الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
(گذشتہ سے پیوستہ۔ دوسرا اور آخری حصہ)
٭…حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آپؓ کو حضرت امّاں جانؓ سے بےحد محبت تھی۔ روز آکر بیٹھنے کے علاوہ مسجد میں جاتے آتے بھی خیریت پوچھ کر جاتے۔ اپنے دل کا ہر درد دکھ امّاں جانؓ سے بیان کرتے اور اُن کی دعا، پیار ومحبت کی تسلی سے تسکین پاتے۔ جب آمدنی کم اورگزارہ اپنا بھی مشکل ہوتا تھا تو بھی ہر ماہ کچھ رقم حضرت امّاںجانؓ کے ہاتھ میں ادب اور خاموشی سے دے دیتے۔ انہیں ضرورت تو نہیں تھی لیکن آپؓ کی محبت میں رکھ لیتیں۔
محترم مرزا مظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ کو اباجانؓ سے بہت پیار تھا۔ میری نظروں کے سامنے امّاں جانؓ قادیان میں اُن سیڑھیوں کے اوپر جو ہمارے مکان اور حضرت صاحبؓ کے مکان کو ملاتی ہیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں، ہاتھ میں پلیٹ ہوتی جس میں کوئی کھا نے کی چیز جو انہوں نے پکائی ہوتی تھی پکڑی ہوتی اور آواز دے کر کہتیں کہ ’میاں تمہارے لیے لائی ہوں ،لے لو۔‘ کبھی صرف ’میاں‘ کہتی تھیں کبھی ’میاں بشیر‘ اور کبھی صرف ’’بشریٰ‘‘۔
حضرت امّاں جانؓ کے اباجان کے ساتھ تعلق کا حضرت مصلح موعودؓ کو بھی احساس تھا۔ قادیان سے یہ خبریں آنے پر کہ مقامی حکام کسی بہانے سے اباجانؓ کو قید کرنا چاہتے ہیں حضورؓ کے ارشاد پر اباجا نؓ بڑے مخدوش حالات میں قادیان سے روانہ ہوکر جب لاہور پہنچے تو حضورؓ نے پہلے سجدۂ شکر ادا کیا اور پھر آپؓ کا ہاتھ پکڑ کر حضرت امّاں جانؓ کے پاس لائے اور فرمایا: ’لیں امّاں جان! آپ کا بیٹا آگیا ہے۔‘
٭…۲۲؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ قادیان سے لاہور پہنچے توحضورؓ نے ’حفاظتِ مرکز‘ کے نام سے درویشانِ قادیان کے لیے ایک صیغہ قائم فرمایاجس کا ناظر آپؓ کو مقرر فرمایا۔ ۱۹۴۸ء میں جلسہ سالانہ قادیان کے لیے آپؓ نے اپنے پیغام میں تحریر فرمایا کہ قادیان کے دوست تین طریق پر اپنے فریضہ سے عہدہ برآہوسکتے ہیں:
اول :شریف مزاج سنجیدہ غیر مسلموں کو تبلیغ کرکے۔
دوم: دینی اور اخلاقی لحاظ سے اپنا عملی نمونہ قائم کرکے۔
سوم:اسلام واحمدیت کی اشاعت کے لیے دعائیں کر کے۔
درویشان قادیان اور ان کے متعلقین کے لیے اس قدر شفقت آپؓ کے دل میں تھی کہ سخت تکلیف اور شدید مصروفیت میں بھی اگر کوئی درویش ملنا چاہتاتو فوراًباہر تشریف لے آتے اور اگر اٹھ کر باہر جانے کی طاقت نہ ہوتی تو اسے اندر بلا لیتے اور ہرممکن اعزاز فرماتے۔ اس کی باتوں کو غور سے سنتے، حالات دریافت فرماتے اور اصرار کرتے کہ کوئی کام ہو یا ضرورت ہوتوبےتکلّف کہیں۔ آپؓ چونکہ درویشان کی عظیم قربانی سے باخبر تھے اس لیے اُن کے بچوں کے حالات سے بھی باخبر رہتے اور ان سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے۔
