڑی چیز ہے۔ خدا اس کے ذریعہ سے ہزار آفات سے بچا لیتا ہے بجز اس کے کہ خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے شامل ہو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بلا نہیں پکڑے گی اور کسی کو بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ آفات تو ناگہانی طور سے آ جاتے ہیں۔ کسی کو کیا معلوم کہ رات کو کیا ہوگا۔ لکھا ہے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔پہلے بہت روئے پھر لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔ یَا عِبَادَ اللّٰہ خداسے ڈرو۔‘‘ اے اللہ کے بندو! خدا سے ڈرو۔

’’آفات اور بلیّات چیونٹیوں کی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں بجز اس کے کہ سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہوجاؤ۔‘‘

پھر فرمایا کہ استغفار کے معنی یہ ہیں۔ مزید وضاحت کررہے ہیں کہ ’’…خدا تعالیٰ سے اپنے گذشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا اور آئندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا۔ استغفار انبیاء بھی کیاکرتے تھے اورعوام بھی۔ بعض نادان پادریوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار پر اعتراض کیا ہے۔‘‘ یہ جواب آپؑ دے رہے ہیں کہ کہتے ہیں جی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے وہ گناہگار تھے۔ نعوذ باللہ۔ فرمایا ’’اور لکھا ہے کہ ان کے استغفار کرنے سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گنہگار ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ استغفار توایک اعلیٰ صفت ہے۔ انسان فطرتاً ایسا بنا ہے کہ کمزوری اورضعف اس کا فطر ی تقاضا ہے۔ انبیاء اس فطرتی کمزوری اورضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ دعاکرتے ہیں کہ یا الٰہی تُوہماری ایسی حفاظت کرکہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں۔ غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو۔ اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خداکو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے نہ ولی کو اورنہ رسول کو۔ کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خداکے محتاج ہیں۔ پس اظہارِ عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اَورانبیاء کی طرح اپنی حفاظت خداتعالیٰ سے مانگا کرتے تھے۔

یہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے‘‘ عیسائی لوگ جوکہتے ہیں ناں کہ عیسیٰ علیہ السلام استغفار نہیں کرتے تھے۔ فرمایا کہ ان کا یہ خیال غلط ہے۔ ’’کہ حضرت عیسیٰؑ استغفار نہ کرتے تھے۔ یہ ان کی بیوقوفی اور بے سمجھی ہے اور یہ حضرت عیسیٰؑ پر تہمت لگاتے ہیں۔ انجیل میں غور کرنے سے صریح اورصاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جابجا اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور استغفار بھی کیا‘‘ حضرت عیسیٰؑ نے۔ فرمایا کہ ’’اچھا بھلا‘‘ یہ بتاؤ کہ ’’اِیْلِی اِیْلِی لِمَا سَبَقْتَانِیْ سے کیا مطلب؟ ابی، ابی کرکے کیوں نہ پکارا؟ عبرانی میں ایل خدا کو کہتے ہیں۔ اس کے یہی معنے ہیں کہ رحم کر اورفضل کراور مجھے ایسی بے سروسامانی میں نہ چھوڑ (یعنی میری حفاظت کر) درحقیقت مشکل تویہ ہے‘‘ فرمایا کہ ’’درحقیقت مشکل تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بوجہ اختلافِ زبان استغفار کا اصل مقصد ہی مفقود ہوگیا ہے اوران دعاؤں کو ایک جنتر منتر کی طرح سمجھ لیا ہے۔ کیا نماز اورکیا استغفار اور کیا توبہ۔ اگر کسی کو نصیحت کرو کہ استغفار پڑھا کرو تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ میں تو استغفار کی سو بار یا دو سو بار تسبیح پڑھتا ہوں مگر مطلب پوچھو توکچھ جانتے ہی نہیں۔

استغفار ایک عربی لفظ ہے اس کے معنے ہیں طلبِ مغفرت کرنا کہ یا الٰہی ہم سے پہلے جو گناہ سرزدہوچکے ہیں ان کے بد نتائج سے ہمیں بچاکیونکہ گناہ ایک زہر ہے اوراس کا اثر بھی لازمی ہے اورآئندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں۔

صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ فرمایا کہ

’’توبہ کے معنے ہیں ندامت اورپشیمانی سے ایک بدکام سے رجوع کرنا۔

توبہ کوئی براکام نہیں ہے بلکہ لکھا ہے کہ توبہ کرنے والا بندہ خداکو بہت پیاراہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام بھی توّاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے گناہوں اور افعال بد سے نادم ہوکر پشیمان ہوتا ہے اور آئندہ اس بدکام سے باز رہنے کا عہد کرتا ہے تواللہ تعالیٰ بھی اس پر رجوع کرتا ہے رحمت سے۔ خدا انسان کی توبہ سے بڑھ کر توبہ کرتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے۔ اگر انسان چل کر آتا ہے تو خداتعالیٰ دوڑ کر آتا ہے۔ یعنی اگر انسان خدا کی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہاء درجہ کا اس پر فضل کرتا ہے لیکن اگر خدا سے منہ پھیر کر بیٹھ جاوے تو خدا تعالیٰ کو کیا پروا۔‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 336تا 339 ایڈیشن 1984ء)

استغفار کی حقیقت

بیان فرماتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ ’’جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کئے ہیں۔ الحیّ اور القیوم۔ الحیّ کے معنی ہیں خود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا۔ القیوم۔ خود قائم اور دوسروں کے قیام کا اصلی باعث۔ ہر ایک چیز کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہی دونوں صفات کے طفیل سے ہے۔ پس حی ّکا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ جیساکہ اس کا مظہر سورة فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہے اور القیوم چاہتا ہے کہ اس سے سہارا طلب کیا جاوے۔ اس کو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے۔ حی ّکا لفظ عبادت کو اس لئے چاہتا ہے کہ اس نے پیدا کیا اور پھر پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا جیسے مثلاً معمار‘‘ (بلڈنگ بنانے والا میسن) ’’جس نے عمارت کو بنایا ہے اس کے مر جانے سے عمارت کو کوئی حرج نہیں ہے مگر انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ خدا سے طاقت طلب کرتے رہیں اور یہی استغفار ہے۔ اصل حقیقت تو استغفار کی یہ ہے۔ پھر اس کو وسیع کر کے ان لوگوں کے لئے کیا گیا کہ جو گناہ کرتے ہیں کہ ان کے برے نتائج سے محفوظ رکھا جاوے۔‘‘ گناہ نہیں بھی کیا تو زندہ رہنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کے لیے بھی استغفار چاہیے۔ ’’لیکن اصل یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں سے بچایا جاوے۔ پس

جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بے ادب دہریہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 217 ایڈیشن 1984ء)

پھر ایک جگہ استغفار کی حقیقت کو یوں بیان فرمایا کہ ’’گناہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے۔

استغفار کیا ہے؟ یہی کہ جو گناہ صادر ہو چکے ہیں ان کے بد ثمرات سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے اور جو ابھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوة انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے اور اندر ہی اندر وہ جل بھن کر راکھ ہو جاویں۔

یہ وقت بڑے خوف کا ہے اس لئے توبہ و استغفار میں مصروف رہو۔‘‘ یہ زمانہ جس سے ہم گزر رہے ہیں بڑے خوف کا ہے۔ توبہ استغفار میں مصروف رہو ’’اور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ اور اہل کتاب مانتے ہیں کہ صدقات و خیرات سے عذاب ٹل جاتا ہے مگر قبل از نزولِ عذاب۔ مگر جب نازل ہو جاتا ہے تو ہرگز نہیں ٹلتا۔ پس تم ابھی سے استغفار کرو اور توبہ میں لگ جاؤ تا تمہاری باری ہی نہ آوے اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 299 ایڈیشن 1984ء)

