منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام
فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار
سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار
عزّت و ذِلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں
تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار
میرے جیسے کو جہاں میں تُو نے روشن کر دیا
کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار
تیرے اے میرے مُربی کیا عجائب کام ہیں
گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار
اِبتدا سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
پر مجھے تُو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار
اِس میں میرا جُرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تا رَدْ کروں حکمِ شہِ ذی الاقتدار
اب تو جو فرماں مِلا اس کا ادا کرنا ہے کام
گرچہ مَیں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دِلفگار
دعوتِ ہر ہَرْزَہ گو کچھ خدمتِ آساں نہیں
ہر قدم میں کوہِ ماراں ہر گزر میں دشتِ خار
چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب
پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پُکار
قبضۂ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا
پھیر دے میری طرف آ جائیں پھر بے اختیار
گر کرے معجز نمائی ایک دم میں نرم ہو
وہ دِل سنگیں جو ہووے مثلِ سنگِ کوہسار
(در ثمین صفحہ ۱۲۶-۱۲۷)