مکرم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مارچ ۱۹۵۴ء میں بیماری کی حالت میں پاکستان پہنچے تو آپؓ نے بارڈر پر کار بھجوانے نیز میوہسپتال لاہور میں ماہر ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کا انتظام فرمایا۔ مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ علاج کے دوران میرے ربوہ پہنچنے کی اطلاع آپؓ کو ملی تو فرمایا کہ وہ بیمار ہیں مَیں آٹھ بجے گھر پر آکر اُن سے ملوں گا۔ اس پر خاکسار آپؓ کی تکلیف کے خیال سے ساڑھے سات بجے ہی آپؓ کے دفتر میں حاضر ہوگیا۔ جب السلام علیکم عرض کیا تو آپؓ وفورِ محبت سےفوراً کرسی سے اُٹھے (جوتا آپؓ نے گرمی کی وجہ سے اُتار کر پائوں کے نیچے رکھا ہوا تھا)اور ننگے پائوں آگے بڑھ کر نہایت مہربانی اور شفقت سے مجھے گلے لگاکر فرمایا کہ بیماری کی حالت میں یہاں آنے کی کیوں تکلیف کی۔ پھر علاج کے متعلق پوری دلچسپی سے تفصیل دریافت فرمائی۔ غرض درویشانِ قادیان میں اگر کوئی بیمار ہوتا تو آپؓ اس کے علاج کے لیے ہر ممکن تدابیراختیار فرماتے۔ اگر کوئی فوت ہوجاتا تو آپؓ یوں محسوس کرتے جیسے کوئی عزیز فوت ہوگیا ہے۔ اپنی بیماری کی حالت میں تکلیف اُٹھا کر بھی اس کا جنازہ پڑھاتے اور کندھا دیتے۔ متوفی کے نیک اوصاف کا ذکر اور دعا کی تحریک الفضل میں کرتے اور اس کے متعلقین کا بعد میں بھی خیال رکھتے۔
مبلغین کے ساتھ آپؓ کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے مکرم بشارت احمد صاحب امروہی لکھتے ہیںکہ محترم مولوی عبدالحق صاحب ننگلی مغربی افریقہ سے واپس تشریف لائے تو اُن کی خواہش پر مَیں اُنہیں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ سے ملانے دفتر لے گیا۔ آپؓ اس وقت نہایت ہی ضروری تصنیف میں مصروف تھے، مجھے دیکھ کرکچھ کبیدہ خاطرہوئے۔ لیکن جونہی میں نے یہ عرض کی کہ یہ مغربی افریقہ میں تبلیغی خدمات سرانجام دے کر واپس تشریف لائے ہیں تو آپؓ کے چہرہ پر بشاشت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اسی وقت قلم ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ اُٹھے اور مولوی صاحب سے بغل گیر ہوگئے اور کافی دیر تک ان سے تبلیغی تربیتی اور دیگر امور پر گفتگو فرمائی۔
مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ سنگاپور روانہ ہونے سے چند گھنٹے قبل خاکسار آپؓ کی خدمت میںالوداعی ملاقات کے لیے حاضرہوا تو باوجود نقاہت کے اُٹھ کر دروازے تک تشریف لائے اور مصافحہ کے بعد بڑی شفقت سے مجھے اندر لے گئے اور پاس بٹھا کر گفتگو فرماتے رہے۔ قیمتی نصائح میں آپؓ نے یہ بھی فرمایا: آپ ایسی جگہ جارہے ہیں جو آپ کے لیے نئی ہے۔ آپ کومعمول سے زیادہ دعائیں اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔ سب سے بڑی تبلیغ ایک مبلغ کا اپنا نمونہ ہے اس کے بعد دعا اور علم وحکمت اور تجربہ وغیرہ کام کرتے ہیں۔ اپنے نفس کا متواتر محاسبہ کرتے رہنا چاہیے اور اپنے تبلیغی و تربیتی کام اور اس کے نتائج کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ہر ایک سے ایسا سلوک کرنا چاہیے کہ ہر فردِ جماعت اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بعد مبلغ کو اپنا مددگار ومعاون اور ہمدرد وشفیق باپ اور بھائی یقین کرے۔ پہلے مبلغ کے طریق کار کو حتی الامکان اسی طرح جاری رکھنا چاہیے اور اگر کوئی تبدیلی کرنی بھی پڑے تو سابقہ طریقِ کار کے نقائص سامنے نہ لائے جائیں بلکہ پہلوں کے کاموں اور کوششوں کی تعریف ہواور ان کے لیے دعائیں جاری رہیں۔
پھر آپؓ نے ہاتھ اٹھاکر دعا کروائی اور آبدیدہ آنکھوں سے معانقہ کرکے رخصت فرمایا۔