پس

آج کل دنیا کے حالات کو بھی سامنے رکھ کر ہمیں بہت استغفار کرنی چاہیے

جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے شرور اور آفات سے بچائے۔

توبہ کی حقیقت کی مزید وضاحت

آپؑ نے ایک جگہ اس طرح فرمائی۔ فرمایا کہ ’’یاد رہے کہ توبہ اور مغفرت سے انکار کرنا درحقیقت انسانی ترقیات کے دروازہ کو بند کرنا ہے‘‘ توبہ کی حقیقت سے انکار کرنے والا ترقیات کے دروازے کو بند کرتا ہے ’’کیونکہ یہ بات تو ہر ایک کے نزدیک واضح اور بدیہیات سے ہے کہ انسان کامل بالذات نہیں۔‘‘ یعنی مکمل طور پر اپنی ذات میں بالکل کامل نہیں ہے ’’بلکہ تکمیل کا محتاج ہے اور جیساکہ وہ اپنی ظاہری حالت میں پیدا ہو کر آہستہ آہستہ اپنی معلومات وسیع کرتا ہے پہلے ہی عالم فاضل پیدا نہیں ہوتا۔ اِسی طرح وہ پیدا ہو کر جب ہوش پکڑتا ہے تواخلاقی حالت اس کی نہایت گری ہوئی ہوتی ہے چنانچہ جب کوئی نو عمر بچوں کے حالات پرغور کرے تو صاف طور پر اس کو معلوم ہوگا کہ اکثر بچے اس بات پر حریص ہوتے ہیں کہ ادنیٰ ادنیٰ نزاع کے وقت دوسرے بچہ کو ماریں۔‘‘ لڑائیاں ہوتی ہیں بچوں کی۔ ’’اور اکثر ان سے بات بات میں جھوٹ بولنے اور دوسرے بچوں کو گالیاں دینے کی خصلت مترشح ہوتی ہے اور بعض کو چوری اور چغلخوری اور حسد اور بخل کی بھی عادت ہوتی ہے اور پھر جب جوانی کی مستی جوش میں آتی ہے تو نفسِ امارہ ان پر سوار ہو جاتا ہے اور اکثر ایسے نالائق اورناگفتنی کام ان سے ظہور میں آتے ہیں جوصریح فسق وفجور میں داخل ہوتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اکثر انسانوں کے لئے اوّل مرحلہ گندی زندگی کا ہے۔‘‘ ماحول معاشرہ ان کو گندا کر دیتا ہے۔ ’’اور پھر جب سعید انسان اوائل عمر کے تند سیلاب سے باہر آجاتا ہے تو پھر وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتا ہے۔‘‘ سعید فطرت انسان تو جب دیکھتا ہے کہ یہ گند دنیا میں کس طرح پھیلا ہوا ہے تو پھر اس کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے اور توجہ ہونے کے نتیجہ میں کیا ہوتا ہے کہ ’’اور سچی توبہ کرکے ناکردنی باتوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر وہ توبہ کرتا ہے ’’اور اپنے فطرت کے جامہ کو پاک کرنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ یہ عام طورپر انسانی زندگی کے سوانح ہیں جو نوع انسان کو طے کرنے پڑتے ہیں۔ پس اِس سے ظاہر ہے کہ اگر یہی بات سچ ہے کہ توبہ قبول نہیں ہوتی تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدا کا ارادہ ہی نہیں کہ کسی کو نجات دے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 192-193)

ایک موقع پر جبکہ کچھ لوگ آئے تھے، انہوں نے بیعت کی، مجلس جمی ہوئی تھی تو ان کو آپؑ نے نصیحت فرمائی۔ فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کا منشا ہے کہ انسان تو بہ نصوح کرے اور دعا کرے کہ اس سے گناہ سر زد نہ ہو۔نہ آخرت میں رسواہو نہ دنیا میں۔‘‘ ایسی توبہ ہو کہ دنیا میں بھی رسوائی نہ ہو اور مرنے کے بعد بھی رسوائی نہ ہو۔ فرمایا کہ ’’جب تک انسان سمجھ کر بات نہ کرے اور تذلل اس میں نہ ہو تو خدا تک وہ بات نہیں پہنچتی۔

صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن گزر جاویں اور خدا کی راہ میں رونا نہ آوے تو دل سخت ہو جاتا ہے

