نماز میں خشوع کی اہمیت
نماز میں گداز رہنے والا، خشوع کرنے والا، دوسری قسم کی یاد الٰہی میں بھی یہی نقشہ اپنے پر طاری رکھتا ہے جو نماز میں ہوتا ہے۔ جس کی وضاحت مَیں پہلے لغوی معنوں میں کر آیا ہوں جو خشوع کے لغوی معنے بیان کئے ہیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر ایک طور کی یاد الٰہی میں فروتنی اختیار کرتے ہیں اور آدمی چلتے پھرتے بھی یاد الٰہی کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت بھی عاجزی ہوتی ہے۔ اور جب ہر ایک طور کی یاد الٰہی ہو تو ہر عمل چاہے وہ روزمرہ کے معاملات کا ہو خدا تعالیٰ کی یاد کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے احکام کی یاد دلاتے ہوئے عجز اور خوف کی حالت پیدا کئے رکھتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قویٰ اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۸۹)
یہاں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا انسانی پیدائش کے دَوروں سے مثال دی ہے تو یہ اب اس کی مثال بیان ہو رہی ہے۔ جس طرح نطفہ رِحم میں جا کر بچہ بن کر پیدا ہوتا ہے اور پھر تمام خصوصیات والا ایک کامل انسان بن جاتا ہے۔ اسی طرح خشوع روحانی ترقی کے مدارج طے کرواتا ہوا روحانی لحاظ سے انسان کو مکمل کر دیتا ہے۔… حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو۔ اگر نماز شروع کرنے سے پہلے اس میں کوئی اَنا یا تکبر کا حصہ تھا بھی تو نماز ختم کرتے وقت اس کا دل ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍اپریل ۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی ۲۰۱۵ء)