احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مسیح موعودؑ کے والد گرامی کا عزم وہمت
(گذشتہ سے پیوستہ) حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنی یہ ضبط شدہ جاگیر واپس حاصل کرنے کے لیے عدالت کا رخ کیا جہاں سے صرف وہ گاؤں واپس ملے جو کہ سکھ حکومت کے آخری عہد میں آپ کے پاس تھے۔ یعنی تین پرانے گاؤں اور دوتوخود حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نےہی بنائے تھے اور ان کی ملکیت بھی برائے نام سی کاغذی ملکیت تھی اس کے علاوہ اورکچھ نہ تھا۔البتہ باقی ماندہ ریاست کے گاؤں کبھی بھی واپس نہ مل سکےاور اس کی حسرت ہی آپ کے دل میں رہی۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے والد ماجد کے اسی ہم وغم اور حسرت کا ذکر کرتے:’’میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اورمہموم رہتے تھے۔ انہوں نے پیروی مقدمات میں سترہزار روپیہ کے قریب خرچ کیاتھا جس کاانجام آخر ناکامی تھی۔کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھےاور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا۔اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے…اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی۔مگر جوکچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔اسی وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اورمحزون رہتے تھے…‘‘(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۸۷۔۱۸۸حاشیہ)
آپ کے عزم وہمت کی یہ پُرحسرت داستان تو الگ رہی لیکن اس سب کے باوجود آپ کی شجاعت اور اولوالعزمی آپ کی عزت اور آپ کے اعلیٰ کردارکاایک لازمہ رہی۔ اگریہ کہاجائے کہ آپ کی ساری زندگی اسی جرأت اوربہادری اور اولوالعزمی سے عبارت تھی تومبالغہ نہ ہوگا۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’اولوالعزمی کی خاص شان ان میں پائی جاتی تھی۔شجاعانہ اولوالعزمی ان سے ہمیشہ مشاہدہ میں آتی تھی۔ایک مرتبہ گھوڑی پر سے گر پڑےاور سخت چوٹ آئی۔ مگر اس چوٹ کی ذرّہ بھی پروا نہ کر کے فوراً لاٹھی لے کر چلتے ہوئے اپنے مکان پر پہنچ گئے۔ باہر جب نکلتےتو ہمیشہ کمر بستہ نکلتے گویا ہر وقت ایسے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے تھےجو پیش آ جاوے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ۵۲)
آپ کے عزم وہمت کی ایک زبردست مثال ایک مسجد کی تعمیر کے لئے اس جگہ کا خریدنا بھی ہےجو ہندوؤں اور قادیان کے دیگر باشندوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ مرزاصاحب کو یہ جگہ خریدنے نہیں دیں گے۔ان حالات میں آپ نے عزم کیا کہ اگر مجھے اپنی ساری جائیداد بھی فروخت کرنی پڑے تو میں اس زمین کو خرید کر مسجدبناؤں گا۔چنانچہ ایساہی ہوا اوریہ مسجدآپ نے بنائی جو مسجد اقصیٰ کے نام سے آج بھی قادیان میں موجودہے اور آپ کے پاکیزہ عزم وہمت کی روشن مثال ہے جو قیامت تک ان شاءاللہ قائم رہے گی۔
اور یہ بھی آپ جیسے عزم وہمت کے پیکر کا ہی کمال تھا کہ قادیان واپس آنے کے بعدقادیان کی تعمیر از سرِ نوکی۔وہ مکانات جو گرگئے تھے وہ بنائے۔یہاں تک کہ دو نئے گاؤں آباد کیے اور اپنے دونوں بیٹوں کے نام پر ان کانام رکھا۔ایک ’’احمدآباد‘‘ اور ایک ’’قادرآباد‘‘۔