تو سختی قلب کا کفّارہ یہی ہے کہ انسان رووے۔ اس کے لئے محر کات ہوتے ہیں۔ انسان نظر ڈال کر دیکھے کہ اس نے کیا بنایا ہے اور اس کی عمر کا کیا حال ہے۔ دیگر گذشتگان پر نظر ڈالے۔‘‘ گزرے ہوئے حالات جو ہیں ان میں بہت سارے تکلیف دہ حالات بھی ہیں ان پہ نظر ڈالے۔ ’’پھر انسان کا دل لرزاں وتر ساں ہو تا ہے۔ جو شخص دعویٰ سے کہتا ہے کہ میں گناہ سے بچتا ہوں وہ جھو ٹا ہے۔ جہاں شیر ینی ہو تی ہے وہاں چیونٹیاں ضرور آتی ہیں۔ اسی طر ح نفس کے تقاضے تو ساتھ لگے ہی ہیں ان سے نجات کیا ہو سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ہاتھ نہ ہو تو انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا نہ کوئی نبی نہ ولی اور نہ ان کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ ہم سے گناہ سر زد نہیں ہو تا بلکہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کا فضل مانگتے تھے اور نبیوں کے استغفار کا مطلب یہی ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان پر رہے ورنہ اگر انسان اپنے نفس پر چھوڑا جاوے تو وہ ہر گز معصوم اور محفوظ نہیں ہو سکتا۔ اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ۔ اور دوسری دعائیں بھی استغفارکے اسی مطلب کو بتلاتی ہیں۔

عبودیت کا سِر یہی ہے کہ انسان خد اکی پناہ کے نیچے اپنے آپ کو لے آوے۔ جو خد اکی پناہ نہیں چاہتا وہ مغرو ر اور متکبر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6صفحہ 21 ایڈیشن 1984ء)

آپؑ سے ’’کسی نے پوچھا کہ

عبادت میں ذوق شوق کس طرح پیدا ہوتا ہے؟‘‘

اب بھی لوگ بہت سے سوال پوچھتے ہیں۔ ’’فرمایا اعمال صالحہ اور عبادت میں ذوق شوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس کی توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے۔‘‘ عبادت کا ذوق شوق بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ ’’اور ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے۔ جب انسان اس طرح پر مستقل مزاج ہو کر لگا رہتا ہے تو آخر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کردیتا ہے جس کے لئے اس کے دل میں تڑپ اور بیقراری ہوتی ہے۔‘‘ عبادت کے ذوق شوق کی تڑپ اور بیقراری ہے تو پھر مستقل مزاجی سے لگے رہو، آخر وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ ’’یعنی عبادت کے لئے ایک ذوق وشوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے لیکن اگر کوئی شخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے۔‘‘ کوشش ہی نہیں کی، مجاہدہ نہیں کیا ’’اور وہ یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے۔یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنت نہیں۔ اس طریق پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو آزماتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔

خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اَور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے۔ اس لئے ہر وقت اس کے فضل کے لئے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو تا کہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے۔

جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تا کہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد8صفحہ 154-155 ایڈیشن 1984ء)

پس

عبادت کا معیار حاصل کرنے کے لیے بھی استغفار بہت ضروری ہے۔

پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ

خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا گُر کیا ہے،

آپؑ نے فرمایا: ’’توبہ استغفار کرنی چاہئے‘‘ یہ گُر ہے۔ ’’بغیر توبہ استغفار کے انسان کر ہی کیا سکتا ہے۔ سب نبیوں نے یہی کہا ہے کہ اگر توبہ استغفار کرو گے تو خدا بخش دے گا۔ سو نمازیں پڑھو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور پچھلے گناہوں کی معافی مانگو اور بار بار استغفار کرو تا کہ جو قوت گناہ کی انسان کی فطرت میں ہے وہ ظہور میں نہ آوے۔ انسان کی فطرت میں دو طرح کا ملکہ پایا جاتا ہے ایک تو کسبِ خیرات اور نیک کاموں کے کرنے کی قوت ہے اور دوسرے برے کاموں کو کرنے کی قوت اور ایسی قوت کو روکے رکھنا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور یہ قوت انسان کے اندر اس طرح سے ہوتی ہے جس طرح کہ پتھر میں ایک آگ کی قوت ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9صفحہ 372 ایڈیشن 1984ء)

پھر فرمایا۔ ’’وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ(ہود:4)یاد رکھو کہ دو چیزیں اس امّت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے‘‘ استغفار کرو ’’دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے۔‘‘ توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرو۔ ’’قوت حاصل کرنے والا استغفار ہے۔ جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے‘‘ جس طرح پہلے بھی بیان ہوا تھا ’’مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ 67-68 ایڈیشن 1984ء)

فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ انسان اگر سچے دل سے اخلاص لے کر رجوع کرے تو وہ غفور رحیم ہے اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ یہ سمجھنا کہ کس کس گنہگار کو بخشے گا ،خداتعالیٰ کے حضور سخت گستاخی اور بے ادبی ہے۔ اس کی رحمت کے خزانے وسیع اور لاانتہا ہیں۔ اس کے حضور کوئی کمی نہیں۔ اس کے دروازے کسی پر بند نہیں ہوتے۔ انگریزوں کی نوکریوں کی طرح نہیں کہ اتنے تعلیم یافتہ کو کہاں سے نوکریاں ملیں۔ خدا کے حضور جس قدر پہنچیں گےسب اعلیٰ مدارج پائیں گے۔ یہ یقینی وعدہ ہے۔ وہ انسان بڑا ہی بدقسمت اور بدبخت ہے جو خدا تعالیٰ سے مایوس ہو اور اس کی نزع کا وقت غفلت کی حالت میں اس پر آ جاوے۔ بےشک اس وقت دروازہ بند ہو جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ 296-297 ایڈیشن 1984ء)جب آخر مرنے کا وقت آیا پھر کوئی نہیں۔

پھر فرمایا کہ واضح ہو کہ توبہ لغت عرب میں رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا نام بھی توّاب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ

جب انسان گناہوں سے دستبردار ہو کر صدقِ دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اس کی طرف رجوع کرتا ہے

اور یہ امر سراسر قانونِ قدرت کے مطابق ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ نے نوع انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ جب ایک انسان سچے دل سے دوسرے انسان کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کا دل بھی اس کے لیے نرم ہو جاتا ہے تو پھر عقل کیونکر اِس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے بلکہ خدا جس کی ذات نہایت کریم و رحیم واقع ہوئی ہے وہ بندے سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اِسی لیے قرآنِ شریف میں خدا تعالیٰ کا نام جیساکہ میں نے ابھی لکھا ہے توّاب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ سو بندہ کا رجوع تو پشیمانی اور ندامت، تذلل اور انکسار کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا رجوع رحمت اور مغفرت کے ساتھ۔ اگر رحمت خدا تعالیٰ کی صفات میں سے نہ ہو تو کوئی مخلصی نہیں پاسکتا۔ افسوس کہ ان لوگوں نے خد ا تعالیٰ کی صفات پر غور نہیں کیا اور تمام مدار اپنے فعل اور عمل پر رکھا ہے مگر وہ خدا جس نے بغیر کسی کے عمل کے ہزاروں نعمتیں انسان کے لیے زمین پر پیدا کیں کیا اس کا یہ خلق ہوسکتا ہے کہ انسان ضعیف البنیان جب اپنی غفلت سے متنبہ ہوکر اس کی طرف رجوع کرے اور رجوع بھی ایسا کرے کہ گویا مر جاوے اور پہلا ناپاک چولہ اپنے بدن پر سے اتار دے اور اس کی آتشِ محبت میں جل جائے تو پھر بھی خدا اس کی طرف رحمت کے ساتھ توجہ نہ کرے۔ کیا اِس کا نام خدا کا قانونِ قدرت ہے؟ نہیں۔ جو یہ کہتا ہے اس پر لعنت ہے اللہ کی۔

(ماخوذ از چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 133-134)