٭…آپؓ کی علمی خدمات مثالی ہیں۔ آپؓ کو علم حدیث اور تاریخ اسلام سے فطری تعلق تھا۔ کتاب ’’سیرۃخاتم النبیینﷺ‘‘ میں آپؓ نے آنحضورﷺ سے عشق کا غیرمعمولی اظہار کیا ہے۔ غیروں کی طرف سے آنحضورﷺ کی کردارکشی کی ہر کوشش کا ردّ فرمانے کے علاوہ کئی علمی مسائل مثلاً جمع وترتیب قرآن کریم، معجزہ کی حقیقت، جہاد بالسیف، غیرمسلموں سے رواداری، جزیہ، غلامی، عورتوں کے حقوق، تعدّدِازواج، شادی اور طلاق کے متعلق اسلامی قوانین اور اسلام کی عادلانہ جمہوری طرز حکومت پر سیرحاصل بحث فرمائی ہے۔
کتاب ’’سیرت المہدیؑ‘‘ کے تین حصے آپؓ کی زندگی میں شائع ہوئے۔ آپؓ کا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ایک مفصل سوانح عمری لکھیں گے۔ آپؓ نے اسی ارادہ کے ماتحت ذکر حبیب پر متعدد تقاریر فرمائیں جو سیرت طیبہ، درّمنثور، دُرّمکنون اور آئینہ جمال کے نام سے شائع ہو ئیں۔
’’سلسلہ احمدیہ‘‘ بھی آپؓ کی یادگار تالیف ہے۔ دیگر کتب میں کلمۃ الفصل، تصدیق المسیح، الحجۃ البالغ، ہمارا خدا، تبلیغ ہدایت،ختم نبوت کی حقیقت، چالیس جواہر پارے وغیرہ شامل ہیں۔ آپؓ کی ہر تالیف یا مضمون کو اپنے موضوع کے اعتبار سے مشعل راہ کی حیثیت حاصل ہے۔
آپؓ نے ہوش سنبھالتے ہی خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاوّلؓ نے آپؓ کو صدر انجمن احمدیہ کی مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا۔ خلافت ثانیہ کے ابتدا میں آپؓ ’الفضل‘ کے مدیر رہے۔ رسالہ ’ریویوآف ریلیجنز‘ کی خدمت بھی ایک عرصہ تک آپؓ کے سپرد رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈماسٹر، کئی صیغوں کے سالہاسال تک نگران نیز ناظر اعلیٰ بھی رہے۔ انگریزی ترجمۃالقرآن کے کام میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے سلسلہ میں حضورؓکی ہدایات کے تحت شاندار خدمات انجام دیں۔ حضورؓ نے 31؍اگست ۱۹۴۷ء کو قادیان سے ہجرت کرتے وقت آپؓ کو امیر مقامی مقرر فرمایا۔پاکستان آنے کے بعد حفاظتِ مرکز کااہم شعبہ آپؓ کے سپرد ہوا۔ حضورؓ کی بیماری کے ایّام میں آپؓ نگران بورڈ کے صدر بھی رہے۔
آپؓ کی شکل نورانی،قد لانبا، وجیہ چہرہ، موٹی موٹی مگر نیم وا آنکھیں، ابھری ہوئی ناک،بھرے بھرے ہاتھ پاؤں اور جسیم و پُروقاروجود تھا۔ لباس نہایت سادہ ہوتا۔ سفید قمیض، سفید شلوار،لمبا کھلا کوٹ اور پگڑی پہنتے تھے۔ خوراک بھی بہت سادہ ہوا کرتی۔ پُرتکلّف اور مرغن کھانوں کے دلدادہ نہیں تھے۔ کھمبی اور پالک گوشت شوق سے کھایا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد مشکلات کا زمانہ آیا تو صبح چائے کے ساتھ بھنے ہوئے چنے کھا کر گزارا کر لیتے۔ پھل بھی پسند فرماتے۔ خصوصاً عمدہ قسم کے آم اور کیلے آپؓ کو بہت پسند تھے۔
محترم مرزا مظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ذاتی دعاؤں میں اباجان دوباتوں کے لیے بہت دعا کیاکرتے تھے۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے اور دوم انجام بخیر ہو۔ اس آخری امر کے لیے بہت تڑپ رکھتے تھے۔ مجھے کئی بارفرمایا کہ ایک انسان ساری عمر نیکی کے کام کرتا ہے لیکن آخر میں کوئی ایسی بات کربیٹھتا ہے جوخدا کی ناراضگی کا موردہوجاتی ہے اور جہنم کے گڑھے کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ ایک دوسرا انسان ساری عمر بد اعمال میں گزارتا ہے لیکن آخر میں ایسا کام کرجاتا ہے جو خدا کی خوشنودی کا باعث ہوجاتا ہے۔ سو اصل چیز انجام بخیر ہے۔
