انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے
قرآن شریف کی اصطلاح کی روسے خداتعالیٰ کانام رحمٰن اس وجہ سے ہےکہ اُس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اس کےمناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھراس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کےلئے مہیا کیں۔ پرندوں کےلئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کےلئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کےلئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تا وہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں۔ پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی۔ ہاں انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہےکیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہورہی ہے اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدا رحمٰن ہے۔(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۴۹،۲۴۸)
خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط بہ شرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے موخر ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے اول صفت رحمانیت ظہور میں آئی ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۴۵۱ حاشیہ)