اپنی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ

دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں: ’’خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوا اور تدبیر پر بھروسہ کرنا حماقت ہے۔ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کر لو کہ معلوم ہو کہ گویا نئی زندگی‘‘ استغفار کی زندگی ’’ہے۔ استغفار کی کثرت کرو۔ جن لوگوں کو کثرتِ اشغالِ دنیا کے باعث کم فرصتی ہے ان کو سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔‘‘ دنیا کے کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے جو کہتے ہیں کہ بہت کم وقت ملتا ہے انہیں بہت ڈرنا چاہیے۔ ’’ملازمت پیشہ لوگوں سے اکثر فرائضِ خداوندی فوت ہو جاتے ہیں اس لئے مجبوری کی حالت میں ظہرو عصر اور مغرب و عشا کی نمازوں کا جمع کر کے پڑھ لینا جائز ہے۔‘‘ بہت مجبوری ہے تو جمع کر کے پڑھ لو لیکن اصل یہی ہے کہ اپنے وقت پر نمازیں ادا کی جائیں۔ فرمایا ’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر حکام سے نماز پڑھنے کی اجازت طلب کر لی جائے تو وہ اجازت دے دیا کرتے ہیں۔‘‘ جو نوکر پیشہ لوگ ہیں فرمایا کہ افسروں سے اگر مسلمان نہیں بھی ہیںکہو، ان سے اجازت لو تو نماز پڑھنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ ’’…ترک نماز کے لئے ایسے بیجا عذر بجز اپنے نفس کی کمزوری کے اَور کوئی نہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ظلم و زیادتی نہ کرو۔ اپنے فرائض منصبی نہایت دیانتداری سے بجا لاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 265 ایڈیشن 1984ء)

پس

استغفار اور توبہ کا تبھی فائدہ ہے جب بنیادی احکامات کو بھی سامنے رکھ کے ان کی صحیح پیروی کی جائے۔ نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدگی ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بھی صحیح ادائیگی ہو۔

آپؑ نے فرمایا کہ ’’پس اٹھو اور توبہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو اور یاد رکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا۔ لیکن جو شخص ظلم اور تعدّی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے۔ تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا۔ سو اپنے خدا کو جلد راضی کرلو…وہ نہایت درجہ کریم ہے۔ ایک دم کی گداز کرنے والی توبہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے اور یہ مت کہو کہ توبہ منظور نہیں ہوتی۔ یادرکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ ہمیشہ فضل بچاتا ہے نہ اعمال۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس کا فضل مانگتے رہو استغفار کرتے رہو۔ پھر فرمایا کہ ’’اے خدائے کریم و رحیم! ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گِرے ہیں۔ آمین‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 174)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا وارث بنائے اور ہم توبہ کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہوئے استغفار کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے استغفار اور توبہ کرنے والے ہوں۔

اب میں

بعض مرحومین کا ذکر

کروں گا اور بعد میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ ان میں سے پہلا ذکر ہے

مکرمہ آنسہ بیگم صاحبہ

کا۔ جو حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ترانوے سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ قادیان میں پیدا ہوئیں۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب ان کے دادا تھے۔ ان کی والدہ کا نام حضرت صالحہ بیگم صاحبہ بنت پیر منظور محمد صاحب تھا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے قادیان سے حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ قاضی شوکت صاحب مرحوم سے ان کی شادی ہوئی تھی۔

امیر محمود احمد صاحب ناصر ربوہ سے اپنی ہمشیرہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نہایت درجہ سادہ بالکل بےضرر، بے شرر۔ شادی سے پہلے سارے خاندان کی خدمت کرنے والی ہماری بہن تھیں۔ کہتے ہیں ربوہ کے ابتدائی دنوں میں جب یہاں بجلی نہیں تھی ۔گرمی شدید پڑتی تھی۔ کچے مکانوں میں رہتے تھے اور کہتے ہیں ہم گرمی سے بچاؤ کے لیے ایک کمرے میں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ وہاں چھت پہ ایک بڑا سارا جھالر والا پنکھا لگا ہوا تھا جس کو رسی پکڑ کے ہلایا کرتے تھے اور یہ بغیر کسی کے کہے کے ہمارے آرام کی خاطر باہر بیٹھ کر رسی ہلاتی رہتی تھیں تاکہ ہم آرام سے سوئے رہیں۔ ان میں سب کی خدمت کا بےلوث جذبہ تھا۔

