کیا نبی کی ہر دعا قطعی طور پر قبول ہوتی ہے؟
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نےانبیاء و مرسلین کو سب سے اعلیٰ اور بلند مقام پر فائز فرمایا ہےلیکن بعض لوگوں نے انبیاء کے اس بلند و بالا مرتبے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء کے متعلق بعض ایسی باتیں خیال کر لی ہیں جو حقیقت کے بالکل بر عکس ہیں، انہی باتوں میں سے ایک انبیاء کی قبولیت دعا کا تصوّر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کو قبولیت دعا کا نشان دیا جاتا ہے یعنی بڑی کثرت سے اُن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن یہ خیال کرنا کہ نبی کی ہر دعا قبول ہو جاتی ہے، یہ درست نہیں ہے کیونکہ قرآن و احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض مواقع پر انبیاء کی دعاؤں کا جواب اُس طرح نہیں دیا جس طرح وہ مانگ رہے تھے۔
قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہوا ہے کہ وَنَادىٰ نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِيْ مِنْ أَهْلِيْ وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِيْنَ (سورۃ ھود: ۴۶) یعنی (جب حضرت نوحؑ کے زمانے میں سیلاب آیا اور آپؑ کا بیٹا ڈوبنے لگا تو) حضرت نوح ؑنے اپنے ربّ کو پکارا اور کہااے میرے ربّ! یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ ضرور سچا ہے اور تُو فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔
حضرت نوحؑ کی اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ(سورۃ ھود: ۴۷)یعنی اُس (اللہ) نے کہا اے نوحؑ! یقیناً وہ تیرے اہل میں سے نہیں۔ بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا۔ پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تُو جاہلوں میں سے ہو جائے۔
اس جواب سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں حضرت نوحؑ کی یہ دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ بقول مولانا مودودی صاحب ’’دربارِ خداوندی سے اُلٹی اس پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے۔‘‘(تفسیر تفہیم القرآن۔ مولانا مودودی۔ زیر تفسیر سورۃ ہود آیت نمبر ۴۷) امام قشیریؒ اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’لم يَسْتَجِبْ له في وَلَدِه،‘‘(تفسير لطائف الإشارات / القشيري (ت ۴۶۵ ه) ھود: ۴۶) کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کی آپؑ کے بیٹے کے متعلق (مطلوبہ) دعا قبول نہیں کی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم میں آیا ہے : قَالَ رَبِّ أَرِنِيْ أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي…(الاعراف: ۱۴۳)یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے اپنا آپ دکھا ! تو اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح سورہ طٰہٰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دعا میں بعض باتیں مانگنے کا ذکر آیا ہے جو رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے، اسی دعا میں ایک بات یہ بیان ہوئی ہے کہ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ يَفْقَھُوْا قَوْلِيْ یعنی اے اللہ تو میری زبان کی گِرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔ اس دعا کے متعلق علامہ القمی النیساپوری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’وهل زالت تلك العقدة بالكلية؟ ….. والأصح أنه بقي بعضھا لقوله تعالى حكاية عن فرعون {أم أنا خير من هذا الذي هو مھين ولا يكاد يبين }[الزخرف:۵۲]‘‘ (تفسير غرائب القرآن و رغائب الفرقان/القمي النيسابوري (ت۷۲۸ه)۔ سورۃ طٰہٰ: آیت ۲۷) یعنی کیا یہ گِرہ مکمل طور پر کھل گئی تھی؟ …. زیادہ درست بات یہ ہے کہ اس لُکنت میں کچھ ابھی باقی رہ گیا تھا جس کی وجہ سے فرعون نے کہا تھا ولا يكاد يبين کہ یہ تو کھول کر بات بیان بھی نہیں کر سکتا۔ بالفاظ دیگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا جزوی طور پر قبول ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات میں ہی ایک روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ میں ملتی ہے: ’’أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ ….. فَسَأَلَ اللّٰہَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ۔‘‘(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب نمبر (۶۸)باب مَنْ أَحَبَّ الدَّفْنَ فِي الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ أَوْ نَحْوِهَا)یعنی موت کا فرشتہ جب حضرت موسیٰؑ کی طرف بھیجا گیا تو حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے ارض مقدسہ کے قریب کر کے وفات دینا۔ چنانچہ اس کے بعد آپؑ کی وفات کے متعلق لکھا ہے: ’’وقضٰى عبداللّٰه موسى بأرض موآب بأمر الرب، فدفن – يعني في أرض موآب……‘‘(تفسير نظم الدرر في تناسب الآيات والسور/ البقاعي (ت ۸۸۵ ه) سورۃ المائدۃ: ۲۶ – { قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ })ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات موآب کی سر زمین میں ہوئی اور آپؑ وہیں موآب میں ہی دفن ہوئے۔ پھر حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے حوالے سے لکھا ہے: ’’عن ابن عباس، قال: … فمات موسى في التيه، ومات هارون قبله. قال: فلبثوا في تيههم أربعين سنة، (تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري (ت ۳۱۰ ه) سورۃ المائدۃ: ۲۶ – { قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ })یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام دونوں صحرا میں ہی وفات پاگئے جس کے بعد بنی اسرائیل چالیس سال تک صحرا میں بھٹکتے رہے۔
اب ارض موآب کا فاصلہ ارض مقدسہ سے تین سو میل بتایا گیاہے۔ سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو دعا کی تھی کہ يُدْنِيَهُ مِنَ الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍیعنی اے اللہ مجھے ارض مقدسہ سے اتنا قریب کر کے وفات دینا کہ جہاں سے اگر پتھر پھینکا جائے تو وہاں پہنچ جائے یعنی stone‘s throw away۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات اس دعا کے مطابق نہیں ہوئی بلکہ تین سو میل پہلے ہی ہوگئی، اتنی دور کہ جہاں سے بنی اسرائیل کو ارضِ مقدسہ پہنچنے کے لیے چالیس سال لگے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی کو حضرت موسیٰؑ کی قبر کا علم نہیں۔ اگر مطلوبہ قرب میں وفات ہوئی ہوتی تو قبر ضرور آج تک معروف ہوتی جیسا کہ ارضِ مقدسہ میں دیگر انبیاء کی قبریں آج تک مشہور ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق حدیث میں آیا ہے: ’’عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللّٰہَ ثَلاَثًا حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلاَةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ۔‘‘(سنن ابن ماجہ كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها باب نمبر (۱۹۶)باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ) یعنی حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگیں۔پہلی دعا فیصلہ کے متعلق تھی کہ اللہ تعالیٰ آپؑ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ عطا فرمائے۔ دوسری یہ کہ آپؑ کو ایسی بادشاہت ملے جو آپؑ کے بعد کسی اَور کو نہ ملے۔ تیسری یہ کہ جو بھی اس مسجد (بیت المقدس) میں محض نماز کی نیت سے آئے تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہوکر نکلے جس طرح کہ وہ اُس دن تھا جس دن اُس کی ماں نے اُسے جنم دیا۔ پھر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ان مانگے گئے سوالوں میں سے دو تو آپؑ کو عطا کر دیے گئے اور میں اُمید کرتا ہوں کہ تیسرا (سوال) بھی آپ کو عطا کر دیا گیا ہوگا۔
