اللہ تعالیٰ متقیوں اور محسنین کے ساتھ ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍ فروری ۲۰۱۲ء)
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل:129)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یقیناً اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’قرآنِ شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14صفحہ342)
پس یہ تقویٰ ہی وہ بنیادی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے۔ اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی جیسا کہ سب نے سن لیا اور ترجمہ بھی مَیں نے بیان کر دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا (النحل: 129) یقینا ًاللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا، پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اُن راستوں کو اختیار کیا جو تقویٰ پر لے جانے والے راستے ہیں۔ پس اس بات سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں، ایک وہ جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں اور ہر نیکی یا ہر اچھے عمل کو کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ دوسرے وہ لوگ جو گو بعض اچھی باتیں اور نیک کام کر لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ اُن کے سامنے نہیں ہوتا، یا وہ ہر کام کرتے وقت اس بات کو نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہماری نگرانی فرما رہا ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے۔
اس دوسری قسم میں وہ لوگ بھی ہیں جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں یا کم از کم اتنا مانتے ہیں کہ ایک خدا ہے جو زمین و آسمان کا پیداکرنے والا ہے۔ لیکن کوئی کام کرتے ہوئے، کوئی عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اُن لوگوں کے پیشِ نظر نہیں ہوتی۔ کوئی نیک کام بھی کر رہے ہوں تو یہ مقصدنہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔
اور دوسرے وہ جو سرے سے خدا تعالیٰ پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نہیں ہوتا۔ میں اُن لوگوں کے ساتھ ہوتاہوں جو پہلی قسم کے لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت تقویٰ پر نہ چلنے والوں کو بھی بعض چیزوں سے، بعض نعمتوں سے اتنا ہی نواز رہی ہوتی ہے جتنا ایک متقی کو لیکن یہ صرف دنیاوی چیزوں میں حصہ ہے۔ مثلاً سورج کی روشنی ہے، ہوا ہے۔ ان چیزوں سے ایک مومن متقی بھی اُتنا ہی فیض پا رہا ہوتا ہے جتنا ایک دہریہ۔ یا دنیاوی چیزیں ہیں مثلاً سائنس میں ترقی سے یا جو نئی دنیاوی تعلیم ہے، تجربات ہیں، نئی ایجادات ہیں، اُن کے لئے دماغ لڑانے کے بعد اُن سے حاصل شدہ نتائج سے ایک دہریہ بھی محنت کا اُتنا ہی پھل لے گا جتنا کہ ایک متقی اور پرہیزگار۔ زمین کی کاشت کرنے میں مثلاً ایک زمیندار کی جو محنت ہے، اس سے ایک دہریہ بھی فائدہ اُٹھاتا ہے اور متقی بھی۔
جو تقویٰ پر نہ چلنے والے ہیں یا دہریہ ہیں، خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والے ہیں، ان پر بھی اگر اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت اور رحمانیت کام نہ کر رہی ہو تو ایک لمحہ کے لئے بھی ان کا زندگی گزارنا مشکل ہے اور وہ ایک لمحہ بھی اس دنیاوی زندگی کا نہیں گزارسکتے۔ پس جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کیا اس کے لئے دو راستے رکھے، نیکی کا اور بدی کا۔ لیکن بعض معاملات میں دونوں طرح کے عمل کرنے والوں کو بعض نعمتوں سے مشترکہ طور پر نوازا ہے۔
بہر حال یہاں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے لئے اپنا جو قانونِ قدرت ہے وہ ایک رکھتا ہے۔ لیکن یہاں مَیں اس بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا جلوہ دکھانے کے لئے ایک ہی قسم کے حالات میں بعض دفعہ، بعض اوقات مومن متقی کی کوشش کو زیادہ پھل لگاتا ہے۔ مثلاً زمیندارہ میں بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی فصل دعاؤں کی وجہ سے زیادہ پیداوار دے جاتی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب سندھ میں زمینیں آباد کیں تو نگرانی کے لئے شروع شروع میں بعض بزرگوں کو بھی بھیجا۔ اُن میں ایک حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری تھے۔ ایک دفعہ پہلے بھی مَیں بیان کر چکا ہوں کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دورہ پر تشریف لے گئے۔ کپاس کی فصل دیکھ رہے تھے تو انہوں نے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا، یہ صحابی بھی تھے کہ کیا اندازہ ہے، اس میں سے کتنی فصل نکل آئے گی۔ انہوں نے اپنا جو اندازہ بتایا وہ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وغیرہ جو ساتھ تھے، اُن کے خیال میں یہ غلط تھا۔ تو وہ یا غالباً درد صاحب دونوں باتیں کرنے لگے کہ حضرت مولوی صاحب کچھ زیادہ اندازہ بتا رہے ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے اُن کی باتیں سُن لیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب! جو اندازہ مَیں بتا رہا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ کم از کم اتنا ضرور نکلے گا کیونکہ میں نے ان کھیتوں کے چاروں کونوں پر نفل ادا کئے ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ میرے نفل اس پیداوار کو بڑھائیں گے۔ چنانچہ اُتنی پیداوار نکلی۔ (ماخوذاز سیرت احمد از حضرت قدرت اللہ صاحب سنوری ؓ صفحہ2مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1962ء)
تو اللہ تعالیٰ ایک ہی طرح کے موسمی حالات میں، ایک ہی طرح کی فصلوں میں جو اِن پُٹس (Inputs) ڈالے جاتے ہیں، جو کھاد، بیج وغیرہ چیزیں ڈالی جاتی ہیں، اُن کے باوجود دعاؤں کے طفیل اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