ان کے بچے لکھتے ہیں کہ ہماری والدہ نہایت مخلص احمدی مسلمان تھیں۔ حقوق و فرائض ادا کرنے والی بیوی تھیں۔ مزاج بہت سادہ اور پیار کرنے والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء اور صحابہ کے نہایت اہم اور پُرمغز واقعات بہت ہی سادہ انداز میں بیان کیا کرتی تھیں۔ جماعت کی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور آپؑ کے خلفاء اور صحابہ کے واقعات بھی نہایت آسانی سے بیان کر دیا کرتی تھیں۔ بچوں کواور لوگوں کو عام طور پر اس بات کی نصیحت کیا کرتی تھیں کہ ایمان پر قائم رہو اور پُر وقار زندگی بسر کرو۔ جماعتی کاموں میں بہت فعال رکن تھیں۔ سب سے بڑی خوبی آپ کی انسانیت کے لیے شفقت تھی۔ تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا یہاں تک کہ آپ ایئر پورٹ کے ٹرمینل پر ایئرلائن کے پائلٹ سمیت سب کو اسلام کی دعوت دیا کرتی تھیں۔ آپ کے اخلاق میں خوبصورتی اور سادگی شامل تھی۔ تقریر میں بہت عمدہ تھیں۔ ان کی بھانجی امةالکافی صاحبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے والدین سے جو بنیادی تربیت پائی وہ اتنی مضبوط تھی کہ کبھی اس سے ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ دین کی خدمت کا جذبہ اس قدر تھا کہ نیو یارک جیسے شہر میں باقاعدہ مسجد جا کر مسجد کی صفائی کیا کرتی تھیں۔ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ جب تک ہمت رہی سودا لینے کے وقت عام لوگوں کو اپنی سمجھ اور زبان کے مطابق تبلیغ کیا کرتی تھیں۔ غریبوں اور مجبوروں کے لیے دل میں ہمدردی اور محبت کا ایک طوفان مچا رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔

دوسرا جنازہ

مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ

سیالکوٹ کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1955ء میں بھڈال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ مرحومہ نیک متقی اور صوم و صلوٰة کی پابند ایک مخلص خاتون تھیں۔ مہمان نوازی، غریب پروری اور خلافت سے محبت ان کی نمایاں خوبیاں تھیں۔ واقفین زندگی کی بہت عزت کرتی تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے بیٹے بابرشہزاد صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ سیرالیون میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور وہاں میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے ان کے جنازے میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔

بابر شہزاد صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں کہ میرا جامعہ میں داخلہ ہوا تو بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے پوچھا کہ تم سے کیا سوال پوچھا تھا۔ کہتے ہیں انہوں نے جامعہ میں جو سوال کیا تھا کہ تم اکیلے بیٹے ہو اگر تم نے وقف کر دیا تو والدین کا کفیل کون ہوگا۔ تو کہتے ہیں کہ میں نے تو جو جواب دینا تھا دیا لیکن والدہ نے یہ سن کے کہا کہ اگر میرے سات بیٹے ہوتے تو میں سب کو وقف کر دیتی۔ کہتے ہیں آخری دنوں میں جب ہسپتال میں داخل تھیں۔ مَیں نے فون کیا اور پوچھا آپ کیسی ہیں؟ تو باوجود بڑی تکلیف کے انہوں نے یہی کہا کہ ٹھیک ہوں اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق سب کھا پی رہی ہوں لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو پریشان نہ ہونا اور ادھر ہی رہنا، تم افریقہ میں ہو وہیں رہنا۔ بچوں کو پریشان نہ کرنا۔ تم وقفِ زندگی ہو اس لیے صبر کرنا اور کہتے ہیں یہی میری والدہ کے آخری الفاظ تھے۔ غریبوں اور ضرورتمندوں اور بیواؤں کا خیال رکھتیں اور ان کی مالی مدد کیا کرتی تھیں۔ جب بھی گندم یا چاول کی فصل آتی تو اس کو کئی حصوں میں تقسیم کرتیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی صبر عطا فرمائے۔

