رحمٰن خدا کے احسانوں کی ناقدری عذاب میں مبتلا کر دے گی
دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ لوگ رحمٰن خدا کو سمجھیں ورنہ رحمٰن خدا کے احسانوں کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے ایسے عذابوں میں مبتلا ہوں گے جو کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے۔ کبھی ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی صورت میں آتا ہے۔ کبھی ایک قوم دوسری قوم پر ظالمانہ رنگ میں چڑھائی کرکے ان سے ظالمانہ سلوک کرکے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمینی اور سماوی عذاب آتے ہیں۔ پس دنیا کو ان عذابوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا کام ہے، جس کا بہترین ذریعہ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا ہے کیونکہ مُردوں کو زندگی دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پس یہ ایک بہت بڑا فرض ہے جو احمدیت میں شامل ہونے کے بعد ہم پرعائد ہوتا ہے۔ اپنے اپنے ماحول میں، اپنے عمل سے بھی اور دوسرے ذرائع سے بھی رحمٰن خدا کا یہ پیغام پہنچائیں۔ اس انعام کا دوسروں کے سامنے بھی اظہار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور یہ کرنے سے ہی پھرہم بھی رحمٰن خدا سے ڈرنے والوں میں شمار ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہی، اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف جو اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو، اس کا یہ پیغام پہنچا رہے ہوں گے۔
قرآن کریم میں رحمٰن کے حوالے سے ہی ذکر ملتا ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کوپیغام پہنچایا اور کس طرح نصیحت فرمائی۔ فرماتا ہےیٰۤاَبَتِ لَا تَعۡبُدِ الشَّیۡطٰنَ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ عَصِیًّایٰۤاَبَتِ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ فَتَکُوۡنَ لِلشَّیۡطٰنِ وَلِیًّا(مریم:45-46) اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کر، شیطان یقیناً رحمٰن کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ یقیناً مَیں ڈرتا ہوں کہ رحمٰن کی طرف سے تجھے کوئی عذاب پہنچے۔ پس تو اس وقت شیطان کا دوست نکلے۔
آج دنیامیں قسم ہا قسم کی بت پرستی ہے۔ اس بت پرستی میں ڈوب کر لوگ شیطان کی عبادت کر رہے ہیں۔ رحمٰن خدا کو سب بھول چکے ہیں یا کہنا چاہئے اکثریت بھول چکی ہے۔ اس طرف کسی کی نظر جانے کو تیار نہیں کہ رحمٰن خدا کا شکر گزار بنے، مغرب اور یورپ کی دیکھا دیکھی مسلمان کہلانے والے بھی رحمن سے عملاً تعلق توڑ چکے ہیں۔ آج اس کے نتیجے بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ دنیا اور دنیا کی ہوا و ہوس سب سے پہلے ان کا مطمح نظر بن چکی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ جنوری ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍ فروری ۲۰۰۷ء)