تمام کمالاتِ انسانی آنحضرتﷺ کو ملے اور ان میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے (قسط دوم۔ آخری)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۹ء)
آج جب مَیں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا تو جیسا کہ میرا عام طریق ہے سوائے اس کے کہ ان ایام میں تحریک جدید وغیرہ کی قسم کا کوئی خاص مضمون بیان کرنا ہو کوئی موضوع ذہن میں رکھ کر نہیں آیا کرتا۔ آج بھی کوئی مضمون میرے ذہن میں نہ تھا مگر جب مؤذن نے اذان کہی اور مَیں نے دُعا پڑھی اور اس میں یہ الفاظ تھے اٰتِ محَمَّدَانِالوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ۔ تو
میرا ذہن فوراً اس معترض کے اعتراض اور اس کے جواب کی طرف پھر گیا اور مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں آج اسی کے بارہ میں خطبہ بیان کروں۔
تو سوچنا چاہیے کہ کیا محمد رسول اللہ ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت حاصل نہیں۔ وسیلہ کے معنی قُرب کے ہیں اور جب ہم یہ دعا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے خدا! محمد (ﷺ) کو اپنا قُرب اور بزرگی عطا فرما۔ اب اگر تو اس کے یہ معنٰے ہیں کہ قُرب اور فضیلت محمد ﷺ کو حاصل نہیں تو اسلام کی بنیادہی باقی نہیں رہتی اور اگر حاصل ہے تو ایسی دُعا کرنا بیوقوفی ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کسی شخص نے قلم تو کان پر رکھا ہو اور تلاش کرتا پھرے کہ کہاں گیا۔ پس اگر محمد (ﷺ) کو وسیلہ اور فضیلت حاصل ہے تو پھر اس دُعا کے کیا معنے مگر حقیقت یہی ہے جو مَیں نے بیان کی ہے کہ آپ کو وسیلہ بھی حاصل ہے اور فضیلت بھی مگر جب اس کا ایک درجہ حاصل ہوجاتا ہے تو دوسرا سامنے آجاتاہے۔ہمارا خدا ایسی شان اور مرتبہ والا ہے کہ جب اس کے دربار میں ایک درجہ حاصل ہوتا ہے توسینکڑوں اَور نظر آنے لگتے ہیں اور آپ نے خود ہر اذان کے بعد مسلمانوں کو یہ دُعا سکھائی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جو مسلمان یہ کہے کہ آپ نے سارے مقام طے کر لئے ہیں اُسے یہ دعا نہیں مانگنی چاہیے کیونکہ کسی چیز کے مل جانے کے بعد اس کے لئے دُعا کرنا فضول ہے۔ پس جو شخص یہ سمجھے گا کہ آپ کے لئے اب کوئی درجہ باقی نہیں وہ رسولِ کریم ﷺ کے اس حکم پر عمل کرنے سے بھی محروم رہے گا۔ آپ کے یہ دُعا سکھانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وسیلہ اور فضیلت کی اتنی راہیں ہیں کہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتیں۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ مسلمانو! تم خدا تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہو۔ اس دُعا نے اس سوال کو جو مجھ پر کیا گیا تھا بڑی اچھی طرح حل کر دیا ہے۔ بیشک آنحضرت ﷺ کو ابراہیمی کمالات حاصل ہوئے، موسوی اور عیسوی کمالات حاصل ہوئے، کرشنی کمالات حاصل ہوئے اور آپ تو الگ رہے آپ کے خادموں میں سے ایک خادم نے یہ کہا ہے کہ
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرا بتمام
یعنی ہر نبی کو جو پیالہ پلایا گیا ہےوہ مجھے بھی بھر کر پلایا گیا اور
جب آپ کے خادمو ں کو وہ نعمتیں ملیں جو پہلے انبیاء کو دی گئیں اور نہ صرف معمولی طور پر بلکہ لب بہ لب بھرے ہوئے پیالہ کی صورت میں ملیں مگر باوجود اس کے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کے قرب کی راہیں اب محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ختم ہو گئیں۔
کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کوجو جام مِلا وہ بھرا ہوا تھا بیشک مرزا صاحب کو بھی وہی جام دیا گیا مگر وہ آدھا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو جام دیا گیا وہ بیشک حضرت مرزا صاحب کو بھی مِلا مگر حضرت عیسیٰ کو بھرا ہوا مِلا اور مرزا صاحب کو صرف ایک چوتھائی اور اس سےآپ کا یہ شعر بھی صحیح ثابت ہو گیا۔ مگر نہیں آپ نے فرمایا ہے کہ
داد آں جام را مرا بتمام
یہ تو ممکن ہے کہ عیسوی جام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کم مِلا ہو مگر یہ نہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو کم مِلا ہو۔ آپ کو بھرا ہوا دیا گیا ہے اور جب آنحضرت ﷺ کے خادموں کا یہ درجہ ہے تو آپ کے اپنے مقام کی بُلندی کا اندازہ بآ سانی ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ابھی آپ کے سامنے بھی مدارج کا ایک لامتناہی سلسلہ باقی ہے چنانچہ آپ نے خود یہ دُعا مسلمانوں کو کرنے کا حکم دیا کہ اٰتِ محَمَّدَانِالوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ۔ یعنی
اے خدا ! محمد رسول اللہ ﷺ نے بیشک بہت ترقیات حاصل کی ہیں مگر تیرے فضلوں کے مدارج لامتناہی ہیں اور ہمارا دل یہ نہیں چاہتا اور ہماری غیرت برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی ایسا مقام بھی ہو جو آپ کو حاصل نہ ہو۔
اس لئے آپ کو ترقیات کا اگلا مقام بخش۔ غور کرو اس سے کتنا غیر متناہی ترقیات کا رستہ کُھل جاتا ہے۔ مجھے اس وقت حدیث کے لفظ اچھی طرح یاد تو نہیں مگر مجھ پر یہ اثر ہے کہ ایک حدیث میں بھی اسی قسم کا مضمون آتا ہے کہ مومنوں کو جنت میں بالا مدارج ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آئیں گے اور جب وہ ان کی طرف توجہ کریں گے اور خدا تعالیٰ ان تک ان کو پہنچا دے گا تو پھر اس سے اوپر کے نظر آنے لگیں گے۔ اس حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قُرب کی راہیں غیر محدود ہیں اور یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے سب راہیں طے کر لی ہیں۔ آپ کی عزت نہیں بلکہ ہتک ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی راہیں تو غیر محدود ہیں اگر ہم کہیں گےکہ محمد رسول اللہ ﷺ سب کچھ حاصل کر چکے تو اس کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ آپ کی ترقی رُک گئی ہے اور اس عقیدہ میں آپ کی عزت نہیں بلکہ ہتک ہے۔ ہماری اس کوشش کی مثال وہی ہوگی جو کہتے ہیں کہ کسی ریلوے اسٹیشن پر کوئی فقیر بھیک مانگ رہا تھا۔ گاڑی میں ایک ڈپٹی صاحب بیٹھے تھے۔ کسی نے اسے کہا کہ یہ ڈپٹی ہیں ان سے مانگو۔ ڈپٹی نے اس کی امید اور توقع سے بہت زیادہ پیسے اسے دے دیے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا ’’خدا تینوں تھانیدار کرے‘‘یعنی خدا تعالیٰ تم کو تھانیدار بنا دے۔ حالانکہ یہ کوئی دُعا نہیں بلکہ اس کے لئے بد دُعاتھی کیونکہ اس کے ماتحت تو کئی تھانیدا ر تھے۔
پس
یہ کوئی اعزاز کی بات نہیں کہ ہم آنحضرتﷺ سے ایسی بات منسوب کریں جو آپ کو ترقیات سے محروم کر دے۔