تیسرا ذکر

مسرت جہاں صاحبہ اہلیہ چودھری محمد اختر صاحب

آسٹریلیا کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں ستاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے دادا حضرت بابو محمد افضل اوجلوی صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ ان کے زیر سایہ انہوں نے تربیت پائی۔ ان کو برین ہیمبرج ہو گیا تھا۔ گذشتہ سولہ سال سے اسی وجہ سے بیڈ پہ پڑی رہیں۔ ان کے بچوں نے، ایک بیٹےزاہد نے اور بہو نے ان کی خاص خدمت کی۔ بہو کہتی ہیں کہ جس طرح انہوں نے اپنی ایکٹو(active) زندگی میں میرے سے ہمیشہ سلوک رکھا وہ ساس نہیں تھیں بلکہ بیٹی کی طرح سلوک رکھا۔ نماز، روزہ، تہجد کی پابند تھیں۔ عبادت کا خاص اہتمام کیا کرتی تھیں۔ اپنے گھر میں بھی عبادت کے لیے علیحدہ جگہ بنائی ہوئی تھی اور دارالعلوم سے مسجد مبارک میں جب درس ہوا کرتا تھا تو پیدل درس سننے جایا کرتی تھیں اور بلکہ آخری عشرے میں تراویح کے لیے بھی جایا کرتی تھیں۔ خلافت سے بےحد عقیدت اور احترام کا تعلق تھا۔ ان کے خاوند ریلوے میں سٹیشن ماسٹر تھے۔ جہاں بھی ان کی پوسٹنگ ہوتی وہاں اپنے گھر میں بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی کلاس لگایا کرتی تھیں۔ ربوہ میں جب سکونت اختیار کی تو وہاں بھی قرآن کریم کی کلاس کا اہتمام کیا۔ ان کے پسماندگان میں میاں کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے چھوٹے بیٹے حافظ راشد جاوید صاحب ناظم دارالقضاء ربوہ ہیں، واقف زندگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی جو نیکیاں ہیں ان کو ان کے بچوں کو بھی جاری رکھنے کی توفیق دے۔

چوتھا ذکر ہے

مکرم ناصر احمد قریشی صاحب

امریکہ کا۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں اٹھاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ امةالباری ناصر صاحبہ کے یہ شوہر تھے جو کہ لمبا عرصہ لجنہ اماء اللہ کراچی کی سیکرٹری اشاعت رہی ہیں۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کا ایک نواسہ وقاص خورشید مربی ہے اور ایک پوتا ان کا جامعہ احمدیہ کینیڈا میں پڑھ رہا ہے۔ ان کے والد کا نام مکرم محمد شمس الدین بھاگلپوری صاحب تھا اور ان کے خاندان میں احمدیت 1913ء میں آئی جب محترم مولوی عبدالماجد صاحب والد حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس علاقے میں ایک جلسہ کیا اور صداقت مسیح موعود کے دلائل بیان کیے۔ ان کے والد صاحب بہت متاثر ہوئے۔ سٹیج پر جا کر ملاقات کی۔ لٹریچر دیا گیا جسے پڑھ کر احمدیت کے لیے جوش پیدا ہوا۔ انہوں نے دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک خواب میں حضرت اقدسؑ کی شبیہ مبارک اور مبشر خوابیں دکھائیں۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیعت کا خط لکھ دیا۔ آپؓ کی بیعت کی۔ اس طرح بھاگل پور کے اوّلین احمدیوں میں شامل ہوئے۔ شدید مخالفت کی وجہ سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے قادیان آ گئے اور وہاں اخلاص و محبت میں ترقی کرتے چلے گئے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے کار ڈرائیور کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔

ناصر قریشی صاحب قادیان میں پیدا ہوئے تھے۔ پارٹیشن کے بعد کراچی میں رہائش اختیار کی۔ یہیں تعلیم پائی۔ بڑی محنت اور لگن سے نامساعد حالات کے باوجود پڑھتے رہے۔ بی ای الیکٹریکل انجنیئرنگ کی اور پھر اس کے بعد اپنے محکمہ ٹیلیفون میں ملازمت اختیار کی۔ جنرل مینیجر کے عہدے تک ترقی کی۔ ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے تو بڑے محنتی اور ایماندار افسر کی شہرت کے ساتھ ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ جماعت احمدیہ کراچی کے حلقہ ناظم آباد میں صدر حلقہ اور جہاں بھی رہے دوسری جگہ میں بھی صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

ان کی اہلیہ امۃ الباری صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہمیشہ ان کو میں نے صوم و صلوٰة کا پابند پایا۔ مسجد میں دل اٹکا رہتا تھا۔ ذمہ دار شوہر، بچوں کی تعلیم و تربیت کابہت خیال رکھنے والا پایا۔ ضرورتمندوں کی مدد کی توفیق ان کو ملتی تھی۔ خلافت سے والہانہ محبت کرنے والے تھے۔ صاف سیدھی سچی اور کھری بات کہتے تھے اور خدا کے فضل سے موصی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button