حضرت سلیمانؑ کے متعلق اس حدیث کے آخری الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپؐ نبی کی ہر دعا کو قطعی طور پر قبولیت کے درجے پر نہیں سمجھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو آپؐ تیسری دعا کے متعلق بھی فرماتے کہ مجھے یقین ہے کہ حضرت سلیمانؑ کو تیسری دعا کا جواب بھی ہاں ہی میں ملا ہوگا کیونکہ نبی کی مانگی ہوئی ہر دعا ضرور قبول ہوتی ہے لیکن آپؐ قطعیت کی بجائے اُمید (أَرْجُو) کا اظہار فرما رہے ہیں۔ پس کسی بات کے متعلق اُمید لگانا بتاتا ہے کہ ابھی اُس کا یقینی ہونا واضح نہیں۔ امام راغب لفظ رَجَاء کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ظنٌّ یَقْتَضی حُصولَ ما فیہِ مَسرّۃ …. أنّ الرّجاء و الْخَوْف یَتلازَمَانِ‘‘(المفردات فی غریب القرآن لامام راغب کتاب الراءمادہ ر ج و) یعنی رَجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور یہ کہ خوف و رَجاء باہم متلازم ہیں۔ اہل حدیث عالم مولانا محمد عبداللہ فیروزپوری صاحب (مترجم مفردات امام راغب) ساتھ ہی رَجاء یا اُمید کے متعلق لکھتے ہیں: جب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا۔
سب سے بڑھ کر مثال ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی ہے، آپؐ کامقام و مرتبہ سب سے بلند و ارفع ہے اور آپؐ خیرالانام اور خاتم النبیینؐ ہیں لیکن آپؐ نے خود اس بات کا اظہار فرمایا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری بعض دعاؤں میں مجھے منع فرمادیا چنانچہ روایت میں آیا ہے:
’’وأخرج ابن مردويه عن ابن عباس أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: دعوت ربي أن يدفع عن أمتي أربعاً، فرفع عنھم اثنتين وأبى أن يرفع عنھم اثنتين: دعوت ربي أن يرفع عنھم الرجم من السماء، والغرق من الأرض، وأن لا يلبسھم شيعاً، وأن لا يذيق بعضھم بأس بعض، فرفع عنھم الرجم والغرق، وأبى أن يرفع القتل والھرج . (تفسير الدر المنثور في التفسير بالمأثور/ السيوطي (ت ۹۱۱ ه) سورۃ الأنعام : ۶۵ – {قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِكُمْ ….. لَعَلَّھُمْ يَفْقَھُوْنَ}) یعنی حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ربّ سے دعا کی کہ میری امّت سے چار باتوں کو دور کر دے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کو تو دُور کر دیا لیکن باقی دو باتوں کو دُور کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نے ربّ سے مانگا تھا کہ میری امت سے پتھروں کی بارش کو دور کر دے، غرق آبی کو دور کر دے، اُن کو آپس میں فرقہ فرقہ کر کے ایک دوسرے کے خلاف نہ ٹکرادے اور یہ کہ اُن میں سے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ نہ چکھائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش اور غرق آبی کو تو دور کر دیا لیکن (میری اُمت کے) آپس میں لڑنے اور قتل و غارت کی دعا قبول کرنے سے انکار کردیا۔
قریبا ًاسی مضمون کی حدیث سنن ابن ماجہ میں بھی مذکور ہوئی ہے جہاں تین باتوں کی بابت دعا مانگنے کا ذکر ہے، لکھا ہے: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم يَوْمًا صَلاَةً فَأَطَالَ فِيهَا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْنَا – أَوْ قَالُوا- يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَطَلْتَ الْيَوْمَ الصَّلاَةَ قَالَ إِنِّي صَلَّيْتُ صَلاَةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ سَأَلْتُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لأُمَّتِي ثَلاَثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَرَدَّ عَلَىَّ وَاحِدَةً … (سنن ابن ماجہ كتاب الفتن باب نمبر(۹)باب مَا يَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ) ترجمہ: حضرت معاذ بن جبلؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرتﷺ نے طویل نماز پڑھائی۔ نماز ختم کرنے پر پوچھا گیا کہ حضورؐ آج آپؐ نے بڑی لمبی نماز پڑھائی؟ حضورؐ نے فرمایا: میں نے اُمید اور خوف کی نماز پڑھی ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتوں کے لیے دعا مانگی جس میں سے دو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر دیں لیکن ایک مجھ پر ردّکر دی۔