ایک بار آپؓ نے بڑے اضطر ار سے دعا کی کہ خدا سے انجام بخیر کے بارے میں کوئی تسلی مل جائے۔ تو قرآن کریم کی تلاوت کے دوران یکدم دائیں ورق پرموٹے الفاظ میں صرف یہ دوا لفاظ لکھے نظر آئے ’’بغیر حساب۔‘‘
طبیعت کے لحاظ سے آپؓ بہت حساس تھے اور لوگوں کے جذبات کا خاص خیال رکھتے تھے۔ طبیعت میں نفاست اور باریک بینی تھی۔ ہر چیز اپنی جگہ پر سلیقہ سے رکھتے تھے۔ اس میلانِ طبیعت کے لحاظ سے ہر چیز کو تحریر میں لے آتے تھے۔ ہر معاملہ کی علیحدہ فائل کھول کر اس میں تمام متعلقہ کاغذات اہتمام سے رکھتے تھے۔ معاملہ میں بہت صاف گو تھے۔ ہر چیز کا حساب رکھتے اور اس میں کسی قسم کی کو تاہی نہ خود کرتے اور نہ دوسرے کی طرف سے پسند فرماتے۔ چند ماہ سے آپؓ کو متعدد منذر خوابیں اپنی وفات کے متعلق آرہی تھیں۔ اس کا پہلا اشارہ مجھے مئی میں کیا جب مَیں عید کے بعد واپس راولپنڈی کے لیے رخصت ہورہا تھا۔ پھر ۲۴؍اگست کے قریب لاہور گیاتو فرمانے لگے: ’’اب تو چل چلاؤہی ہے۔’’ خوابوں کی تفصیل نہیں بتاتے تھے۔ البتہ ایک بزرگ کے نام خط میں آپؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’میر ی زبان پر حضرت مسیح موعودؑ کا شعر جاری ہوا ؎
بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے
آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا‘‘
بہرحال آپؓ کی طبیعت پر یہ گمان غالب تھاکہ آپؓ کی وفات کا وقت قریب ہے۔ چنانچہ جون میں ربوہ سے لاہور روانگی کے وقت اپنی تجہیزوتکفین کے لیے علیحدہ رقم گھر میں دے دی۔ پھر لاہور سے مزید رقم یہ کہہ کر ارسال کی کہ میری وفات پر دوست آئیں گے، گھر کے عام خرچ سے زیادہ اخراجات ان دنوں ہوں گے اس لیے بھجوا رہا ہوں۔
مجھ سے آخری ملاقات غنودگی سے پہلے ۳۰/۳۱؍ اگست کو ہوئی۔ میں بیماری کی شدّت کا سن کر لاہور پہنچا تو مجھے دیکھ کر فرمایا ’’مظفر تم آگئے‘‘ یہ فقرہ ایسے رنگ میں کہا جیسے کسی کا انتظار تھا۔ اس فقرہ میں ایک عجیب اطمینان اور سکون تھا جس سے مجھے کچھ گھبراہٹ ہوئی۔ میں اباجان کا ہاتھ پکڑ کر سرہانے کی طرف بیٹھ گیا۔ پھر فرمانے لگے ’’کراچی کب جارہے ہو؟‘‘ میرا کراچی جانے کا پروگرام تھا۔ میں نے کہا ’’ابھی تو مَیں نہیں جا رہا‘‘ فرمانے لگے ’’یہ اچھا فیصلہ ہے۔‘‘
۲؍ ستمبر۱۹۶۳ءکو چھاتی کے ایکسرے اور خون کے ٹیسٹ سے نمونیہ اور پھیپھڑوں کی انفیکشن کی تصدیق ہوئی۔ باوجود تمام کوششوں کے سانس کی تکلیف اور غنودگی بڑھتی گئی۔ اوراُسی روز جبکہ بہت سے احباب کوٹھی ۲۳ریس کورس کے احاطہ میں نمازمغرب ادا کررہے تھے کہ آپؓ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور چند منٹ میں وفات ہوگئی۔ آپؓ کا جسد خاکی اسی رات ربوہ لایا گیا۔ ریڈیو پر آپؓ کی وفات کی خبرنشر ہوتے ہی احباب جماعت بڑی تعداد میں ربوہ پہنچنا شروع ہوگئے۔ ساڑھے پانچ بجے جنازہ آپؓ کی کوٹھی ’’البشریٰ‘‘ سے اُٹھایا گیا اوربہشتی مقبرہ کے احاطے میں حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحبؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر تیار ہونے پر پُرسوز دعا کرائی۔
………٭………٭………٭………