خدا تعالیٰ نے یہ رستہ کھلا رکھا ہے کہ ساری امت آپ کی ترقیات کے لئے دعائیں کرتی رہے کہ یا خدا ! ہمارے محمد (ﷺ) کو اَور بلند درجات عطا فرما۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ کو تمام مدارج مل چکے ہیں تو یہ دعائیں بھی بند ہوجائیں گی کروڑوں مسلمان دعا کرنا بند کر دیں گے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کو پورا کرنے سے رُک جائیں گے اور دُعا کرنے والا خواہ کتنا حقیر بندہ کیوں نہ ہو خدا تعالیٰ اس کی دعا سنتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ حضرت موسیٰؑ حضرت عیسیٰ اور آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے فضل کیے ہیں مگر ایک حقیر بندہ بھی ایسا نہیں کہ وہ اپنے خدا کے حضور کھڑا ہواور یہ سب مل کر بھی اس کے درمیان آسکیں۔ چاہے
کوئی کتنا کمزور انسان ہو جب وہ درد اور سوز کے ساتھ دُعا کر ے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے ہرگز ضائع نہیں کرے گا
اور اگر یہ دعائیں بند ہوجائیں تو اس طرح وہ تحائف جو آنحضرت ﷺ کو پہنچتے ہیں بند ہوجائیں گے کیونکہ جب یہ یقین ہو جائے کہ اَور مقام کوئی باقی نہیں تو پھر دُعا کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوگی بلکہ درود بھی چھوڑنا پڑے گا کیونکہ یہ بھی تو بُلندئ درجات پر ہی دلالت کرتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِک وَسَلِّم کے معنے یہ نہیں کہ آپ کو روٹی اور کباب ملیں بلکہ اس سے روحانی برکات ہی مُراد ہیں اور اسی کا نام کمال ہے۔ تو ایسا عقیدہ رکھنے سے درود شریف کو بھی چھوڑنا پڑے گا اور جب کسی مسلمان کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو تحائف نہ پہنچیں گے تو وہ بھی آپ کی دُعا سے محروم ہوجائے گا۔ قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ جب کسی مسلمان کو کوئی تحفہ دیا جائے تو اس سے اچھا نہیں تو ویسا ہی تحفہ دے اور جب ہم آنحضرت ﷺ کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ اسے آپ کے پاس پہنچاتا ہے تو
آپ دعا کرتے ہوں گے کہ خدایا! اس بندے کو بھی وسیلہ اور فضیلت عطا فرما۔ اسی طرح جب درود آپ کی خدمت میں پیش ہوتا ہوگا تو ٓاپ دعا فرماتے ہوں گے کہ خدایا! اس شخص کے گھر کو بھی برکت سے بھر دے اور ان دُعاؤں کے طفیل انسان ہزاروں آفات سے محفوظ رہتاہے
لیکن جب یہ یقین ہو کہ آپؐ کے درجات میں ترقی ممکن نہیں تو ہر معقول آدمی دُعا کرنی اور درود پڑھنا چھوڑ دے گا اور اس طرح تمام ان برکتوں سے محروم ہوجائے گا جو آپ کے ذریعہ اسے ملتی تھیں۔
پس یہ عقیدہ بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جتنے کمالات سب انبیاء اور بزرگوں کو ملے ہیں یا بعد میں آنے والوں کو ملیں گے وہ سب آنحضرت ﷺ کو حاصل ہیں اور اگر ان معنوں میں کہا جائے کہ آپ کو تمام کمالات حاصل ہیں تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر یہ مطلب ہو کہ اب خدا تعالیٰ کے پاس بھی دینے کے لئے کچھ نہیں رہا تو یہ صحیح نہیں اور ہر سُننے والا سُن لے کہ خواہ وہ اس میں ہتک سمجھے یا کچھ اَور، حقیقت یہی ہے کہ ہمارے خدا کے پاس نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود محمد رسول اللہ ﷺ کو دینے کے لئے بھی بہت کچھ ہے۔ اس کے خزانے غیر محدود ہیں اور کوئی ان خزانوں کو ختم نہیں کر سکتا۔(الفضل ۱۲؍جنوری۱۹۴۰ء)