اس حدیث میں دعا کی خاطر نماز لمبی پڑھانے کا ذکر ہے، صحیح مسلم میں اس دعا کے متعلق لکھا ہے: وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلاً (صحیح مسلم كتاب الفتن وأشراط الساعة باب نمبر (۵)باب هَلاَكُ هَذِهِ الأُمَّةِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ) یعنی آپؐ نے بہت لمبی دعا کی۔ لیکن نماز میں اس لمبی دعا کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایک دعا قبول نہیں فرمائی۔ اس روایت کا حوالہ دیتےہوئے علامہ القرطبیؒ قرآنی آیت أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ… کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’وقال بعض العلماء: أجيب إن شئتُ كما قال:{ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إلَيْهِ إنْ شَاءَ } [الأنعام:۴۱] فيكون هذا من باب المطلق والمقيّد. وقد دعا النبيّ صلى اللّٰه عليه وسلم في ثلاثٍ فأُعْطِيَ اثْنتين ومُنع واحدة،(تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي (ت۶۷۱ه) سورۃ البقرۃ: ۱۸۶ - {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإِنِّيْ قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِيْ لَعَلَّھُمْ يَرْشُدُوْنَ })یعنی بعض علماء نے (أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ کے متعلق) کہا ہے کہ میں دعا قبول کرتا ہوں اگر میں چاہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ وہ دور کر دیتا ہے اُن باتوں کو جس کے لیے تم اللہ سے دعا کرتے ہو، اگر وہ چاہے(الأنعام:۴۱) پس یہ (دعاؤں کا قبول ہونا) غیر مشروط اور مشروط ابواب سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ نے تین باتوں کے لیے دعا مانگی تھی جس میں سے دو عطا کر دی گئیں لیکن ایک منع کر دی گئی۔
علامہ ابن حجر العسقلانیؒ اسی تین دعاؤں والی روایت کے حوالے سے ان لوگوں کا ردّ کرتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انبیاء کی ہر دعا قبول ہوتی ہے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں: ’’ و أمَّا جزمہ أوّلًا بِأنّ جمیع أدْعیتِھم مُستجابۃٌ فَفِیہ غفلۃ عَن الحدیث الصحیح : [ سَأَلْتُ اللّٰہَ ثَلاثًا فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ و مَنَعَنِی وَاحِدَۃ]‘‘(فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الدعوات باب نمبر ۱ باب وَلِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ) یعنی جہاں تک ان کا یہ دعویٰ ہے کہ انبیاء کی تمام دعائیں قبول ہوتی ہیں، تو اس دعوےمیں صحیح حدیث سے غفلت ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں جس میں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے دوچیزیں عطا کردیں لیکن ایک منع کر دی۔
سورۃ الضحیٰ کی تفسیر میں اکثر تفاسیر میں آنحضرتﷺ کی اس بات کا ذکر ملتا ہے ’’سألت ربي مسألة وددت أني لم أكن سألته‘‘یعنی میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک دعا مانگی، میں چاہتا ہوں کہ میں نے نہ مانگی ہوتی۔ تفصیلی روایت یوں ہے: ’’وأخرج ابن أبي حاتم والطبراني والحاكم وصححه وأبو نعيم والبيھقي كلاهما في الدلائل وابن مردويه وابن عساكر رضي اللّٰه عنه عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال: ’’ سألت ربي مسألة ووددت أني لم أكن سألته، فقلت: قد كانت قبلي الأنبياء منھُم من سخرت له الريح، ومِنْھُم من كان يحيي الموتى، فقال تعالى: يا محمد ألم أجدك يتيماً فآويتك؟ ألم أجدك ضالاً فَھَديْتُك؟ ألم أجدك عائلاً فأغنيتك؟ ألم أشرح لك صدرك؟ ألم أضع عنك وزرك؟ ألم أرفع لك ذكرك؟ قلت: بلى يا رب۔‘‘(تفسير الدر المنثور في التفسير بالمأثور/ السيوطي (۹۱۱ ه) سورۃ الضحیٰ : آیت نمبر ۶ تا ۸۔ تفسير فتح القدير/ الشوكاني (ت ۱۲۵۰ ه) یعنی آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک دعا مانگی، چاہتا ہوں کہ یہ میں نے نہ مانگی ہوتی۔ میں نے کہا تھا کہ مجھ سے پہلے انبیاء میں سے بعض کے لیے ہوا مسخّر کی گئی، بعض مُردے زندہ کیا کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمدؐ! کیا میں نے تجھے یتیم پاکر تجھے پناہ نہیں دی؟ کیا میں نے تجھے محبت میں سرشار پاکر تجھے ہدایت نہیں دی … میں نے کہا کیوں نہیں اے میرے ربّ!