ان دونوں کے متعلق ’’سیرت المہدی‘‘ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دولڑکے تھے ایک حضرت صاحب جن کا نام مرزا غلام احمد تھا اور دوسرے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت صاحب سے بڑے تھے۔ ہمارے دادا نے قادیان کی زمین میں دو گاؤں آباد کر کے ان کو اپنے بیٹوں کے نام موسوم کیا تھا چنانچہ ایک کا نام قادرآباد رکھا اور دوسرے کااحمد آباد۔ احمد آباد بعد میں کسی طرح ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا اور صرف قادر آباد رہ گیا۔چنانچہ قادر آباد حضر ت صاحب کی اولاد میں تقسیم ہوا اور اسی میں مرزا سلطان احمد صاحب کا حصہ آیا لیکن خدا کی قدرت اب قریباً چالیس سال کے عرصہ کے بعد احمد آباد جو ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل کر غیر خاندان میں جا چکا تھا واپس ہمارے پاس آگیا ہے اور اب وہ کلیۃً صرف ہم تین بھائیوں کے پاس ہے یعنی مرزا سلطان احمد صاحب کا اس میں حصہ نہیں۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادر آباد قادیان سے مشرق کی جانب واقع ہے اور احمد آباد جانب شمال ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۲۵)
قادیان کی موجودہ صورت حال کے مطابق قادرآباد ’’سرائے طاہر‘‘ کے تقریباً پچھلی جانب ایک گاؤں ہے اوراس کا موجودہ نام ’ترکھانانوالہ‘ہے۔ جبکہ احمد آباد قادیان کے شمال مشرق کی جانب قدرے فاصلے پر ریلوے لائن کراس کرنے کے بعد ہے اور اس کا موجودہ نام ’بھگت پورہ‘ ہے۔
آپ کی اعلیٰ انتظامی اورفوجی خدمات
ابھی اوپر ایک اقتباس میں ذکر آیاہے کہ علاوہ آپ کی جائیداد کے حکومت کی طرف سے انعام یا سالانہ پنشن کی صورت میں سات سوروپے ملتے تھے اور آپ کے ایام ملازمت کی پنشن اس کے علاوہ تھی۔آپ کی ملازمت کے سلسلہ میں جوتفصیلات ملتی ہیں اس کے مطابق جب قادیان کی جدی ریاست مہاراجہ رنجیت سنگھ نے واگزار کردی تو اسی زمانہ میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؒ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں ملازم ہوگئے اور کشمیرکی سرحد پر بہادری کے جوہر دکھاتے رہے۔
اسی طرح یہ بھی ملتاہے کہ ایک وقت آپ کشمیر کے ’’صوبہ‘‘ کے عہدہ پربھی فائز رہے اوریہ عہدہ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کے برابرہواکرتاتھا۔ان دونوں امورکی تفصیل جو بیان ہوئی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ سیرت المہدی میں حضرت مسیح موعودؑ سے روایت کرتے ہوئے حضرت ام المؤمنین اماں جانؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ کو بیان فرمایا:’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا کشمیر میں صوبہ تھے۔اس وقت حضرت خلیفةالمسیح ثانی بھی اوپر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ جس طرح انگریزوں میں آجکل ڈپٹی کمشنر اور کمشنر وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح کشمیر میں صوبے گورنر علاقہ ہوتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۰)
اسی طرح آپ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک وفادار فوجی جرنیل کی حیثیت سے بھی قابل ذکر خدمات سرانجام دیں۔چنانچہ سرلیپل گریفن جس نے پنجاب کے نامی گرامی خاندانوں اوران کے تذکرہ پرمشتمل ایک کتاب The Punjab Chiefs لکھی۔وہ اپنی اس کتاب میں لکھتاہے:
“Ranjit Singh, who had taken possession of all the lands the Ramgarhia Misal, invited Ghulam Murtaza to return to Kadian, and restored to him a large portion of his ancestral estates. He then,with his brothers, entered the army of the Maharaja, and performed efficient service on the Kashmir frontier and at other places.”