پھر آنحضرتﷺ کی یہ حدیث بہت مشہور و معروف ہے اور متفّق علیہ ہے : لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ۔یہ ایک روایت ہی اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ آپؐ نے یہ نہیں فرمایا : کُلُّ دَعْوَۃ نَبِیٍّ مُسْتَجَابَۃٌ (کہ نبی کی ہر دعا قبول ہوتی ہے) بلکہ فرمایا لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ (یعنی ہر نبی کو ایک دعا ایسی دی جاتی ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے) مکمل روایت یوں ہے: ’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم: لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُو بِهَا فَيُسْتَجَابُ لَهُ فَيُؤْتَاهَا وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔‘‘(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب نمبر ۱ باب وَلِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ)یعنی حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے لیے ایک مقبول دعا ہوتی ہے، جب وہ مانگتا ہے تو وہ قبول ہوتی ہے اور اُسے عطا کی جاتی ہے اور مَیں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھا ہے۔
امام بخاریؒ نے کتاب الدعوات میں پہلا باب اسی کا باندھا ہے لیکن اس باب سے پہلے سب سے اوپر قرآنی آیت وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ … (سورۃ المومن: ۶۱) رکھی ہے۔ امام ابن حجر العسقلانیؒ آیت اور باب کا تعلق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ وَ مُناسبتھا للآیۃِ الاشارۃ الی أنّ بعض الدعاء لا یُستجابُ عینًا۔‘‘یعنی باب کی مذکور آیت سے مناسبت میں یہ اشارہ ہے کہ بعض دعائیں بعینہٖ قبول نہیں ہوتیں۔ مزید فرماتے ہیں: ’’أنّ المراد بالاجابۃ فی الدعوۃ المذکورۃ القطع بِھا، و ما عدا ذالک مِن دعواتِھم فھُو علیٰ رجاء الإجابة۔‘‘(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب نمبر ۱ باب وَلِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ) یعنی اس حدیث میں مذکور دعا کی قبولیت سے مراد اس کا قطعیت کے ساتھ قبول ہونا ہے۔ باقی اس خاص دعا کے علاوہ انبیاء کی جو دیگر دعائیں ہیں تو وہ باُمید قبولیت ہیں (یعنی اُن میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا) بریلوی عالم دین غلام رسول سعیدی نے اس حدیث کا ترجمہ یوں لکھا ہے: ’’ہر نبی کو ایک دعا کا حق دیا جاتا ہے (جس کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حتمی طور پر قبول فرماتا ہے) ‘‘(شرح صحیح مسلم از غلام رسول سعیدی) علامہ النوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’قوله: لكل نبي دعوة مستجابة قال النووي: معناه إن كل نبي له دعوة متيقنة الإجابة، وهو على يقين من إجابتھا. وأما باقي دعواتھم فھم على طمع من إجابتھا، وبعضھا يجاب وبعضھا لا يجاب،‘‘(صحیح مسلم بشرح النوویؒ کتاب الایمان باب(۸۶)باب اخْتِبَاءِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم دَعْوَةَ الشَّفَاعَةِ لأُمَّتِهِ ) یعنی اس (حدیث) کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک نبی کی ایک دعا ایسی ہوتی ہے جس کی قبولیت یقینی ہوتی ہے، جہاں تک اُن کی باقی دعاؤں کا تعلق ہے تو وہ باُمید قبولیت ہوتی ہیں جن میں سے بعض قبول ہو جاتی ہیں اور بعض قبول نہیں ہوتیں۔