(The Punjab Chiefs; Revised Edition, Vol:2 Page:41)
ترجمہ :رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضٰی کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک بڑا حصہ اسے واپس کر دیا۔ اس پر غلام مرتضٰی اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔
وفاکیش و وفاشعار
ہرقوم اور خاندان کا کوئی نہ کوئی قابل ذکر وصف اور خوبی ہوتی ہے اوروہ اس کا طرۂ امتیاز ہوتاہے۔دین اسلام سے محبت اس عظیم خاندان کے خون اورسرشت میں شامل تو تھی ہی البتہ اس کا طرہ ٔ امتیاز اس کااخلاص ووفاتھا۔قادیان کی ساڑھے تین سوسالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ اس خاندان نے جس کے ساتھ ایک بار تعلق رکھا تو پھر اس عہدوفاکے ایسے باب رقم کیے کہ تاریخ میں کم ہی ایسے واقعات ملتے ہیں۔اورتاریخ بھی پھر برصغیر کی تاریخ، کہ جہاں چڑھتے سورج اور بدلتے موسم کے ساتھ وفاؤں کے رخ بھی بدلنے عام تھے بلکہ اس کو ’سیاسی بصیرت‘ اور ’دانشمندی‘ جیسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔اور معمولی سی ریاست وسیادت اور روپے پیسے کے لیے اس طرح کے سینکڑوں،’ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن‘عام تھے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قادیان کے اس بزرگ خاندان نے تاریخ کے تین ایسے نازک ترین طوفانی موڑ دیکھے کہ جس میں بڑے بڑے خاندانوں نے اپنی وفاؤں کے رخ وقت اورمصلحت کی ہواؤں کے دوش پر ازسرِنومتعین کیے اور بڑے بڑے پختہ عہدوپیمان بھول گئے۔ہندوستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔لیکن قادیان کے اس خاندان نے جو ایک شاہی اور صاحب اقتدارواختیار خاندان تھا اپنے ساتھ فوج رکھتاتھا عوام الناس کی وفاداریاں رکھتاتھا ایسے مرحلے کئی بار آئے کہ جب یہ خاندان اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے بڑی آسانی سے اپنی آزادسلطنت قائم رکھ سکتاتھا لیکن…
ہم نے سیکھانہیں اندازبدلتے رہنا
جب حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربار میں طلب کیا اورپورے اکرام کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے قادیان کی جاگیر اورکچھ دیہات واپس کردیے تو اس خاندان نے بھی حق دوستی اداکرتے ہوئے اپنی وفا اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور پھر کبھی پیچھے نہ ہٹے۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گئے۔اورپھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت جب تک قائم رہی یہ خاندان اپنی وفا کے مظاہرے کرتا رہا۔ اورکبھی منہ نہیں موڑا۔ انہوں نے کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں۔نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورہ میں بھی حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ہمیشہ فوجی خدمات پر مامور رہےاور ۱۸۴۱ء میں وہ ایک پیادہ فوج کے کمیدان بناکر پشاور بھیجے گئے اور مفسدہ ہزارہ میں انہوں نے اپنی نمایاں خدمات کا ثبوت دیا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہواہے کہ رنجیت سنگھ ۱۸۳۹ء میں جب اس جہان فانی سے رخصت ہوا تو جس حکمت اور طورطریق سے اس نے اپنی حکومت کو مستحکم کیاہواتھا اس حکومت کا شیرازہ چند سال کے اندربکھر کررہ گیا۔اور پھر طوائف الملوکی کا ایسا دور دورہ ہوا کہ سکھ سرداروں تک نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت سے بے وفائی کرتے ہوئے حالات کے رخ دیکھ کر انگریزوں کا ساتھ دینا شروع کردیا، وہ انگریز جو کہ ہرجائز اورناجائز طریق سے اس حکومت کو ختم کرنے کا تہیہ کرچکے تھے اور وفاداریاں خرید رہے تھے۔ان حالات میں حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے پاس دو’’بہترین اور سنہری‘‘ مواقع تھے۔ایک موقعہ یہ تھا کہ حضرت مرزاصاحب اپنی آزاد حکومت کا اعلان کردیتے اورخود، خودمختار سربراہ بن جاتےجس کے مواقع اورحالات بہت مناسب تھے اورکوئی روک ٹوک نہ ہوسکتی تھی۔لیکن آپ کے باوفا ضمیر نے ایسا گوارہ نہ کیا۔