امام نوویؒ نے انبیاء کی دعاؤں کے متعلق بعضھا يجاب وبعضھا لا يجاب کہہ کر اس مسئلہ کی حقیقت بتا دی ہے۔ تفاسیر کے مطالعہ سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جنگ احد کے موقع پر کفار کے خلاف بعض دعائیں کیں جس پر اللہ تعالیٰ نے لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ (یعنی تیرا اس معاملہ میں کچھ (دخل) نہیں) (آل عمران: ۱۲۸) کہہ کر آپؐ کو اُن دعاؤں سے روک دیا۔ اس آیت کی تفسیر میں بہت سی ممکنہ صورتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے ایک علامہ فخر الدین الرازی نے یوں بیان کی ہے: ’’ومِنْھُم من قال: المقصود منه إظھار عجز العبودية وأن لا يخوض العبد في أسرار اللّٰه تعالى في ملكه وملكوته، هذا هو الأحسن عندي والأوفق لمعرفة الأصول الدالة على حقيقة الربوبية والعبودية.‘‘(تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/ الرازي ( ۶۰۶ ه) سورۃ آل عمران: ۱۲۸۔ { لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ }) یعنی بعض نے یہ کہا ہے کہ (اس طرح دعا سے روکنےکا ) مقصد بندگی کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے اور یہ کہ بندہ خداتعالیٰ کے اسرار و رموز اور اُس کی بادشاہی اور سلطنت میں داخل نہ ہو۔یہ بات میرے نزدیک سب سے بہتر اور زیادہ موزوں ہے جو ربوبیت اور عبودیت کی حقیقت کی معرفت پر دلالت کرتی ہے۔
لا ریب انبیاء کا مقام و مرتبہ بہت اعلیٰ و ارفع ہے لیکن پھر بھی نبی کے مقام کی رفعت اور اللہ تعالیٰ کے مقام کی رفعت میں فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ ربوبیت کے مقام پر ہے اور نبی عبودیت کے مقام پر ہیں اسی لیے ہر مسلمان سے کلمہ شہادت میں أشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ کا اقرار لیا گیا ہے یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمدؐ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مقبولینِ الٰہی کے اس مقام عبودیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’…سنت الٰہیہ اسی طرح پر واقع ہے کہ خدا اُن کی سنتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ خدا اُن کی دعا کو ردّ نہیں کرتا اور کبھی اُن کی عبودیت ثابت کرنے کے لیے دعا سنی نہیں جاتی تا جاہلوں کی نظر میں خدا کے شریک نہ ٹھہر جائیں … یہ بالکل سچ ہے کہ مقبولین کی اکثر دعائیں منظور ہوتی ہیں بلکہ بڑا معجزہ اُن کا استجابتِ دعا ہی ہے۔ جب اُن کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدّت بیقراری ہوتی ہے اور اس شدید بیقراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو خدا اُن کی سنتا ہے … یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دعا قبول ہو جاتی ہے یہ سراسر غلط ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ مقبولین کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دوستانہ معاملہ ہے، کبھی وہ اُن کی دعائیں قبول کر لیتا ہے اور کبھی وہ اپنی مشیت اُن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دوستی میں ایسا ہی ہوتا ہے بعض وقت ایک دوست اپنے دوست کی بات کو مانتا ہے اور اُس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور پھر دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اپنی بات اُس سے منوانا چاہتا ہے۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں مومنوں کی استجابتِ دعا کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے اُدْعُونِيۤ أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ۶۱) یعنی تم مجھ سے دُعا کرو مَیں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔ اور دوسری جگہ اپنی نازل کردہ قضاو قدر پر خوش اور راضی رہنے کی تعلیم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِيْنَ الَّذِيْنَ إِذَآ أَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ: ۱۵۷،۱۵۶) پس اِن دونوں آیتوں کو ایک جگہ پڑھنے سے صاف معلوم ہوجائے گا کہ دعاؤں کے بارے میں کیا سُنّت اللہ ہے اور ربّ اور عَبد کا کیا باہمی تعلّق ہے۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱،۲۰)
ماشااللہ ایک مکمل مضمون ہے، ہمیشہ کی طرح حوالہ جات کی مدد سے مضمون کو سمجھنا آسان ہوا اور اس موضوع سے متعلق جو سوالات ذہن میں آتے تھے، اُن کا جواب مل گیا۔ جزاکم اللہ احسن الجزا۔ اللھم زد فزد۔ آمین