ایک دوسراپہلو یہ تھا کہ انگریزوں کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیتے اور جاگیراورعہدہ بھی پاتے۔لیکن اس بڑی سے بڑی جاگیراور ریاست کی پیشکش سے بھی آپ کے پائے وفا میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی۔جبکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ وہی مرزاصاحبؒ ہیں جو اپنی کھوئی ہوئی ریاست کو واپس لینے کے لیے ایسے کوشاں رہے کہ ہندوستان کا پیدل سفر تک کیا،ہرممکن کوشش اورتگ ودو کی، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی وہ ساری جائیداد واپس نہیں کی۔صرف چندایک دیہات دیے جواشک شوئی کے مصداق بھی باورنہیں کیے جاسکتے تھے۔اوریہی وہ سکھ حکومت تھی کہ جس نے قادیان اور اس کے ساتھ ملحقہ ۸۵ سے زائد دیہات کو چھین لیااورقادیان کی بستی سے اس خاندان کو بڑی بے بسی اوربے کسی کی حالت میں جلاوطن کردیاتھا۔مسجدوں کوگراکر دھرم سالوں میں بدل دیا،باغوں کو اجاڑدیا، مکانوں کو ویران کردیا،کتب خانوں کوقرآن کریم سمیت آگ لگادی۔ یہ ساراظلم اس خاندان نے دیکھا اور گو کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب اس وقت اپنے لڑکپن کے دورسے گزررہے تھے لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سارامنظر یقیناً گھوم جاتاہوگااوران کی سنگدلی اور بے رحمی کا یہ واقعہ بھی کہاں بھولاہوگا کہ جب یہ بائیس سالہ غمزدہ نوجوان اپنے باپ کی نعش اپنے کندھوں پر اٹھاکر اس کو آبائی قبرستان میں دفن کرنے کے لیے لایاتو انہوں نے دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکارکردیا۔ہرچند کہ اس جری بہادر نے پھر بھی دفن تو اسی قبرستان میں کیالیکن یہ سب ظلم وستم وہ بھولانہیں ہوگا اوراب ان سب کا بدلہ لینے کا ایک ’’سنہری موقعہ‘‘ تھا سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر مل رہا تھا لیکن نمک حلالی اور وفاداری اس خاندان کے خون میں رچی ہوئی تھی۔انہوں نے اپنے تین دیہات پر قناعت کرتے ہوئے اس ساری پیشکش کوٹھکرادیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہدحکومت کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ سے وفاداری کا تعلق ٹوٹنے نہ دیا۔
اس تاریخی حقیقت کو حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کےپوتے اور جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بیان فرماتے ہیں:’’بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیئے۔اوریہی وجہ ہے کہ وہاں ان کی جاگیریں موجودہیں۔یہاں سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گاؤں بھاگووال ہے۔وہاں سکھ سردار ہیں۔مگروہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا۔مگر ہمارے داداصاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کرسکتا۔کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئی۔اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کےخلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گاؤں واپس کئے تھے پھر وہ کہاں گئے؟ وہ اسی وجہ سے انگریزوں نے ضبط کرلئے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا اورکہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے ان کے خاندان کی غداری نہیں کر سکتے۔ بھاگووال کے ایک اسّی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کو خود سکھ حکومت کے وزیر نے بلا کر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کرلو خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مرواؤ۔مگرہمارے داداصاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اوراسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کرلی بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا۔مگر کیا ملا۔قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی۔باقی بھینی، ننگل اور کھارا کا مالکان اعلیٰ قراردے دیا گیا مگریہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیاہے؟ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طورپر دی گئی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی…تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی توہمارے تایاصاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فروکیا تھا اور اس وقت سے ٹوانوں اورنون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں۔پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت سے نہایت دیانتداری کا برتاؤ کیا اوراسکی سزا کے طورپر انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کرلی ورنہ سری گوبندپور کے پاس اب تک ایک گاؤں موجودہے جس کانام ہی مغلاں ہے اوروہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اوراس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی اوریہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے پہلے کی بات ہے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ ۴۲-۴۳)